پیغام اور نیا نظام
حقیقی آزادی کی وہ منزل حاصل کریں گے جہاں امن و سکون ہوگا۔ عدل و انصاف ہوگا
پوری قوم 77 واں جشن آزادی منا رہی ہے۔ ایک نئے عزم و حوصلے اور جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے کے عہد و پیماں کیے جا رہے ہیں۔ عوام سے لے کر خواص تک سب ایک دوسرے کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ اپنے قائد اعظم محمد علی جناح کے سیاست، مذہب، معاشرت، عدل اور معیشت کے حوالے سے بتائے ہوئے رہنما اصولوں کے مطابق پاک وطن کو دنیا کی عظیم مملکت بنائیں گے۔
حقیقی آزادی کی وہ منزل حاصل کریں گے جہاں امن و سکون ہوگا۔ عدل و انصاف ہوگا، ہر فرد کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہوگا۔ آئین کی عمل داری ہوگی، قانون کی حکمرانی ہوگی، جمہوریت و پارلیمنٹ کی بالادستی ہوگی، ریاستی اداروں کا احترام ہوگا اور ہر فرد اور ادارہ آئین کے مطابق اپنے فرائض کی انجام دہی کرے گا۔ آپس کی لڑائی، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور دوسرے پر سبقت لے جانے اور اپنی دھاک بٹھانے جیسے بودے اور غیر سنجیدہ رویوں کو بالائے طاق رکھ کر افہام و تفہیم کے ساتھ منظم و متحد ہو کر ایک ملت ایک قوم بن کر دنیا پر یہ ثابت کریں گے کہ ہم زندہ قوم ہیں، پایندہ قوم ہیں اور ہم سب کی پہچان پاکستان اور صرف ہمارا پیارا وطن پاکستان ہے۔
ہاں! ہم لڑتے ہیں، جھگڑتے ہیں، سبقت اور برتری حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں تو صرف کھیل کے میدانوں میں جیسا کہ ہم نے ماضی میں کرکٹ، ہاکی اور اسکواش کے مقابلوں میں مخالف ٹیموں کو شکست دے کر اپنی عالمی برتری ثابت کردی تھی اور آج چار دہائیوں بعد نیزہ بازی کے اولمپک مقابلوں میں جس مہارت، صلاحیت اور جانفشانی سے ہمارے قومی ہیرو اور مشاق نیزہ باز ارشد ندیم نے پیرس اولمپک 2024 میں بھارتی نیزہ باز نیرج چوپڑا کو شکست دے کر 92.97 میٹر دور نیزہ پھینک کر اولمپک گیمز کی ایک سو سالہ تاریخ کا ریکارڈ قائم کرکے قوم کی جشن آزادی کی خوشیوں کو دوبالا کردیا ہے۔
صدر، وزیر اعظم، اپوزیشن لیڈر سے لے کر سروسز چیف اور عام آدمی تک سب ارشد ندیم کی ریکارڈ ساز کامیابی پر اسے مبارک باد دے رہے ہیں اور کروڑوں روپے کے انعامی اعلانات بھی کیے جا رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے ارشد ندیم کی کامیابی اور عزم استحکام کے مشترکہ ملاپ سے ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا ہے اور صدر پاکستان نے ارشد ندیم کو ہلال امتیاز کا قومی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔ وہ بجا طور پر اس کے حقیقی مستحق ہیں کہ انھوں نے اہل یونان کے 776 قبل مسیح میں شروع ہونے والے مقابلے جو آج کل اولمپک کے نام سے جانے جاتے ہیں میں پاکستانی سبز ہلالی پرچم سر بلند کیا۔
ایک طرف تو پوری قوم جشن آزادی کی خوشیوں سے سرشار ہے تو دوسری طرف ملک کی تقدیر بدلنے اور قائد اعظم کے اصولوں پر چلنے کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے ہمارے ارباب سیاست افہام و تفہیم اور حکمت و بصیرت کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق امور سلطنت چلانے کے بجائے کہ آئین ہی وہ بنیادی دستاویز ہے کہ جس پر عمل کرکے ایک صحت مند جمہوری، سیاسی، معاشرتی، معاشی اور عادلانہ مہذب و باوقار نظام تشکیل دیا جاسکتا ہے، اپنے اپنے مفادات اور دوسرے پر بالادستی قائم رکھنے کی غلط روش اور غیر سنجیدہ طرز عمل کو اپنا کر پورے نظام کو تلپٹ کرنے کی سمت بڑھتے نظر آتے ہیں۔
وائلڈ لائف بورڈ مینجمنٹ آفس اور چیئرپرسن کی تبدیلی کے کیس کی سماعت کے دوران محترم منصف اعلیٰ قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نظرانداز کرنا یا عمل درآمد میں تاخیر کرنا ریاست کے آئینی ڈھانچے کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ محترم چیف جسٹس نے نیشنل بینک پنشن ادائیگی کیس کے حکم نامے میں قرار دیا کہ انفرادی شخصیات یا اداروں کے پاس عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ محترم منصف اعلیٰ کے ریمارکس اس بات کے عکاس ہیں کہ جب کوئی عدالت ایک فیصلہ جاری کر دے تو خود کسی فرد کے حوالے سے ہو یا ادارے کے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا آئینی تقاضا ہے۔
اس سے روگردانی نہیں کی جاسکتی بصورت دیگر توہین عدالت کی کارروائی بھی عمل میں آ سکتی ہے۔ مارگلہ نیشنل پارک کیس کے حوالے سے منصف اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہم تو مارگلہ نیشنل پارک سے ریسٹورنٹس ہٹانے چلے تھے یہاں تو ہاؤسنگ سوسائٹیاں بھی نکل آئی ہیں۔ بیورو کریٹس عوام کی نہیں بلکہ کسی اور کی خدمت کر رہے ہیں، یہ ملک عوام کے لیے بنا ہے صاحبوں کے لیے نہیں۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے اقلیتوں کے حقوق اور عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد میں درپیش چیلنجز کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ہر صورت عمل کرنا ہوگا، کسی کے پاس چوائس نہیں کہ وہ جائزہ لے کہ فیصلہ ٹھیک ہے یا نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنا لازمی آئینی تقاضا ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ فیصلوں پر عمل نہیں کرنا تو نیا نظام لے آئیں، سارا اسٹرکچر تبدیل کردیں لیکن آئین کے موجودہ اسٹرکچر کے مطابق تو یہی ہوتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے دونوں سینئر ججز کے ریمارکس میں حکمرانوں اور عدلیہ مخالف قوتوں کے لیے غور و فکر کا خاصا سامان اور پیغام موجود ہے۔ انھیں ہر صورت عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کرنا ہوگا یا پھر کوئی نیا نظام لانا ہوگا۔