گلبدن بانو بیگم

گلبدن بتاتی ہیں کہ تخت نشینی کے بعد بابرکا پورا حرم کابل سے آگرہ آگیا تھا

fatimaqazi7@gmail.com

گلبدن بانو بیگم خوبصورت، زیرک اور علم دوست شہزادی، شہنشاہ بابر کی بیٹی ہمایوں کی چہیتی بہن اور اکبر اعظم کی پھوپھی جس کی شناخت اس کی تصنیف '' ہمایوں نامہ'' ہے، جو اس نے شہنشاہ اکبر کے کہنے پر لکھی تھی۔ یہ کتاب سات سال میں مکمل ہوئی۔ '' ہمایوں نامہ'' مغلوں کی تاریخ ہے جسے شہزادی نے بڑی محنت سے لکھا ہے۔ گلبدن بانو بیگم 1523 عیسوی میں کابل میں پیدا ہوئیں۔

مغل دربار میں انھیں خاص اہمیت حاصل تھی، وہ ترکی اور فارسی بہت اچھی طرح جانتی تھیں۔ گلبدن کی ماں دلدار بیگم تھیں، لیکن ان کی پرورش ماہم بیگم نے کی۔ انھوں نے ''ہمایوں نامہ'' میں ان خواتین کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے جو دربار میں خاصی اہمیت کی حامل تھیں۔ ان کے آپسی رشتوں کی بات کی ہے، ان کے رویوں کی بات کی ہے۔ یہ خواتین بادشاہ کی ماں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں اور ان کی بہو بیٹیاں تھیں جن کی خوشنودی کا خیال تمام مغل بادشاہ کرتے تھے، وہ اپنی بیگمات کا بھی بہت خیال رکھتے تھے اور اپنے سسرالی رشتے داروں کا بھی۔ وہ ان خواتین کو تحائف بھجواتے، جاگیریں تحفوں میں دیتے اور بہت کچھ دیتے تھے۔

گلبدن بتاتی ہیں کہ تخت نشینی کے بعد بابرکا پورا حرم کابل سے آگرہ آگیا تھا۔ جب ان کی عمر صرف پانچ سال تھی اور وہ کابل سے آگرہ آرہی تھیں تو بابر نے ان کے استقبال کے لیے گھوڑوں پر سوار سو مغلانیاں اور دو پالکیاں بھیجی تھیں۔ 1326عیسوی میں گلبدن بانو کو اپنے بابا جان کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ انھیں اپنے بابا جان سے قریب ہونے کی چاہت تھی۔ ماہم بیگم، بابرکی پسندیدہ بیگم تھیں۔ انھوں نے اپنے اور اپنی سوکنوں کے بچوں کی تربیت کی۔ ایک جگہ وہ بابر کے متعلق لکھتی ہیں کہ:

''اس طرح خدا تعالیٰ نے کابل کو مرزا خان سے نجات دلائی اور آپ کے (بابر کے) سپرد کیا۔ اس وقت آپ کی عمر 23 سال تھی۔ آپ بے اولاد تھے اور اولاد کی خواہش دل کو بے چین رکھتی تھی۔ کابل کی فتح خدا تعالیٰ نے بہت مبارک کی کیونکہ اس کے بعد آپ کے ہاں اٹھارہ بچے پیدا ہوئے۔ اول ماہم بیگم سے حضرت ہمایوں بادشاہ، باربول مرزا، مہر جہاں بیگم، ایشان دولت بیگم اور فاروق مرزا۔ معصومہ سلطان بیگم کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کی پیدائش کے وقت معصومہ سلطان فوت ہوگئیں، اس لڑکی کا نام ماں کے نام پر رکھا گیا۔''

ایک اور جگہ لکھتی ہیں۔

'' سلطان ابو سعید مرزا کی سات لڑکیاں ہندوستان آئی تھیں، یعنی گوہر شاہ بیگم، خدیجہ سلطان بیگم، بدیع الجمال بیگم، آق بیگم، سلطان بخت بیگم اور زینت سلطان خانم، جو بادشاہ کے ماموں سلطان محمود خان کی بیٹی تھیں اور محب سلطان خانم جو بادشاہ کے چھوٹے ماموں کی بیٹی تھیں۔ قصہ مختصر کل بیگمات تعداد میں چھیانوے تھیں۔ ان سب کے لیے آپ نے خاطر خواہ جاگیریں، مکان اور انعامات مقرر فرمائے۔ آگرہ میں آپ کا قیام چار سال تک رہا، اس عرصے میں آپ ہر جمعے کے دن اپنی پھوپھیوں سے ملاقات کو جاتے تھے۔

