کولیسٹرول سے نجات کے قدرتی طریقے
متوازن غذا، پرہیز اور ورزش آپ کو کئی امراض سے محفوظ رکھتی ہے
جدید طبی تحقیقات اور سائنسی ایجادات نے جہاں بہت سی بدنی سہولیات مہیا کی ہیں، وہیں بے شمار ذہنی و روحانی مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔ جدید ادویات کی دریافت سے لاتعداد جسمانی الجھنوں سے انسان کو چھٹکارا تو میسرآیا ہے لیکن مبینہ طور پر ادویات کے سائیڈ ایفیکٹس سے مزید بیماریاں بھی انسانی بدن پر مسلط ہورہی ہیں۔ بنیادی طور پر فلسفہ علاج اور ادویات کے استعمال کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان کو بدنی، ذہنی اور روحانی لحاظ سے صحت مند اور تن درست رکھا جا سکے۔
فی زمانہ معالجین کی کثیر تعداد ادویات فروشی کی روش پر چل پڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی خوش قسمت انسان ہی ہوگا جو دن میں کئی ادویات استعمال کیے بغیر صبح وشام کرتا ہو۔ اصول علاج کے تحت علاج و ادویات کا مطلب بیماریوں سے نجات حاصل کرنا ہے، لیکن ہمارے ہاں معالجین مریضوں کو دوا ہمیشہ استعمال کرنے کی تاکید تو کرتے ہیں لیکن غذا کے مفید و موثر استعمال کے متعلق کم ہی مشورہ دیتے ہیں۔
طبی ماہرین کے نزدیک دوا بطور مکینک کے کام کرتی ہے، بدنی اعضاء کے تحت سر انجام پانے والے افعال واعمال کی خرابی دور کرنے اور ان کی کارکردگی کو بحال کرنے کے کام آتی ہے۔ جبکہ روز مرہ استعمال کی جانے والی خوارک بطور ایندھن ہمیں توانائی مہیا کرتی ہے اور ہمارے بدن کے مختلف اعضاء میں ہونے والی اکثر خرابیوں کو دور کرنے کی ذمے دار سمجھی جاتی ہے، جبکہ ہمارے بدن پر مسلط ہونے والی زیادہ بیماریوں کا سبب بھی ہماری روز مرہ خوراک ہی مانی جاتی ہے۔
ماہرین غذا کے بقول موسمی تقاضوں کے مطابق متوازن، متناسب اور مقوی غذاؤں کا استعمال ہمیں تا دیر صحت مند، جوان اور خوبصورت رکھنے میں بنیادی کردار نبھاتا ہے۔ اب یہ روزمرہ غذا کے انتخاب اور استعمال کے وقت ہمیں خود ہی طے کرنا ہوتا ہے کہ ہم نے صحت مند و توانا رہنا ہے یا بیماریوں کو دعوت دینا ہے۔ ہماری خوراک میں وہ تمام عناصر قدرتی طور پر شامل ہوتے ہیں جن کی ایک خاص مقدار جسم کو تندرست وتوانا رکھتی ہے جبکہ انہی عناصر کی مطلوبہ مقداروں میں غیر ضروری حد تک کمی یا زیادتی ہی خطرناک اور مہلک امراض کی پیدائش و افزائش کا باعث بنتی ہے۔ جیسا کہ کولیسٹرول، یورک ایسڈ اور شوگر وغیرہ کی مطلوبہ مقداروں میں جب کمی یا زیادتی واقع ہوتی ہے تو مرض حملہ آور ہوکر ایک تن درست انسان کو بیماری کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔
ایک بات تو طے ہے کہ تن درستی اور صحت مندی کا دارو مدار اور مکمل انحصار بدن انسانی میں پائے جانے والے انہی عناصر کے توازن پر ہوتا ہے۔ اس لیے موجودہ دور کے جدید امراض کی موجودگی میں ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی غذا کے انتخاب ا ور استعمال سے پہلے کسی ماہر غذائیت سے اپنی جسمانی ضروریات کے مطابق متوازن، متناسب اور مقوی خوراک کے بارے میں مشاورت کر لیں تاکہ بعد ازاں جسمانی عوارض سے محفوظ رہا جا سکے۔ ہائی بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک، انجائینا، فالج اور برین ہیمریج موجودہ دور کے بڑے امراض ہیںاور یہ انسانی زندگی کے لیے خطرناک ہیں۔ مذکورہ بالا امراض پیدا کرنے میںکولیسٹرول سب سے بڑا فیکٹر ہے۔
