کھیل کود کھیلوں کی دنیا سے فی الحال اتنا ہی
عجیب دنیا ہے یہ گیمز کی بھی۔ جو داخل ہوا سو گیا سمجھو۔ حقیقی دنیا میں لوٹنا ہی نہیں چاہتا۔
گلی ڈنڈا اور کنچوں کا کھیل گلی محلوں میں دھڑا دھڑ کھلنے والی ویڈیو گیمز کی دکانوں نے کھڈے لگایا اور پھر ان ویڈیو گیمز کی ایسی تیسی ''اٹاری'' نے کردی۔ اس کے بعد بھی جانے کیا کچھ ہوا۔ ذہن پر زیادہ زور نہیں ڈال سکتا کہ ڈاکٹر نے منع کیا ہے۔ تھوڑا آپ بھی سوچیں کہ پچھلے وقتوں میں کیسی کیسی برقی مشینوں پر کیا کچھ کھیلا اور کتنا مزہ آیا۔
پھر ہم کمپیوٹر کی میموری میں محفوظ گیمز سے لطف اندوز ہونے لگے اور پھر ڈیجیٹل دور آگیا۔ آن لائن کھیلے جاؤ، اسکور بناؤ اور ورچوئل کمائی بھی کرو۔ عجیب دنیا ہے یہ گیمز کی بھی۔ جو داخل ہوا سو گیا سمجھو۔ حقیقی دنیا میں لوٹنا ہی نہیں چاہتا۔ کٹ جاتا ہے گھنٹوں کے لیے اپنوں سے، اپنی دنیا سے اور کام سے بے نیاز ہو کر جانے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ ذہن کیا کچھ سوچتا ہے، آنکھیں عجیب و غریب مناظر دیکھتی ہیں اور کی بورڈ کے ذریعے زیرو بھی ہیرو بن کر دشمن کو پھڑکاتا، اس کی کمیں گاہیں تباہ کرتا، پہاڑ، دریا، جنگل بیابان، میدان عبور کرتا چلا جاتا ہے۔ آگے اور آگے، بہت آگے جانے کی آرزو میں دیوانہ ہوا جاتا ہے۔ ہر قسم کا بھاری اسلحہ، توپ خانہ چلانا کیا مشکل ہے، یہ یوزر جنگی جہاز، ہیلی کاپٹر اور آبدوزیں بھی آپریٹ کرتا ہے۔ امی تو امی ہیں، ابا بھی بلائیں تو ''آیا بابا'' ''بس دو منٹ آتا ہوں'' کہہ کر ٹال جاتا ہے۔
باپ کا ڈر نہ ماں کی چنتا، دفتر میں ہو تو باس کو دھوکا دینے کے سو طریقے ہیں۔ جوں ہی افسر کی نظر پڑی ایک کلک کے سہارے ورک شیٹ کھول کر بیٹھ گیا اور کھاتے بنانے لگا۔ آن لائن یوزر اپنے ضروری کام بھی اسی مزے کی نذر کر دیتا ہے۔
فٹ بال، ہاکی تو یوں بھی نوجوانوں کی نظر میں نہیں جچتا اور رہی بات کرکٹ کی تو اب شاید ہمارے نوجوان کھلاڑی گراؤنڈ اور مناسب جگہ نہ ہونے کا بہانہ کر کے آن لائن ہی اس گیم سے دل بہلا رہے ہیں۔ ٹینس، بیڈمنٹن، والی بال وغیرہ وغیرہ کا ذکر بیکار ہی ہے۔ ہاں البتہ ون وہیلنگ کا جنون ابھی برقرار ہے۔ ہاں ہم ہر ایسا کام کرنا چاہتے ہیں جس میں جان کو خطرہ ہو اور دوسرے ضرور ضرور تنگ ہوں۔
خیر، جناب!
