موٹاپا دماغ ہی بدل دیتا ہے
جدید طبی سائنس نے موٹاپے کے دو نئے اور بڑے نقصان افشا کر دئیے
فربہ یعنی موٹاپے کا شکارحضرات اور خواتین کے لیے یہ کوئی اچھی خبر نہیں۔ ہالینڈ اور امریکا میں یونیورسٹی محققوں نے تحقیق و تجربات سے انکشاف کیا ہے کہ موٹاپا ایسی زبردست جسمانی کیفیت ہے جو ہمارے دماغ کے دو اہم نظام ہی تبدیل کر کے اسے نقصان پہنچانے کی قوت رکھتا ہے۔ انسان کے بدن کی سلطنت میں دماغ کو بادشاہ کی حیثیت حاصل ہے۔ اب موٹاپا اُسے ہی نقصان پہنچانے لگے تو ذرا سوچیے کہ یہ حالت کتنی خطرناک ہے۔ اسی لیے گیارہ سال قبل 2013ء میں امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم، امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن نے موٹاپے کو ایک ''مرض'' (Disease) قرار دے دیا تھا۔
سب سے پہلے ایمسٹرڈیم یونیورسٹی، ہالینڈ کے ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ موٹاپے کی وجہ سے انسانی دماغ کا وہ کیمیائی نظام خراب ہو جاتا ہے جو انسان کو خبردار کرتا ہے: ''تم بہت کھا چکے، اب رک جاؤ اور کھانے سے ہاتھ روک لو۔'' یہی وجہ ہے، موٹے خواتین و حضرات عموماً کھانے بیٹھیں تو کھائے چلے جاتے ہیں۔ اور لگتا ہے کہ ان کی بھوک کبھی ختم نہیں ہو گی۔
زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ موٹاپے کا شکار انسان اگر کسی نہ کسی طرح دبلا ہو جائے تب بھی اس کے دماغ میں سیر ہونے کا اشارہ دینے والا کیمیائی نظام درست نہیں ہوتا۔ گویا موٹاپا اس نظام کو مستقل طور پہ خراب کر دیتا ہے۔ اسی لیے دیکھا گیا ہے کہ جو فربہ مرد و زن قوت ارادی سے کام لے کر دبلے ہو بھی جائیں تو جلد یا بدیر ان کا وزن پھر بڑھ جاتا ہے۔اس اضافے کی ایک اہم وجہ یہی ہے کہ ان کے دماغ میں سیری کا اعلان کرنے والا کیمیائی نظام خراب ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ رفتہ رفتہ پھر زیادہ کھانا کھانے لگتے ہیں اور ان کا موٹاپا واپس آنے لگتا ہے۔
انسان کو جب بھوک لگتی ہے تو ہمارے دماغ کا ایک علاقہ ''اسٹریاٹم'' (Striatum) کیمیائی سگنل چھوڑ کر انسان کو ابھارتا ہے کہ وہ حرکت کرے اور غذا تلاش کر کے اپنی بھوک مٹائے۔ جب انسان کو کھانا مل جائے تو اسٹریاٹم سگنل چھوڑنا بند کر دیتا ہے۔ اسی دوران ہمارے دماغ کا ایک علاقہ، ہائپوتھلامس (hypothalamus) ڈوپمائن کیمیکل خارج کرنے لگتا ہے۔ یہ کیمیائی مادہ انسان میں سیر ہونے کا خوشگوار احساس پیدا کرتا ہے۔ یوں اسٹریاٹم میں سگنل بند ہونے اور ڈوپمائن خارج ہونے سے انسان سیر ہونا محسوس کر کے مذید نوالے لینا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ ہے وہ دماغی کیمیائی نظام جو انسان کو زیادہ کھانا کھانے سے محفوظ رکھ کر اسے صحت مند وتوانا رکھتا ہے۔
انسان مگر فربہ ہو جائے تو تجربات کے ذریعے دیکھا گیا کہ کھانا کھاتے ہوئے ان کے دماغ میں اسٹریاٹم مسلسل سگنل چھوڑتا رہتا ہے اور اپنی سرگرمی ترک نہیں کرتا۔ ان متواتر سگنلوں کی وجہ سے ہائپوتھلامس بھی ڈوپمائن کیمیکل خارج نہیں کرتا۔ چناں چہ انسان کھاتا چلا جاتا ہے اور اسے بھوک مٹنے کا احساس نہیں ہوتا۔ گویا موٹاپا انسان کو کھانا کھانے کی مشین بنا دیتا ہے۔ مگر حد سے زیادہ کھانا ایسا خطرناک فعل ہے جو انسان کو آخرکار وقت سے پہلے کئی بیماریوں میں مبتلا کر اسے گور کنارے پہنچا دیتا ہے۔