کولیسٹرول کیا ہے؟
کولیسٹرول ایک چربیلا، نرم اور ملائم مادہ ہے۔ اس کی مخصوص مقدار انسانی تندرستی کے لیے لازمی سمجھی جاتی ہے۔ جبکہ اس کی غیر ضروری اضافی مقدار خون کی نالیوں (شریانوں) کی دیواروں کے ساتھ جم کر انہیں تنگ اور سخت کرنے کا سبب بنتی ہے۔کولیسٹرول عام طور پر ہماری کھائی جانے والی غذاؤں فاسٹ فوڈز، پراسس فوڈز، کولڈ ڈرنکس، پنیر، انڈا، گوشت، کلیجی، مغز، سری پائے اور تلی ہوئی اشیاء میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔
کولیسٹرول کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ان میں سے ایک مفید جبکہ دوسری نقصان کی حامل ہے۔ انسانی خون کی کیمیائی ترکیب اور تندرستی کے لیے لازمی کولیسٹرول کو ہائی ڈینسٹی لائی پو پروٹین HDL کہا جاتا ہے۔ یہ جگر اور چھوٹی آنت میں پیدا ہوکر خون کی مائع حالت میں پختگی پیدا کرتا ہے۔
یہ نظامِ خون میںاہم کردار ادا کرتے ہوئے مختلف ماخذوں سے کولیسٹرول اخذ کرکے واپس جگر میں بھیج دیتا ہے۔ یوں کولیسٹرول کی اضافی مقدار صفراء میں شامل ہوکر براز کے رستے خارج ہو جاتی ہے۔ HDL کی مناسب مقدار نقصان دہ کولیسٹرول کی اضافی مقدار سے بھی محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نقصان دہ کولیسٹرول کو لو لائی پو پروٹین LDL کہا جاتا ہے۔ یہی وہ چربیلا مادہ ہے جو خون کو گاڑھا کر کے شریانوں کی تنگی کا سبب بنتا ہے۔ نظامِ دورانِ خون کو خراب کر کے امراضِ گردہ، فالج، برین ہیمریج، بلڈ پریشر اور قلبی امراض کا باعث بنتا ہے۔
مردوں میں HDL کولیسٹرول کی موزوں مقدار 36ملی گرام سے 45ملی گرام تک جبکہ عورتوں میں 40 ملی گرام سے 60 ملی گرام تک سمجھی جاتی ہے۔ طبی ماہرین میں ایک عام تاثر ہے کہ خواتین میں HDL کی مقدار قدرتی طور پر زیادہ پائی جاتی ہے۔ خواتین میں HDL کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں مردوں کی نسبت امراض ِ قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ مردوں میں LDL کی مقدار 130ملی گرام سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
130 ملی گرام سے 160ملی گرام تک قابلِ علاج اور کم خطرناک خیال کیا جاتا ہے۔ 160 ملی گرام سے زیادہ LDL کی مقدار انسانی جسم پرکئی خطرناک امراض کے حملوں کی راہ ہموار کرتی ہے۔ بدنِ انسانی میں بلڈ کولیسٹرول کا تناسب 170ملی گرام تک مناسب اور بہترین سمجھا جاتاہے۔ 200 ملی گرام تک مناسب سے قدرے زیادہ تاہم خطرے سے باہر ہی مانا جاتا ہے۔جبکہ 200 ملی گرام سے زیادہ بڑھا ہوا کولیسٹرول سمجھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ٹرائی گلیسرائیڈ بھی ایک چربیلا مادہ ہی ہوتا ہے جو جگر میں پیدا ہوکر شریانوں کی تنگی اور خون کی رکاوٹ کا ذریعہ بنتا ہے۔ یاد رہے موجودہ دور کا سب سے خطرناک مرض موٹاپہ ٹرائی گلیسرائیڈز کی زیادتی سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ ایک صحت مند آدمی میں ٹرائی گلیسرائیڈ کی مناسب مقدار 100 ملی گرام سے 150ملی گرام تک مانی جاتی ہے۔ تاہم بعض افراد میں یہ 200ملی گرام تک بھی مناسب سمجھی جاتی ہے۔
