اقوام متحدہ توہین رسالت کو عالمی سطح پر جرم قرار دے وزیر اعظم
صدریہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھائینگے،توہین رسالت کیخلاف احتجاج مذہبی فریضہ ہے مگر یہ پرامن ہوناچاہیے
وزیر اعظم راجاپرویزاشرف نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی برادری سے مطالبہ کیاہے کہ ایسا قانون بنایا جائے جس کے ذریعے نفرت پھیلانے والی تقاریر اورمواد پر پابندی عائدکی جائے تاکہ گستاخانہ اقدامات سے مسلمانوں کے جذبات مجروح نہ ہوسکیں۔
یوم عشق رسولؐؐ پر اسلام آباد میں عشق رسولؐؐ کانفرنس سے خطاب میں انھوںنے کہاکہ توہین رسالت کو عالمی سطح پر قابل نفرت اور قابل تعزیر جرم قراردیاجائے، آزادی اظہارکا یہ مطلب نہیں کہ برگزیدہ ہستیوںکونشانہ بنایاجائے، دنیا مذہبی شدت پسندی کے خطرات سے دوچارہے۔ شرپسند عناصر نے کائنات کی سب سے بڑی ہستی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے، توہین رسالت ناقابل قبول ہے، یہ آزادی رائے کا مسئلہ نہیں بلکہ فساد فی الارض ہے، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے سرکاری طور پر احتجاج کیا ہے۔
وزیراعظم نے امت مسلمہ پر زوردیا ہے کہ وہ اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرے اورنفرت پھیلانے والے محرکات ختم کرنے اور گستاخانہ اقدامات کی روک تھام کیلیے مل جل کر کام کیا جائے۔ گستاخانہ فلم کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیاگیا ہے، یہ دانستہ سازش ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا، صدر آصف زرداری آئندہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران مسلمانوں کے جذبات اسی حوالے سے اجاگر کریںگے اور دنیا پر زور دیں گے کہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے، انھوں نے قابل مذمت گستاخانہ فلم کو بین الاقوامی قوانین، مذہبی آزادی، بنیادی انسانی اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کے کنونشن کی سنگین خلاف ورزی ہے، حضرت محمد ؐکا احترام ہم سب مسلمانوں پر فرض ہے۔
حضور ؐ کی شانِ اقدس کے خلاف کسی کو گستاخی کی اجازت نہیں دیںگے، پرامن احتجاج مسلمانوں کاحق ہے، شرپسند عناصر ایسی گستاخانہ فلم بناکر مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا چاہتے ہیں،آزادی اظہارکی آڑ میں ایک گھٹیا حرکت کی گئی۔حضورؐ کی ذات اقدس پر حملہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے عقیدے پر حملہ ہے جو ناقابل قبول ہے، ہمارا ایمان حضور اکرم کے ساتھ عقیدت اور محبت کے بغیر ادھورا ہے تاہم قوم پرتشدد احتجاج کے بجائے پرامن احتجاج کرے، لوگوں کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور یہ ہماری قومی ذمے داری ہے کہ توڑ پھوڑ سے کریں۔ انھوں نے قوم سے غیرملکی باشندوں کی پراپرٹی اورسفارتخانوں کو نقصان نہ پہنچانے کی بھی اپیل کی۔
انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے توہین رسالت کے واقعات میں گزشتہ چند برسوں کے دوران اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، دنیا کا کوئی قانون، اخلاقی نظام یا فلسفہ اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ آزادی اظہار کی آڑ میں ان مقدس ہستیوں کوہدف تضحیک بنایا جائے جن کے ساتھ لوگوں کا مذہبی اور جذباتی لگاؤ ہوتا ہے، یہ انسانیت کی خدمت نہیں بلکہ انسانیت کے ساتھ دشمنی ہے، ایسی مادرپدر آزادی کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی جس میں برے بھلے کی تمیز اور جائز اور ناجائز کے درمیان کوئی فرق نہ ہو۔ ہمارا مذہب متقاضی ہے کہ ہم شان رسول میں گستاخی پر بھرپوراحتجاج کریں اور توہین رسالت کے مرتکب افراد کے خلاف احتجاج اور مزاحمت ہمارا مذہبی فریضہ ہے مگر یہ احتجاج پرامن ہونا چاہیے۔
انھوںنے افسوس کا اظہار کیاکہ دنیا میں جو آزاد خیال لوگ امن کا پرچار کرتے ہیں اور مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں وہ عام انسان کی بے عزتی اور ہتک کو تو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں لیکن 1.5ارب مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو ٹھیس پہنچانے کو اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میںجائز قراردینے کی کوشش کرتے ہیں۔ہالوکاسٹ سے انکار پرتوسزا دے دی جاتی ہے مگر مسلمانوں کے جذبات کا کوئی خیال نہیں کیا جاتا۔
انھوں نے واضح کیا کہ یہ محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں، دنیا کی ہر محترم اور مرکز عقیدت ہستی کا احترام سب پر لازم ہے، اگر اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو دنیا میں کسی ہستی کا احترام باقی نہیں رہے گا۔ انہوں نے غیرمسلم پاکستانی بھائیوں اوربہنوں کو یقین دلایا کہ ان کے حقوق کی حفاظت کیلیے تمام پاکستانی مسلمان اسی طرح ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوںگے جس طرح انھوں نے آج کے جذباتی لمحات میں مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے۔ ہمیں ہر حالت میں اپنے ہم وطنوں کی جان اور املاک تحفظ کرنا ہے۔