زمانے کے انداز بدلے گئے، نئے راگ ہیں ساز بدلے گئے۔
کیا کر سکتے ہیں۔ کھیل کود اور جسمانی سرگرمیوں میں حصّہ لینے کا شوق دم توڑ رہا ہے یا پھر متعلقہ سہولیات کا فقدان اس کا قاتل ہے۔ گراؤنڈ بچے نہیں اور اگر ہیں تو ان میں بلدیاتی اداروں کی مہربانی سے گندہ پانی کھڑا ہے یا کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس جانب توجہ دینا ہو گی۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا میں جہاں سوشل رابطوں کی ویب سائٹس نے ہمارا طرزِ زندگی بدل دیا ہے، وہیں آن لائن گیمز بھی ہمارے ماحول میں بدلاؤ لاچکے ہیں۔معلوم نہیں اگلے برسوں میں اور کیا کچھ ہوجائے، مگر صحّت اور مفید سرگرمیوں پر اس کے منفی اثرات کم کرنے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
کہیں ہمارے نوجوان سست، کاہل اور آرام طلب نہ ہو جائیں۔ ایک ایسا ملک جسے کئی بحرانوں کا سامنا ہے اور تیزی سے بدلتی دنیا کے ساتھ قدم ملانا ہے، وہاں مستقبل کے لیے فکرمند ہونے کے ساتھ فی الفور اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔
میری نوجوانوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ گلی ڈنڈا اور کنچے نہیں کھیلنا چاہتے تو نہ کھیلیں، مگر فٹ بال کا جنون، ہاکی کا شوق اپنائیں اور کرکٹ تو ہمارے ملک کی اکثریت کا پسندیدہ کھیل ہے ہی۔ اس کے علاوہ دیگر جسمانی سرگرمیوں میں بھی حصّہ لیں اور ہاں اس ملک کے شہری ہونے کے ناتے آپ بلدیہ کے بڑوں سے جاکر پوچھ سکتے ہیں کہ وہ ان کے شہر میں جسمانی سرگرمیوں اور مثبت تفریح سے متعلق کیا اقدامات کر رہے ہیں اور گراؤنڈ وغیرہ کی صفائی کا کام کیوں نہیں کیا جارہا؟ اس کے لیے سب کو جمع ہونا پڑے گا۔ یہ آپ کا حق ہے اور اپنے حق کی خاطر یہ کر گزریں۔
اچھا بھائیو! کھیلوں کی دنیا سے فی الحال اتنا ہی۔ پھر ملیں گے!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پھر ہم کمپیوٹر کی میموری میں محفوظ گیمز سے لطف اندوز ہونے لگے اور پھر ڈیجیٹل دور آگیا۔ آن لائن کھیلے جاؤ، اسکور بناؤ اور ورچوئل کمائی بھی کرو۔ عجیب دنیا ہے یہ گیمز کی بھی۔ جو داخل ہوا سو گیا سمجھو۔ حقیقی دنیا میں لوٹنا ہی نہیں چاہتا۔ کٹ جاتا ہے گھنٹوں کے لیے اپنوں سے، اپنی دنیا سے اور کام سے بے نیاز ہو کر جانے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ ذہن کیا کچھ سوچتا ہے، آنکھیں عجیب و غریب مناظر دیکھتی ہیں اور کی بورڈ کے ذریعے زیرو بھی ہیرو بن کر دشمن کو پھڑکاتا، اس کی کمیں گاہیں تباہ کرتا، پہاڑ، دریا، جنگل بیابان، میدان عبور کرتا چلا جاتا ہے۔ آگے اور آگے، بہت آگے جانے کی آرزو میں دیوانہ ہوا جاتا ہے۔ ہر قسم کا بھاری اسلحہ، توپ خانہ چلانا کیا مشکل ہے، یہ یوزر جنگی جہاز، ہیلی کاپٹر اور آبدوزیں بھی آپریٹ کرتا ہے۔ امی تو امی ہیں، ابا بھی بلائیں تو ''آیا بابا'' ''بس دو منٹ آتا ہوں'' کہہ کر ٹال جاتا ہے۔