کولیسٹرول سے بچنےکی غذائی تراکیب
مرچ سیاہ، اجوائن، عناب، لہسن، پیاز، اسپغول، ایلوویرا، ٹماٹر، انار اور ادرک وغیرہ کی مناسب مقدار اپنی روز مرہ خوراک میں شامل کرنے سے خاطر خواہ حد تک کولیسٹرول کی زیادتی سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ لہسن 100 گرام، ادرک100 گرام، پودینہ 100 گرام، مرچ سیاہ 10 گرام اور سبز مرچ 10 گرام کوگرائینڈ کر کے چٹنی بنا لیں۔ دن میں دو بار دو چمچ پانی یا دہی میں ملا کر بطور رائیتہ استعمال کرنے سے چند دنوں میں ہی کولیسٹرول میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ادرک ایک گرام اور لہسن کے تین سے پانچ ٹکڑے کریش کر کے آدھی چمچی خالص شہد اور دو چمچ سرکہ سیب ملا کر نہار منہ کھانے سے بھی جسم کی اضافی چربیوں سے نجات ملتی ہے۔
ایک گرم ادرک اور آدھی چمچی اجوائن کو ایک کپ پانی میں اچھی طرح پکا کر بطور قہوہ پینے سے بھی شاندار نتائج ملتے ہیں۔ عناب کے 7 سے10 دانے اور خشک آلو بخارا کے دو سے تین دانے رات کو پانی میں بھگو کر صبح نہار منہ اچھی طرح مل کر پانی چھان کر پینے سے بھی کولیسٹرول میں کمی واقع ہوتی ہے۔
ایلو ویرا کا ایک مناسب پتا درمیان سے کاٹ کر دونوں حصوں پر کالا نمک لگا کر کسی صاف برتن میںڈھانپ دیں۔ صبح نہار منہ ایلو ویرا کا نکلنے والا جوس پی لیا جائے تو اس سے بھی اضافی کولیسٹرول کی مقدار میں کمی پیدا ہو گی۔ عرق چوب چینی، عرق شاہترہ، عرق سونف،عرق گاؤ زبان، عرق گلاب اور عرق برنجاسف میں سے کسی ایک یا دو عرقیات کو مناسب مقدار میں باہم ملا کر نہار منہ استعمال بھی کولیسٹرول میںکمی کا ذریعہ بنتا ہے۔یاد رہے ایک وقت میں صرف ایک یا دو عرق ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ سونٹھ 50 گرام، انار دانہ 50 گرام، پودینہ 50 گرام اور مرچ سیاہ 20 گرام سفوف بنا کر دن میں دو بار کھانے کے بعد نیم گرم پانی سے کھا لیا جائے۔ اسی طرح پیاز اور ٹماٹر کی سلاد دوپہر کے کھانے کا لازمی حصہ بنا لیں۔
کولیسٹرول سے بچاؤکی گھریلو تدابیر
کچی سبزیاں، ترکاریاں، موسمی پھل، پھلوں کے جوسز اور چھلکے سمیت دالوں کی مناسب مقدار کو روز مرہ خوراک میں شامل کرنے سے بھی بڑھے ہوئے کولیسٹرول سے نجات میسر آتی ہے۔ دوران مطب اکثر مشاہدے میںآتا رہتا ہے کہ مریض دوا بھی یکسوئی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں، پرہیز پر بھی دلجمعی سے عمل پیرا رہتے ہیں لیکن ورزش اور سیر کے حوالے سے زیادہ تر سستی اور لاپرواہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مریض کی یہی سستی اور لاپراہی اسے ہمیشہ کے لیے مستقل مریض بنا کر رکھ دیتی ہے۔
پرہیز و غذائی انتخاب
