جماعت اسلامی کے دھرنے
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے گورنر ہاؤس کے دروازے دھرنا کے شرکاء کے لیے کھول دیے
جماعت اسلامی نے عام آدمی پر بجلی کے بل کا بوجھ کم کرانے اور حکومتی اخراجات میں کمی کے مطالبات کو منوانے کے لیے راولپنڈی اور کراچی کے ریڈ زون میں دھرنے دیے ہوئے تھے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن اور دیگر رہنما روزانہ دھواں دار تقاریر کر رہے تھے۔ جماعت کے رہنماؤں نے اس نکتے پر زیادہ زور دیا کہ آئی پی پیز سے معاہدے ختم کیے جائیں، بجلی کے بل میں جو غیر ضروری ٹیکس شامل کیے گئے ہیں، انھیں واپس لیا جائے۔
حافظ نعیم الرحمن کی تقاریر میں اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ حکومتی اخراجات کم کیے جائیں، وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم اور وزراء کو بڑی گاڑیوں سے جان چھڑانی چاہیے اور سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی پالیسی کو اپنانا چاہیے۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کے اقتدار سے محرومی کے بعد اب حافظ نعیم الرحمن، وزیر اعظم شہباز شریف کو شیخ حسینہ واجد کے انجام سے ڈرانے لگے ہیں۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے جماعت اسلامی کے دھرنے کی حمایت کی مگر تحریک انصاف کی قیادت اور اکابرین ان دھرنوں میں نظر نہیں آئے۔ اسلام آباد میں یہ دھرنا لیاقت باغ میں ہوا، کراچی میں گورنر ہاؤس کے سامنے شامیانے لگائے گئے، اسلام آباد اور راولپنڈی کی انتظامیہ نے دھرنے کے شرکاء سے بھرپور تعاون کیا۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے گورنر ہاؤس کے دروازے دھرنا کے شرکاء کے لیے کھول دیے اور 14 روز تک جاری رہنے والا دھرنا وفاقی حکومت سے 10 نکاتی معاہدے پر ختم ہوا مگر اس معاہدے پر دستخط کے لیے توانائی کے وزیر اویس لغاری اور وزیر خزانہ اورنگزیب دستیاب نہیں تھے، یوں حکومت کی طرف سے دستخط کرنے کا فریضہ وزیر داخلہ محسن نقوی نے انجام دیا۔ محسن نقوی نے اس موقعے پر یہ یقین دہانی ضرور کرائی کہ بجلی کی قیمتوں میں کچھ کمی ضرور ہوگی۔
جماعت اسلامی اور حکومت کے درمیان معاہدہ جو 10 نکات پر مشتمل ہے ان نکات میں فی یونٹ لاگت کم کرنے کے لیے اقدامات کرنا اور براہِ راست بجلی فی یونٹ کے ساتھ منسلک کیے جانے کا معاملہ بھی شامل ہے اور یہ بھی اتفاق ہوا ہے کہ کسی بین الاقوامی یا قومی ماہر سے معلومات حاصل کی جائیں گی۔
اس معاہدے کے تحت آئی پی پیز سیٹ اپ معاملات کا جائزہ لینا اور نئے راستے تجویز کرنا اور اس سیٹ اپ میں کمزوریوں کو چیک کرنا ہوگا۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ سرکلر ڈیٹ کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور وفاقی حکومت اس مطالبے پر بھی تیار ہوگئی کہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر جاگیرداروں پر انکم ٹیکس نافذ کیا جائے گا تاکہ ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد کرایا جاسکے اور دونوں فریق اس بات پر بھی متفق ہوگئے کہ تنخواہ دار طبقے کو نئے ٹیکسوں سے مستثنیٰ کیا جائے گا اور گزشتہ سال کا نظام برقرار رہے گا۔ آخر میں جماعت اسلامی کی قیادت نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ایک کمیٹی ان سارے نکات کے بارے میں سفارشات تیار کرکے وزیراعظم کو پیش کرے گی اور وزیر اعظم حتمی فیصلہ کریں گے۔
اس معاہدے کا جائزہ لیا جائے تو ایک نتیجہ تو فوری طور پر سامنے آتا ہے کہ اگر واقعی حکومت معاہدے پر عملدرآمد پر سنجیدہ ہوئی تو پھر نیا بجٹ تیار کرنا ہوگا۔ حکومت پہلے ہی آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت صوبائی حکومتوں کو زرعی انکم ٹیکس لگانے کے لیے تیار کرچکی ہے اور آئین کے تحت زراعت صوبائی معاملہ ہے۔ وفاق اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔
جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی دھواں دار تقاریر کے باوجود معاہدے میں یہ شق شامل نہیں ہے کہ وزیر اعظم، وزراء اور بیوروکریٹ چھوٹی گاڑیاں استعمال کریں گے۔ جماعت اسلامی کی قیادت اور وفاقی حکومت کے وزراء کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں جو بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ توانائی کے وفاقی وزیر اویس لغاری ہر دوسرے دن کسی ٹیلی وژن چینل پر نمودار ہوکر حکومت کی توانائی پالیسی کے کامیاب پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ حکومت آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں پر نظرثانی نہیں کرسکتی۔ حکومت کو ہر صورت کیپیسٹی چارجز کو بجلی کے بلوں میں شامل کرنا ہے۔
جماعت اسلامی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت واضح ہے کہ یہ جماعت 26 اگست 1941 کو قائم ہوئی، مگر جماعت اسلامی نے کبھی عوامی مسائل کو اپنی بنیادی پالیسی میں شامل نہیں کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے اکابرین اسلامی نظام کے نفاذ پر زور دیا کرتے تھے مگر جب قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے امیر بنے تو پھر جماعت اسلامی کی پالیسی میں تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں۔ جماعت اسلامی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ پہلے جماعت اسلامی کی مہم صرف سنی مسلمانوں کے لیے ہوتی تھی مگر قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق کے ادوار میں عوامی مسائل پر آواز اٹھائی جانے لگی مگر حافظ نعیم الرحمن جب کراچی کے امیر بنے تو انھوں نے جماعت اسلامی کی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کی۔
انھوں نے کراچی کے عوام کے تمام بنیادی مسائل، پانی، شناختی کارڈ، بجلی، پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل پر رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی، جس کے بلدیاتی انتخابات میں خاطر خواہ نتائج سامنے آئے تھے۔ ایک طرف جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں پروفیشنل تنظیمیں بجلی کے بلوں کے بھاری بوجھ کے خلاف مہم چلا رہی ہیں تو دوسری طرف حکومت کے رویے میں تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے۔ ایکسپریس اخبار میں اس موضوع پر شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی توانائی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ صرف ساہیوال پاور پلانٹ کا 3 روپیہ والا یونٹ اب 285 روپے کا ہوگیا ہے۔
ایک طرف وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی وزراء عوام کے سامنے حکومت کی مشکلات بیان کرتے رہتے ہیں اور وزیر اعظم ہر ہفتہ وفاقی حکومت کے اخراجات کی کمی کی نوید دیتے ہیں تو دوسری طرف حکومت کا نظام چلانے والی بیوروکریسی اپنی شاہ خرچیوں میں کمی لانے کو تیار نہیں ہے۔ ایک اخبار میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزارت خزانہ نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور کابینہ سے پالیسی منظور کرائے بغیر اپنے ملازمین میں 24 کروڑ روپے بطور اعزازیہ تقسیم کر دیے۔ رپورٹ کے مطابق یہ اعزازیہ تنخواہوں میں شامل نہیں کیا گیا تاکہ ملازمین کا انکم ٹیکس نہ کٹے۔ اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ وفاقی کابینہ کے ذریعے اس اعزازیہ کی رقم کو واپس لیا جائے۔
اب وزارت خزانہ کے احتساب کا معاملہ وزیر اعظم کے سامنے پہنچ گیا۔ جماعت اسلامی کے دھرنا کے حوالے سے ناقدین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف گزشتہ ماہ سے اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد کے چیف کمشنر کے دفتر کے چکر کاٹ رہی ہے۔ تحریک انصاف نے دھرنے کی اجازت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ایک دفعہ جلسے کی اجازت ملی تھی مگر پھر ڈپٹی کمشنر نے آخری وقت میں یہ جلسہ منسوخ کردیا تھا۔
جماعت اسلامی اس ملک کی انتہائی منظم جماعت ہے، یقینی طور پر اس دھرنا کو منظم کرنے کے لیے کروڑوں روپے چندے کے طور پر جمع کیے ہونگے اور یہ رقم شفافیت کے اصولوں کے تحت خرچ بھی ہوئی ہوگی، مگر آخری تجزیے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی کا یہ پروجیکٹ بہت زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ اگرچہ حافظ نعیم الرحمن 45دن بعد دوبارہ دھرنا دینے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں مگر اس صورتحال میں بھی کسی بہت بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہوگا۔