یوم عشق رسولؐؐ پر اسلام آباد میں عشق رسولؐؐ کانفرنس سے خطاب میں انھوںنے کہاکہ توہین رسالت کو عالمی سطح پر قابل نفرت اور قابل تعزیر جرم قراردیاجائے، آزادی اظہارکا یہ مطلب نہیں کہ برگزیدہ ہستیوںکونشانہ بنایاجائے، دنیا مذہبی شدت پسندی کے خطرات سے دوچارہے۔ شرپسند عناصر نے کائنات کی سب سے بڑی ہستی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے، توہین رسالت ناقابل قبول ہے، یہ آزادی رائے کا مسئلہ نہیں بلکہ فساد فی الارض ہے، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے سرکاری طور پر احتجاج کیا ہے۔
وزیراعظم نے امت مسلمہ پر زوردیا ہے کہ وہ اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرے اورنفرت پھیلانے والے محرکات ختم کرنے اور گستاخانہ اقدامات کی روک تھام کیلیے مل جل کر کام کیا جائے۔ گستاخانہ فلم کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیاگیا ہے، یہ دانستہ سازش ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا، صدر آصف زرداری آئندہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران مسلمانوں کے جذبات اسی حوالے سے اجاگر کریںگے اور دنیا پر زور دیں گے کہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے، انھوں نے قابل مذمت گستاخانہ فلم کو بین الاقوامی قوانین، مذہبی آزادی، بنیادی انسانی اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کے کنونشن کی سنگین خلاف ورزی ہے، حضرت محمد ؐکا احترام ہم سب مسلمانوں پر فرض ہے۔
حضور ؐ کی شانِ اقدس کے خلاف کسی کو گستاخی کی اجازت نہیں دیںگے، پرامن احتجاج مسلمانوں کاحق ہے، شرپسند عناصر ایسی گستاخانہ فلم بناکر مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا چاہتے ہیں،آزادی اظہارکی آڑ میں ایک گھٹیا حرکت کی گئی۔حضورؐ کی ذات اقدس پر حملہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے عقیدے پر حملہ ہے جو ناقابل قبول ہے، ہمارا ایمان حضور اکرم کے ساتھ عقیدت اور محبت کے بغیر ادھورا ہے تاہم قوم پرتشدد احتجاج کے بجائے پرامن احتجاج کرے، لوگوں کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور یہ ہماری قومی ذمے داری ہے کہ توڑ پھوڑ سے کریں۔ انھوں نے قوم سے غیرملکی باشندوں کی پراپرٹی اورسفارتخانوں کو نقصان نہ پہنچانے کی بھی اپیل کی۔
انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے توہین رسالت کے واقعات میں گزشتہ چند برسوں کے دوران اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، دنیا کا کوئی قانون، اخلاقی نظام یا فلسفہ اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ آزادی اظہار کی آڑ میں ان مقدس ہستیوں کوہدف تضحیک بنایا جائے جن کے ساتھ لوگوں کا مذہبی اور جذباتی لگاؤ ہوتا ہے، یہ انسانیت کی خدمت نہیں بلکہ انسانیت کے ساتھ دشمنی ہے، ایسی مادرپدر آزادی کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی جس میں برے بھلے کی تمیز اور جائز اور ناجائز کے درمیان کوئی فرق نہ ہو۔ ہمارا مذہب متقاضی ہے کہ ہم شان رسول میں گستاخی پر بھرپوراحتجاج کریں اور توہین رسالت کے مرتکب افراد کے خلاف احتجاج اور مزاحمت ہمارا مذہبی فریضہ ہے مگر یہ احتجاج پرامن ہونا چاہیے۔
انھوںنے افسوس کا اظہار کیاکہ دنیا میں جو آزاد خیال لوگ امن کا پرچار کرتے ہیں اور مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں وہ عام انسان کی بے عزتی اور ہتک کو تو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں لیکن 1.5ارب مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو ٹھیس پہنچانے کو اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میںجائز قراردینے کی کوشش کرتے ہیں۔ہالوکاسٹ سے انکار پرتوسزا دے دی جاتی ہے مگر مسلمانوں کے جذبات کا کوئی خیال نہیں کیا جاتا۔
انھوں نے واضح کیا کہ یہ محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں، دنیا کی ہر محترم اور مرکز عقیدت ہستی کا احترام سب پر لازم ہے، اگر اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو دنیا میں کسی ہستی کا احترام باقی نہیں رہے گا۔ انہوں نے غیرمسلم پاکستانی بھائیوں اوربہنوں کو یقین دلایا کہ ان کے حقوق کی حفاظت کیلیے تمام پاکستانی مسلمان اسی طرح ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوںگے جس طرح انھوں نے آج کے جذباتی لمحات میں مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے۔ ہمیں ہر حالت میں اپنے ہم وطنوں کی جان اور املاک تحفظ کرنا ہے۔