سب سے پہلے خوردنی نمک کا استعمال فوری ترک کر دینا چاہیے۔ اس کے استعمال سے شریانوں میں نہ صرف سختی پیدا ہوتی ہے بلکہ یہ خون کے راستوں کو تنگ کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ سفید نمک کی جگہ کالا نمک قدرے مفید اور بہتر ثابت ہوتا ہے۔ کالے نمک کے استعمال سے شریانوں میں نرمی اور خون کی روانی مین بہتری واقع ہوتی ہے۔ سگریٹ نوشی سے بھی اجتناب ضروری ہے۔
تمباکو میںشامل نکوٹین سے بھی خون گاڑھا ہوتا ہے اور کئی مہلک بیماریوں کے حملہ آور ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح بناسپتی گھی کا کھانوں میںشامل کرنا بھی فوری ترک کردینا ہی بہتر فیصلہ ہے کیونکہ یہ بھی شریانوں کو سخت کرنے اور خون کو جمانے کے عمل کو تیز کردیتا ہے۔ کوکنگ آئل کے استعمال کو اگرچہ کچھ لوگ محفوظ قرار دیتے ہیں لیکن مبینہ طور پر دوران پراسس اس میں اس قدر کیمیائی اجزاء شامل کیے جاتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے بناسپتی گھی سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میںدیسی گھی کی مناسب مقدار، زیتون کا تیل، سرسوں کا تیل، السی کا تیل اور تلوں کے تیل کا سالن میں استعمال صحت کے لیے مفید اور بہترین ہے۔
خالص دودھ، دہی، مکھن اور دیسی گھی کی مناسب مقدار استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کولیسٹرول کے مریضوں کو فاسٹ فوڈز، پراسس فوڈز، گوشت، انڈا، چاول،کولڈڈرنکس، بیکری پروڈکٹس، پنیر، کلیجی، مغز، سری پائے، مرغن بادی و ثقیل غذاؤں سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔
گھیا، مٹر، ٹماٹر، بند گوبھی، سہانجنے کے پھول اور پھلیاں، مولی، شلجم، گاجر، دال مونگ چھلکے والی، کالے وسفید چنے، پرندوںکا گوشت، مچھلی وغیرہ کا مناسب مقدار میں استعمال مفید ثابت ہوتا ہے۔ ترش پھل وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں اور وٹامن سی بدن انسانی کی لازمی اور بنیادی ضرورت ہے۔ ترش پھلوں میں مسمی،فروٹر، کینوں وغیرہ شامل ہیں۔ سیب، امرود، انار اور پپیتہ پر کالا نمک وکالی مرچ لگا کر کھانا بھی ہے۔گاجر، سیب، انار اور مسمی کا مکس جوس پینا بھی صحت کے قیام اور بحالی کے لیے بہترین ہے۔
خالص، متوازن، متناسب اور مقوی غذاؤں کا انتخاب اور استعمال، اور صحت مند طرز زندگی ہی تندرستی کی کنجی ہے۔ سب سے سستی اور موثر دوا ورزش اورصبح کی سیر ہے۔ یوگا ورزشیں، تیراکی، سائیکلنگ اور گھڑسواری کرنے سے بھی صحت بحال رہتی ہے۔ ورزش سے میٹا بولزم کو تحریک ملتی ہے جس سے نظام ہضم میں قوت پیدا ہوکر غذاکو ہضم کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ معدے کی کار کردگی مناسب ہونے سے انتڑیاں بھی بہتر طور پر اپنے حصے کا کام سر انجام دے پاتی ہیں۔
یوں نظام اخراج کے مناسب ہوجانے سے قبض جیسے موذی مرض سے حفاظت رہتی ہے۔ ورزش کرنے سے نظام دوران خون مناسب کار کردگی کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے اور خون میں آکسیجن کی مطلوبہ مقدار شامل ہو کر سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخن تک بسہولت پہنچتی ہے۔ ورزش کے حوالے سے وضاحت ضروری ہے کہ ورزش یا سیر دن کی روشنی میں ہی کرنی چاہیے،کیونکہ آکسیجن کا عمل سورج کی روشنی سے وابستہ ہے۔ رات کے وقت آکسیجن کی عدم موجودگی کے سبب بدنی اعضاء کو حرکات تو مل جائیں گی لیکن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی وافر مقدار فضا میں ہونے کی وجہ سے آکسیجن کی خاطر خواہ مقدار نہیں ملے گی۔