برطانیہ میں ڈاکٹر اسما صدف فاروقی موٹاپے کی سائنس پہ تحقیق کرنے والی ممتاز ماہر ہیں۔ آپ یونیورسٹی آف کیمبرج میں پروفیسر ہیں۔ درج بالا تحقیق کے بارے میں ان کا کہنا ہے:''یہ تحقیق مستند اور ٹھوس ہے۔ اس نے ثابت کر دیا کہ موٹاپا دماغ کو نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے۔ تحقیق نے گویا موٹاپے کو زیادہ خطرناک مرض بنا ڈالا۔ اب لوگوں کو احتیاط کرنا چاہیے کہ وہ اعتدال سے کھائیں اور فربہی کا شکار نہ ہوں۔'' یاد رہے، ان مرد و زن کو موٹا کہا جاتا ہے جن کا وزن بی ایم آئی ( body mass index) میں 30 سے زیادہ ہو۔ جبکہ 18 سے 25 نمبر رکھنے والے لوگ نارمل وزن رکھتے ہیں۔
تولیدی مادوں کی قلّت
اسی دوران ایک امریکی یونیورسٹی کے ماہرین نے یہ نیا انکشاف کر دیا کہ موٹے مردوزن میں تولیدی مادے بننا کم ہو جاتے ہیں۔ گویا اب پتا چلا ہے کہ کئی فربہ مرد و زن نوجوان ہونے کے باوجود کیوں ماں باپ نہیں بن پاتے۔ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ ایک اہم وجہ ان کا موٹاپا بھی ہو سکتی ہے۔گو یہ تحقیق جانوروں پر انجام پائی لیکن محققین کا خیال ہے کہ اس کے اثرات انسانوں میں بھی یکساں پڑتے ہوں گے۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ریورسائڈ، امریکا کے محققین نے چوہوں کے ایک گروپ کو مسلسل زیادہ کھانے کھلائے اور وہ موٹے تازے ہو گئے۔ اس دوران لیبارٹری میں متواتر ان کے دماغ کا تجزیہ کرتے دیکھا گیا کہ جنم لیتا موٹاپا دماغ میں کس قسم کی تبدیلیاں پیدا کر رہا ہے۔ ایک اہم تبدیلی تو یہی تھی کہ اس نے سیری کا احساس پیدا کرنے والا کیمیائی نظام تباہ کر دیا۔ دوسری اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ تولیدی مادے بنانے والے دماغی نظام کو بھی نقصان پہنچ گیا۔
انسان سمیت تمام جانداروں کے جسم میں دو دماغی علاقے، ہائپوتھلامس اور غدہ نخامیہ (pituitary gland) ہمارے تناسلی غدود (gonads) کے ساتھ مل کر تولیدی مادے بناتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ہائپوتھلامس کی ہدایت پر غدہ نخامیہ وہ ہارمون خارج کرتا ہے جو تولیدی مادے بنانے والے ہارمون یعنی نر میں ٹیسٹوسٹیرون اور مادہ میں ایسٹروجن بناتے ہیں۔
امریکی یونیورسٹی کی تحقیق سے انکشاف ہوا کہ جب چوہے موٹے ہو گئے تو ان میں ہائپوتھلامس اور غدہ نخامیہ کے درمیان رابطہ کمزور ہو گیا۔ دونوں دماغی علاقے معمول سے ہٹ کر منفی انداز میں کام کرنے لگے۔ اور اس تبدیلی کی وجہ سے غدہ نخامیہ تولیدی مادے بنانے والے ہارمون کم مقدار میں خارج کرنے لگا۔ اس کم اخراج کی وجہ سے چوہوں کے تولیدی غدود نے بھی تولیدی مادے کم بنائے۔ یوں نر ومادہ، دونوں موٹے چوہوں میں بانجھ پن جنم لینے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔
موٹاپے کے دو نئے نقائص عیاں ہونے کے بعد ہمیں کھانے پینے میں احتیاط کرنا چاہیے۔ تندرست رہنا ہے تو یہ نہایت ضروری ہے کہ اعتدال سے کھائیے اور ایسی غذاؤں سے دور رہیے جو جسم میں چربی بڑھاتی ہیں کیونکہ اسی کی وجہ سے موٹاپا جنم لیتا ہے۔ یہ ایسا خوفناک مرض ہے جو نت نئی خطرناک بیماریوں مثلاً کینسر، امراض قلب اور ذیابیطس قسم دوم پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ قران پاک میں اللہ تعالی نے بھی ہمیں حکم دیا ہے:
''اے بنی آدم، عبادت کے مقام پر بن سنور کر جاؤ اور کھاؤ پیو مگر حد سے زیادہ نہ بڑھو کہ وہ (اللہ) حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔'' (سورہ الاعراف۔31)