باپ کا ڈر نہ ماں کی چنتا، دفتر میں ہو تو باس کو دھوکا دینے کے سو طریقے ہیں۔ جوں ہی افسر کی نظر پڑی ایک کلک کے سہارے ورک شیٹ کھول کر بیٹھ گیا اور کھاتے بنانے لگا۔ آن لائن یوزر اپنے ضروری کام بھی اسی مزے کی نذر کر دیتا ہے۔
فٹ بال، ہاکی تو یوں بھی نوجوانوں کی نظر میں نہیں جچتا اور رہی بات کرکٹ کی تو اب شاید ہمارے نوجوان کھلاڑی گراؤنڈ اور مناسب جگہ نہ ہونے کا بہانہ کر کے آن لائن ہی اس گیم سے دل بہلا رہے ہیں۔ ٹینس، بیڈمنٹن، والی بال وغیرہ وغیرہ کا ذکر بیکار ہی ہے۔ ہاں البتہ ون وہیلنگ کا جنون ابھی برقرار ہے۔ ہاں ہم ہر ایسا کام کرنا چاہتے ہیں جس میں جان کو خطرہ ہو اور دوسرے ضرور ضرور تنگ ہوں۔
خیر، جناب!
زمانے کے انداز بدلے گئے، نئے راگ ہیں ساز بدلے گئے۔
کیا کر سکتے ہیں۔ کھیل کود اور جسمانی سرگرمیوں میں حصّہ لینے کا شوق دم توڑ رہا ہے یا پھر متعلقہ سہولیات کا فقدان اس کا قاتل ہے۔ گراؤنڈ بچے نہیں اور اگر ہیں تو ان میں بلدیاتی اداروں کی مہربانی سے گندہ پانی کھڑا ہے یا کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس جانب توجہ دینا ہو گی۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا میں جہاں سوشل رابطوں کی ویب سائٹس نے ہمارا طرزِ زندگی بدل دیا ہے، وہیں آن لائن گیمز بھی ہمارے ماحول میں بدلاؤ لاچکے ہیں۔معلوم نہیں اگلے برسوں میں اور کیا کچھ ہوجائے، مگر صحّت اور مفید سرگرمیوں پر اس کے منفی اثرات کم کرنے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
کہیں ہمارے نوجوان سست، کاہل اور آرام طلب نہ ہو جائیں۔ ایک ایسا ملک جسے کئی بحرانوں کا سامنا ہے اور تیزی سے بدلتی دنیا کے ساتھ قدم ملانا ہے، وہاں مستقبل کے لیے فکرمند ہونے کے ساتھ فی الفور اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔
میری نوجوانوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ گلی ڈنڈا اور کنچے نہیں کھیلنا چاہتے تو نہ کھیلیں، مگر فٹ بال کا جنون، ہاکی کا شوق اپنائیں اور کرکٹ تو ہمارے ملک کی اکثریت کا پسندیدہ کھیل ہے ہی۔ اس کے علاوہ دیگر جسمانی سرگرمیوں میں بھی حصّہ لیں اور ہاں اس ملک کے شہری ہونے کے ناتے آپ بلدیہ کے بڑوں سے جاکر پوچھ سکتے ہیں کہ وہ ان کے شہر میں جسمانی سرگرمیوں اور مثبت تفریح سے متعلق کیا اقدامات کر رہے ہیں اور گراؤنڈ وغیرہ کی صفائی کا کام کیوں نہیں کیا جارہا؟ اس کے لیے سب کو جمع ہونا پڑے گا۔ یہ آپ کا حق ہے اور اپنے حق کی خاطر یہ کر گزریں۔
اچھا بھائیو! کھیلوں کی دنیا سے فی الحال اتنا ہی۔ پھر ملیں گے!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