فی زمانہ معالجین کی کثیر تعداد ادویات فروشی کی روش پر چل پڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی خوش قسمت انسان ہی ہوگا جو دن میں کئی ادویات استعمال کیے بغیر صبح وشام کرتا ہو۔ اصول علاج کے تحت علاج و ادویات کا مطلب بیماریوں سے نجات حاصل کرنا ہے، لیکن ہمارے ہاں معالجین مریضوں کو دوا ہمیشہ استعمال کرنے کی تاکید تو کرتے ہیں لیکن غذا کے مفید و موثر استعمال کے متعلق کم ہی مشورہ دیتے ہیں۔
طبی ماہرین کے نزدیک دوا بطور مکینک کے کام کرتی ہے، بدنی اعضاء کے تحت سر انجام پانے والے افعال واعمال کی خرابی دور کرنے اور ان کی کارکردگی کو بحال کرنے کے کام آتی ہے۔ جبکہ روز مرہ استعمال کی جانے والی خوارک بطور ایندھن ہمیں توانائی مہیا کرتی ہے اور ہمارے بدن کے مختلف اعضاء میں ہونے والی اکثر خرابیوں کو دور کرنے کی ذمے دار سمجھی جاتی ہے، جبکہ ہمارے بدن پر مسلط ہونے والی زیادہ بیماریوں کا سبب بھی ہماری روز مرہ خوراک ہی مانی جاتی ہے۔
ماہرین غذا کے بقول موسمی تقاضوں کے مطابق متوازن، متناسب اور مقوی غذاؤں کا استعمال ہمیں تا دیر صحت مند، جوان اور خوبصورت رکھنے میں بنیادی کردار نبھاتا ہے۔ اب یہ روزمرہ غذا کے انتخاب اور استعمال کے وقت ہمیں خود ہی طے کرنا ہوتا ہے کہ ہم نے صحت مند و توانا رہنا ہے یا بیماریوں کو دعوت دینا ہے۔ ہماری خوراک میں وہ تمام عناصر قدرتی طور پر شامل ہوتے ہیں جن کی ایک خاص مقدار جسم کو تندرست وتوانا رکھتی ہے جبکہ انہی عناصر کی مطلوبہ مقداروں میں غیر ضروری حد تک کمی یا زیادتی ہی خطرناک اور مہلک امراض کی پیدائش و افزائش کا باعث بنتی ہے۔ جیسا کہ کولیسٹرول، یورک ایسڈ اور شوگر وغیرہ کی مطلوبہ مقداروں میں جب کمی یا زیادتی واقع ہوتی ہے تو مرض حملہ آور ہوکر ایک تن درست انسان کو بیماری کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔
ایک بات تو طے ہے کہ تن درستی اور صحت مندی کا دارو مدار اور مکمل انحصار بدن انسانی میں پائے جانے والے انہی عناصر کے توازن پر ہوتا ہے۔ اس لیے موجودہ دور کے جدید امراض کی موجودگی میں ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی غذا کے انتخاب ا ور استعمال سے پہلے کسی ماہر غذائیت سے اپنی جسمانی ضروریات کے مطابق متوازن، متناسب اور مقوی خوراک کے بارے میں مشاورت کر لیں تاکہ بعد ازاں جسمانی عوارض سے محفوظ رہا جا سکے۔ ہائی بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک، انجائینا، فالج اور برین ہیمریج موجودہ دور کے بڑے امراض ہیںاور یہ انسانی زندگی کے لیے خطرناک ہیں۔ مذکورہ بالا امراض پیدا کرنے میںکولیسٹرول سب سے بڑا فیکٹر ہے۔
کولیسٹرول کیا ہے؟
