پاکستان اور دہشت گردی

ہمارے قومی شعور کی بنیاد نظریہ پاکستان ہے جو دو قومی نظریے پر مبنی ہے


Editorial August 15, 2024
(فوٹو: فائل)

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے گزشتہ روز پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں آزادی پریڈ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی، اس موقع پر انھوںنے اپنے خطاب میں پاکستان کی سیکیورٹی اور اسے در پیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے دو ٹوک الفاط میں واضح کیا کہ فوج کو کمزور کرنا ملک کو کمزور کرنے کے مترادف ہے، افواج پاکستان نے ملک کے دفاع کی قسم کھا رکھی ہے جس کی آبیاری وہ اپنے خون سے کررہی ہے، ہم کسی بھی صورت اور قیمت پر اپنی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

پاکستان کی سیکیورٹی، سلامتی،معیشت اورپارلیمانی جمہوری نظام کے لیے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے اور یہ آکٹوپس کی طرح کا عفریت ہے ، اس کی جڑیں اور شاخیں پاکستان کے اندر اور باہر تک پھیلی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی مختلف شکلوں میں حملہ آور ہے۔

پچیس سے ڈیڑہ دو سو کا جتھہ جدید ہتھیاروں کے ساتھ سرحدی سیکیورٹی فورسز پر حملہ آور ہوتا ہے،بارودی سرنگیں بچھا کر سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا، ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے خونریزی کرنا اور خود کش بمباروں کے ذریعے قتل عام کرنا، یہ مسلح دہشت گردی ہے، اس قسم کی دہشت گردی تواتر کے ساتھ ہورہی ہے ، خصوصاً افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد دہشت گردی کی وارداتیں غیرمعمولی حد تک بڑھ چکی ہیں۔ دوسری جہت معاشی دہشت گردی ہے۔

اس کا مقصد پاکستان کو مالی اور پیداواری طور پر تباہ کرنا ہے، یہ دہشت گردی بھی تواتر کے ساتھ ہورہی ہے، تیسرا سیاسی دہشت گردی ہے۔ اس میں ایسی جماعتیں' تنظیمیں بناناجو انتہا پسند نظریات کا پرچار کریں'پاپولر سیاسی جماعتوں میں ایسی قیادت ابھارنا جو انتہا پسند نظریات کی حامل ہوں یا ان نظریات کو کوئی بڑا خطرہ نہ سمجھتے ہوں۔ ریاستی اداروں میں انتہا پسند نظریات رکھنے والوں کی ترقی کا راستہ کھولنا تاکہ ریاست کے اداروں پر اثرانداز ہوا جا سکے۔

پارلیمنٹ کے ذریعے ایسی قانون سازی کرانے کی کوشش کرنا جو انتہا پسندی کو تحفظ دے سکے۔ تعلیمی نصاب پر ضرب لگانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ سارے پہلو پاکستان کے لیے زہرناک ہیں لیکن اب ڈیجیٹل دہشت گردی سب پر بازی لے گئی ہے۔آج پاکستان ڈیجیٹل دہشت گردی کی یلغار کا سامنا کر رہا ہے۔پاک فوج کے سربراہ نے بھی ڈیجیٹل دہشت گردی پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔

پاک فوج کے سربراہ نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ قوم کا پاک فوج پر غیر متزلزل اعتماد ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہے،فوج کو کمزور کرنا ملک کو کمزور کرنے کے مترادف ہے،انھوں نے واضح کیا ہے کہ ہمارے قومی شعور کی بنیاد نظریہ پاکستان ہے جو دو قومی نظریے پر مبنی ہے، اس نے برصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ شناخت، ثقافت اور تہذیب قائم کرنے کا موقع فراہم کیا، قیام پاکستان کا مقصد محض جغرافیائی خطے کا حصول نہیں تھا بلکہ ایک ایسی فلاحی ریاست کا قیام تھا جہاں اسلام کے سنہری اصولوں کی بنیاد پر معاشرہ افہام و تفہیم سے مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرسکے،پاکستان قائد اعظم کی عظیم قیادت اور برصغیر کے ہزاروں مسلمانوں کی بے لوث قربانیوں کا ثمر ہے، آج کے دن ہم تحریک پاکستان کے کارکنان اور شہدا کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یاد رکھیں، نااتفاقی اور انتشار ملک کو اندر سے کھوکھلا کر کے بیرونی جارحیت کے لیے راہ ہموار کردیتے ہیں، قوم کا پاک فوج پر غیر متزلزل اعتماد ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہے، یہ مضبوط رشتہ مشکل حالات میں ہماری قوت بن کر حوصلوں اور جذبوں کو بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، مجھے پختہ یقین ہے کوئی منفی قوت اعتماد کے اس رشتے کو کمزور کرسکی ہے اور نہ ہی آیندہ کرسکے گی، افواج پاکستان نے ملک کے دفاع کی قسم کھا رکھی ہے جس کی آبیاری وہ اپنے خون سے کررہی ہے، ہم کسی بھی صورت اور قیمت پر اپنی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے،عالمی سطح پر تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جنکی رفتار اور نوعیت غیرمعمولی ہے، مگر اس کے قطع نظر پاکستان اپنے مؤقف کی بدولت مسلم امہ اور دنیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے، پاکستان کا مستقبل روشن و تابناک ہے، بدقسمتی سے خطے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عزائم سرگرم عمل ہیں، عوام، افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور لازوال قربانیاںدیں اور آنے والے وقتوں میں بھی قربانیاں دینے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔

