14 اگست کیا ہم آزادی کا حق ادا کررہے ہیں

کیا ہم نے اس عظیم مملکت خداداد کے امانت دار اور محافظ ہونے کا حق ادا کیا؟


عہد کریں کہ اس ملک کی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ (فوٹو: فائل)

قائداعظم محمد علی جناح کی کاوشوں اور ولولہ انگیز قیادت کا صلہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، جہاں ہمالیہ کے برف پوش پہاڑی سلسلے فطرت کی نشانیاں ہیں۔ علامہ اقبال کے خوابوں کا مسکن اور جہاں، مملکت خداداد پاکستان جس میں دریائے سندھ اور دریائے جہلم عظمت رفتہ کی داستان سناتے چلے جاتے ہیں۔


چوہدری رحمت علی کے تجویز کردہ نام سے موسوم ریاست پاکستان جہاں چولستان اور تھر کے صحرا عظیم باسیوں اور بہادر لوگوں کی آماجگاہ ہیں۔ حفیظ جالندھری کے تحریر کردہ قومی ترانے سے مزین اسلامی سلطنت پاکستان، جہاں بلوچستان کی سرزمین معدنی خزانوں سے آراستہ و پیراستہ ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی انتھک ہمت و جرات سے نوازا گیا پاکستان، جس کے شمالی علاقہ جات گویا جنت الفردوس کی وادیاں ہیں۔ ٹیپو سلطان کی قربانیوں کا نتیجہ ملک پاکستان جو سائبیریا سے آنے والے لاکھوں پرندوں کو اپنے اندر ہر سال سمو لیتا ہے۔


سلطان محمود غزنوی کے کفر پر 17 حملوں سے شروع ہونے والی عظیم تحریک کے صلے میں ملنے والا یہ پیارا وطن پاکستان، جو داتا گنج بخش، شاہ عبداللطیف بھٹائی، بابا فرید الدین گنج شکر، شاہ ولی اللہ، سید احمد شہید کی روحانی سرزمین ہے۔ محمد بن قاسم کی برصغیر میں اسلام کی ترویج کے حاصل کے طور پر ملنے والا یہ چمن پاکستان، جو میدانی علاقے کے ممالک میں دنیا میں سب سے زیادہ گلیشیئرز کا حامل ہے۔


مقبوضہ کشمیر کے سید علی گیلانی مرحوم کے خوابوں کی تعبیر پاکستان، جو 50 لاکھ سے زائد افغانی پناہ گزینوں کو افغانستان سے زیادہ سہولیات فراہم کر رہا ہےـ بنگلہ دیش میں پھانسی کے پھندے پر جھولنے والے بہادر جماعت اسلامی کے لیڈروں کی نگاہوں کا مرکز پاکستان، جس کا پولیس اور فوجی دستہ گزشتہ کئی دہائیوں میں یو این او کے امن مشن کا سب سے بڑا دستہ ہوتا تھا۔ شیر بنگال مولوی فضل الحق کی محبوب ریاست پاکستان، جہاں کا شہر لاہور مغلیہ فن تعمیر کی عظیم جھلک ہےـ


ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ناقابل تسخیر بنایا گیا عظیم وطن پاکستان، کہ جہاں دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس ایدھی ایمبولینس کروڑوں افراد کو سروسز فراہم کرچکی ہے۔


ڈاکٹر روتھ فاؤ کی عظیم المرتبت ہستی جو پاکستان میں اپنی خدمات پیش کرتے کرتے امر ہوگئیں، ان کی زندگی کی شمع سے روشن ریاست پاکستان، جو واحد اسلامی نیوکلیئر اسٹیٹ اور شاہراہِ ریشم اور سی پیک جیسی شاہراہوں کا حامل ہے۔


علم سے محبت کرنے والی ملالہ یوسف زئی جو نوبل پرائز کی علمبردار ہے، اس کا دیس پاکستان جو علی معین نوازش، ارفع کریم اور ان جیسے لاکھوں علم کے مجسموں کو پروان چڑھا چکا ہے۔


الغرض وقت کی بندش ملحوظ خاطر نہ ہو تو پاکستان کے درخشندہ پہلوؤں کو بیان کرتے کرتے زندگی کی شام ہو جائے۔


یہ 14 اگست 2024 ہم سے متقاضی ہے کہ کیا ہم نے اس عظیم مملکت خداداد کے امانت دار اور محافظ ہونے کا حق ادا کیا؟ ان تمام مشاہیر کی ارواح جنت میں بے چین ہیں کہ آج کا پاکستان کس سمت اور رخ پر متعین ہے۔


پاکستان میں 60 سے زائد خوبصورت جھیلوں کا پانی اور خوبصورت جھرنوں، دریاؤں کا پانی متفکر ہے کہ کیا یہ عظیم سلطنت کرپشن، لوٹ مار اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کےلیے بنی تھی۔ ہمالیہ کے پہاڑ اور شمالی علاقہ جات کی برف پوش چوٹیاں آہ و بکا کرتی ہیں کہ یہ عظیم وطن معاشی استحصال کا شکار کیوں ہے اور یہاں بدانتظامی، افراتفری کیوں پائی جاتی ہے۔ اور اب وطن کے اداروں سے بیزاری کا عالم کیوں ہے۔


یہ 14 اگست بہت اہم ہے۔ اربابِ اختیار، اہل وطن اور اہل علم و سخن سب اپنی ذمے داریاں پہچانیں اور اس وطن سے پیار کریں اور تمام منفی جذبات اور منفی اعمال سے پرہیز کریں اور عہد کریں کہ اس ملک کی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