کولیسٹرول ایک چربیلا، نرم اور ملائم مادہ ہے۔ اس کی مخصوص مقدار انسانی تندرستی کے لیے لازمی سمجھی جاتی ہے۔ جبکہ اس کی غیر ضروری اضافی مقدار خون کی نالیوں (شریانوں) کی دیواروں کے ساتھ جم کر انہیں تنگ اور سخت کرنے کا سبب بنتی ہے۔کولیسٹرول عام طور پر ہماری کھائی جانے والی غذاؤں فاسٹ فوڈز، پراسس فوڈز، کولڈ ڈرنکس، پنیر، انڈا، گوشت، کلیجی، مغز، سری پائے اور تلی ہوئی اشیاء میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔
کولیسٹرول کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ان میں سے ایک مفید جبکہ دوسری نقصان کی حامل ہے۔ انسانی خون کی کیمیائی ترکیب اور تندرستی کے لیے لازمی کولیسٹرول کو ہائی ڈینسٹی لائی پو پروٹین HDL کہا جاتا ہے۔ یہ جگر اور چھوٹی آنت میں پیدا ہوکر خون کی مائع حالت میں پختگی پیدا کرتا ہے۔
یہ نظامِ خون میںاہم کردار ادا کرتے ہوئے مختلف ماخذوں سے کولیسٹرول اخذ کرکے واپس جگر میں بھیج دیتا ہے۔ یوں کولیسٹرول کی اضافی مقدار صفراء میں شامل ہوکر براز کے رستے خارج ہو جاتی ہے۔ HDL کی مناسب مقدار نقصان دہ کولیسٹرول کی اضافی مقدار سے بھی محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نقصان دہ کولیسٹرول کو لو لائی پو پروٹین LDL کہا جاتا ہے۔ یہی وہ چربیلا مادہ ہے جو خون کو گاڑھا کر کے شریانوں کی تنگی کا سبب بنتا ہے۔ نظامِ دورانِ خون کو خراب کر کے امراضِ گردہ، فالج، برین ہیمریج، بلڈ پریشر اور قلبی امراض کا باعث بنتا ہے۔
مردوں میں HDL کولیسٹرول کی موزوں مقدار 36ملی گرام سے 45ملی گرام تک جبکہ عورتوں میں 40 ملی گرام سے 60 ملی گرام تک سمجھی جاتی ہے۔ طبی ماہرین میں ایک عام تاثر ہے کہ خواتین میں HDL کی مقدار قدرتی طور پر زیادہ پائی جاتی ہے۔ خواتین میں HDL کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں مردوں کی نسبت امراض ِ قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ مردوں میں LDL کی مقدار 130ملی گرام سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
130 ملی گرام سے 160ملی گرام تک قابلِ علاج اور کم خطرناک خیال کیا جاتا ہے۔ 160 ملی گرام سے زیادہ LDL کی مقدار انسانی جسم پرکئی خطرناک امراض کے حملوں کی راہ ہموار کرتی ہے۔ بدنِ انسانی میں بلڈ کولیسٹرول کا تناسب 170ملی گرام تک مناسب اور بہترین سمجھا جاتاہے۔ 200 ملی گرام تک مناسب سے قدرے زیادہ تاہم خطرے سے باہر ہی مانا جاتا ہے۔جبکہ 200 ملی گرام سے زیادہ بڑھا ہوا کولیسٹرول سمجھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ٹرائی گلیسرائیڈ بھی ایک چربیلا مادہ ہی ہوتا ہے جو جگر میں پیدا ہوکر شریانوں کی تنگی اور خون کی رکاوٹ کا ذریعہ بنتا ہے۔ یاد رہے موجودہ دور کا سب سے خطرناک مرض موٹاپہ ٹرائی گلیسرائیڈز کی زیادتی سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ ایک صحت مند آدمی میں ٹرائی گلیسرائیڈ کی مناسب مقدار 100 ملی گرام سے 150ملی گرام تک مانی جاتی ہے۔ تاہم بعض افراد میں یہ 200ملی گرام تک بھی مناسب سمجھی جاتی ہے۔
کولیسٹرول سے بچنےکی غذائی تراکیب