پاکستان کو ترقی اور تہذیب کے راستے پر چلانے کے لیے ہر قسم کی دہشت گردی کا خاتمہ کرنا لازمی ہے۔ اس کے بغیر پاکستان سیاسی عدم استحکام 'معاشی عدم استحکام اور بد امنی سے چھٹکارا نہیں پا سکتا۔پاکستان کی پاپولر سیاسی قیادت 'مذہبی جماعتوں کی قیادت ' ریاست کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز لوگ اور اہل علم دیکھ رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں کہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے افسران اور اہلکار دہشت گردوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں' اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں'اس لڑائی میں فوج 'رینجرز 'بارڈر سیکیورٹی فورسز 'انٹیلی جنس افسر اور اہلکار 'پولیس کے افسر اور اہلکار 'انتظامیہ کے افسراور اہلکار روزانہ کی بنیاد پر قربانیاں دے رہے ہیں' ہزاروں پاکستانی شہری دہشت گردی کی وارداتوں میں اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔اس پس منظر میں پاپولر سیاسی قیادت'مذہبی جماعتوں کی قیادت کا کردار اور حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

سیاسی جماعتوں کی قیادت نے شمال مغربی سرحد کی جیوپولیٹیکل اور جیو اسٹریٹیجکل حیثیت اور حساسیت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی' پاپولر سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے ظاہر میں ماڈرن اور جدت پسند نظر آتی ہے لیکن اپنے عمل میںقبائلی 'جاگیرداری اور اجارہ داری کے خیرخواہ ہیں۔پاپولر پارٹیوں کو جب بھی اقتدارملا 'وہ جیسے ہے 'ویسے کی بنیاد پر کام کرتی ہیں اور جب ان کا اقتدار ختم ہوتا ہے تو ملک وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں سے وہ اقتدارمیں آئی تھیں۔اسی طرح ملک کے شاعر ادیب 'ماہرین تعلیم'فلاسفرز اور دانشوروں کا دہشت گردی کی لڑائی میں کوئی کردار نہیں ہے۔دنیا میں جن جن ملکوں اور قوموں نے انتہا پسند نظریات کو شکست دی ہے 'ان میں اہل علم 'شاعروں 'ادیبوں اور دانشوروں نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے جب کہ سرد جنگ کی تقریباً چار دہائیوں کے دوران پاکستان روشن خیالی اور تمدنی اعتبار سے پسماندگی اورزوال کی آخری حد تک پہنچ گیاہے۔

گزشتہ روز ہی پاک افغان سرحد پر پاکستان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ' میڈیا رپورٹ کے مطابق فائرنگ کا تبادلہ افغانستان کے ننگر ہار صوبے سے متصل پاکستانی علاقے طورخم بارڈر پر ہوا ہے۔پاکستانی میڈیا نے غیر ملکی خبررساں ادارے کے حوالے سے خبر دی ہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے متعدد بار انتباہ اور اعتراضات کے باوجود افغان حکام نے ڈیورنڈ لائن پر چوکی کی تعمیر کا کام نہیں روکا جس کے نتیجے میں کشیدگی ہوئی۔

ادھر افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قنی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پرروایتی دوغلی پالیسی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فورسز نے شہریوں کے گھروں کو نشانہ بنایا۔ افغانستان وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے غیر ملکی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فائرنگ کا آغاز پاکستان نے کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری فورسز ڈیورنڈ لائن پر چوکی قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ پاکستانی فورسز نے فائرنگ کر دی جس پر ہماری فورسز نے بھی جوابی فائرنگ کی اور یوں تنازع شروع ہوا۔ افغانستان کے وزارت دفاع کے ترجمان کے بیان میں ہی اس کا جواب چھپا ہوا ہے۔

ترجمان موصوف نے پاک افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن قرار دیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ افغان فورسز وہاں چوکی قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔اس میں چوکی قائم کرنے کی کوشش کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ افغانستان چوکی ایسے مقام پر بنانا چاہتا ہے' جس کا انھیں بخوبی علم ہے کہ یہ افغانستان کا علاقہ نہیں ہے۔ افغانستان اپنے علاقے میں چوکی بنا سکتا ہے لیکن وہ سرحد کے اوپر یا پاکستان کے علاقے میں چوکی نہیں بنا سکتا 'پاکستانی علاقہ چاہے ایک فٹ کا ہی کیوں نہ ہو 'افغانستان اس ایک فٹ پر بھی کسی قسم کی کوئی تعمیر یا باڑ نہیں لگا سکتا۔ افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کو انٹرنیشنل ذمے داریوں پر پورا اترنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کسی چیز کی من مانی تشریح کرنا 'من مانے مطالب نکالنا 'افغانستان کی حد تک تو چل سکتا ہے لیکن عالمی دنیا اور ہمسایہ ممالک اس قسم کی تشریح اور مطالب کو ردکرتے ہیں۔ لہٰذا افغانستان کی حکومت کو غیر ضروری اشتعال انگیزی اور شرارت سے پرہیز کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