مرچ سیاہ، اجوائن، عناب، لہسن، پیاز، اسپغول، ایلوویرا، ٹماٹر، انار اور ادرک وغیرہ کی مناسب مقدار اپنی روز مرہ خوراک میں شامل کرنے سے خاطر خواہ حد تک کولیسٹرول کی زیادتی سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ لہسن 100 گرام، ادرک100 گرام، پودینہ 100 گرام، مرچ سیاہ 10 گرام اور سبز مرچ 10 گرام کوگرائینڈ کر کے چٹنی بنا لیں۔ دن میں دو بار دو چمچ پانی یا دہی میں ملا کر بطور رائیتہ استعمال کرنے سے چند دنوں میں ہی کولیسٹرول میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ادرک ایک گرام اور لہسن کے تین سے پانچ ٹکڑے کریش کر کے آدھی چمچی خالص شہد اور دو چمچ سرکہ سیب ملا کر نہار منہ کھانے سے بھی جسم کی اضافی چربیوں سے نجات ملتی ہے۔
ایک گرم ادرک اور آدھی چمچی اجوائن کو ایک کپ پانی میں اچھی طرح پکا کر بطور قہوہ پینے سے بھی شاندار نتائج ملتے ہیں۔ عناب کے 7 سے10 دانے اور خشک آلو بخارا کے دو سے تین دانے رات کو پانی میں بھگو کر صبح نہار منہ اچھی طرح مل کر پانی چھان کر پینے سے بھی کولیسٹرول میں کمی واقع ہوتی ہے۔
ایلو ویرا کا ایک مناسب پتا درمیان سے کاٹ کر دونوں حصوں پر کالا نمک لگا کر کسی صاف برتن میںڈھانپ دیں۔ صبح نہار منہ ایلو ویرا کا نکلنے والا جوس پی لیا جائے تو اس سے بھی اضافی کولیسٹرول کی مقدار میں کمی پیدا ہو گی۔ عرق چوب چینی، عرق شاہترہ، عرق سونف،عرق گاؤ زبان، عرق گلاب اور عرق برنجاسف میں سے کسی ایک یا دو عرقیات کو مناسب مقدار میں باہم ملا کر نہار منہ استعمال بھی کولیسٹرول میںکمی کا ذریعہ بنتا ہے۔یاد رہے ایک وقت میں صرف ایک یا دو عرق ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ سونٹھ 50 گرام، انار دانہ 50 گرام، پودینہ 50 گرام اور مرچ سیاہ 20 گرام سفوف بنا کر دن میں دو بار کھانے کے بعد نیم گرم پانی سے کھا لیا جائے۔ اسی طرح پیاز اور ٹماٹر کی سلاد دوپہر کے کھانے کا لازمی حصہ بنا لیں۔
کولیسٹرول سے بچاؤکی گھریلو تدابیر
کچی سبزیاں، ترکاریاں، موسمی پھل، پھلوں کے جوسز اور چھلکے سمیت دالوں کی مناسب مقدار کو روز مرہ خوراک میں شامل کرنے سے بھی بڑھے ہوئے کولیسٹرول سے نجات میسر آتی ہے۔ دوران مطب اکثر مشاہدے میںآتا رہتا ہے کہ مریض دوا بھی یکسوئی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں، پرہیز پر بھی دلجمعی سے عمل پیرا رہتے ہیں لیکن ورزش اور سیر کے حوالے سے زیادہ تر سستی اور لاپرواہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مریض کی یہی سستی اور لاپراہی اسے ہمیشہ کے لیے مستقل مریض بنا کر رکھ دیتی ہے۔
پرہیز و غذائی انتخاب
سب سے پہلے خوردنی نمک کا استعمال فوری ترک کر دینا چاہیے۔ اس کے استعمال سے شریانوں میں نہ صرف سختی پیدا ہوتی ہے بلکہ یہ خون کے راستوں کو تنگ کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ سفید نمک کی جگہ کالا نمک قدرے مفید اور بہتر ثابت ہوتا ہے۔ کالے نمک کے استعمال سے شریانوں میں نرمی اور خون کی روانی مین بہتری واقع ہوتی ہے۔ سگریٹ نوشی سے بھی اجتناب ضروری ہے۔
تمباکو میںشامل نکوٹین سے بھی خون گاڑھا ہوتا ہے اور کئی مہلک بیماریوں کے حملہ آور ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح بناسپتی گھی کا کھانوں میںشامل کرنا بھی فوری ترک کردینا ہی بہتر فیصلہ ہے کیونکہ یہ بھی شریانوں کو سخت کرنے اور خون کو جمانے کے عمل کو تیز کردیتا ہے۔ کوکنگ آئل کے استعمال کو اگرچہ کچھ لوگ محفوظ قرار دیتے ہیں لیکن مبینہ طور پر دوران پراسس اس میں اس قدر کیمیائی اجزاء شامل کیے جاتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے بناسپتی گھی سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میںدیسی گھی کی مناسب مقدار، زیتون کا تیل، سرسوں کا تیل، السی کا تیل اور تلوں کے تیل کا سالن میں استعمال صحت کے لیے مفید اور بہترین ہے۔
خالص دودھ، دہی، مکھن اور دیسی گھی کی مناسب مقدار استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کولیسٹرول کے مریضوں کو فاسٹ فوڈز، پراسس فوڈز، گوشت، انڈا، چاول،کولڈڈرنکس، بیکری پروڈکٹس، پنیر، کلیجی، مغز، سری پائے، مرغن بادی و ثقیل غذاؤں سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔
گھیا، مٹر، ٹماٹر، بند گوبھی، سہانجنے کے پھول اور پھلیاں، مولی، شلجم، گاجر، دال مونگ چھلکے والی، کالے وسفید چنے، پرندوںکا گوشت، مچھلی وغیرہ کا مناسب مقدار میں استعمال مفید ثابت ہوتا ہے۔ ترش پھل وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں اور وٹامن سی بدن انسانی کی لازمی اور بنیادی ضرورت ہے۔ ترش پھلوں میں مسمی،فروٹر، کینوں وغیرہ شامل ہیں۔ سیب، امرود، انار اور پپیتہ پر کالا نمک وکالی مرچ لگا کر کھانا بھی ہے۔گاجر، سیب، انار اور مسمی کا مکس جوس پینا بھی صحت کے قیام اور بحالی کے لیے بہترین ہے۔
خالص، متوازن، متناسب اور مقوی غذاؤں کا انتخاب اور استعمال، اور صحت مند طرز زندگی ہی تندرستی کی کنجی ہے۔ سب سے سستی اور موثر دوا ورزش اورصبح کی سیر ہے۔ یوگا ورزشیں، تیراکی، سائیکلنگ اور گھڑسواری کرنے سے بھی صحت بحال رہتی ہے۔ ورزش سے میٹا بولزم کو تحریک ملتی ہے جس سے نظام ہضم میں قوت پیدا ہوکر غذاکو ہضم کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ معدے کی کار کردگی مناسب ہونے سے انتڑیاں بھی بہتر طور پر اپنے حصے کا کام سر انجام دے پاتی ہیں۔
یوں نظام اخراج کے مناسب ہوجانے سے قبض جیسے موذی مرض سے حفاظت رہتی ہے۔ ورزش کرنے سے نظام دوران خون مناسب کار کردگی کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے اور خون میں آکسیجن کی مطلوبہ مقدار شامل ہو کر سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخن تک بسہولت پہنچتی ہے۔ ورزش کے حوالے سے وضاحت ضروری ہے کہ ورزش یا سیر دن کی روشنی میں ہی کرنی چاہیے،کیونکہ آکسیجن کا عمل سورج کی روشنی سے وابستہ ہے۔ رات کے وقت آکسیجن کی عدم موجودگی کے سبب بدنی اعضاء کو حرکات تو مل جائیں گی لیکن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی وافر مقدار فضا میں ہونے کی وجہ سے آکسیجن کی خاطر خواہ مقدار نہیں ملے گی۔