ایک دن ہوا بہت گرم تھی، ماہم بیگم نے کہا '' آج ہوا بہت گرم ہے، ایک دن نہ جاؤ تو بیگمات ناراض نہیں ہوں گی۔'' حضرت بادشاہ نے کہا، ''ماہم! تعجب ہے تم ایسی باتیں کہتی ہو۔ حضرت ابو سعید سلطان مرزا کی بیٹیاں جو اپنے باپ اور بھائیوں سے جدا ہوگئی ہیں اگر میں ان کی خاطر جوئی نہ کروں گا تو کون کرے گا؟''

کابل سے آگرہ آنے کی روداد یوں لکھی ہے۔


''بادشاہ کے وزیر اپنی بیوی سلطانم کے ساتھ نوگرام تک استقبال کو آئے۔ میں پالکی میں تھی اور میری ماماؤں نے مجھے باغیچے میں اتارا اور وہیں ایک چھوٹا سا قالین بچھا کر مجھے اس پر بٹھا دیا اور مجھے سکھایا کہ جب بادشاہ کے وزیر صاحب آئیں توکھڑے ہوکر ان سے ملنا، جب وہ آئے تو میں کھڑے ہو کر ان سے ملی۔ اتنے میں ان کی بیوی سلطانم بھی آگئیں، میں انجانے میں ان کی تعظیم کے لیے بھی کھڑی ہونا چاہتی تھی۔ مگر وزیر صاحب نے اعتراض کیا اور کہا '' یہ تو تمہاری بڑھیا ماما ہے اس کے لیے کھڑے ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تمہارے والد نے اس بوڑھے غلام کی بہت عزت افزائی کی ہے۔''

بابر کے چار بیٹے تھے۔ ہمایوں، ہندال، کامران اور عسکری۔ ہمایوں سب سے بڑا تھا۔ گلبدن بیگم کو اپنے سوتیلے بھائیوں سے بہت محبت تھی اور چاروں بھائی بھی اسے بہت چاہتے تھے۔ بابرکے انتقال کے بعد وہ ہمایوں کے ساتھ پلی بڑھیں، انھوں نے دربارکی بااثر اور دبدبے والی خواتین کے زیر سایہ پرورش پائی، وہ بہت فیاض اور محبت کرنے والی تھیں، صدقہ و خیرات اس کثرت سے کرتیں کہ کوئی محتاج نامراد واپس نہ جاتا تھا، وہ جب سولہ سال کی ہوئیں تو ان کی شادی ان کے پھوپھی کے بیٹے خضر خواجہ خان سے ہوگئی۔ ان کا ایک بیٹا بھی تھا جو درباری امور میں مہارت رکھتا تھا۔ بھائیوں سے محبت کے بارے میں یہ تحریر دیکھیے۔

''غرض سب بھائیوں نے مل کر ایک دسترخوان پہ کھانا کھایا، اس مجلس میں حضرت بادشاہ نے مجھ ناچیزکو یاد فرما کر اپنے بھائیوں سے کہا، لاہور میں گلبدن بیگم نے کہا تھا کہ '' اس کی یہ آرزو ہے کہ اپنے سب بھائیوں کو اکٹھا دیکھے۔ اس کی یہ بات صبح سے میرے دل میں آرہی ہے۔ انشا اللہ ہماری یک جہتی کو حق تعالیٰ اپنے حفظ و امان میں رکھے گا۔ خدا تم سب کو توفیق دے کہ ہمیشہ ایک دوسرے کے موافق و معاون رہو۔''

گلبدن بیگم کا انداز تحریر بہت دل کش ہے انھوں نے ایک جگہ حمیدہ بانو بیگم اور ہمایوں کی شادی کا قصہ بھی لکھا ہے۔

'' ایک بار خواتین بادشاہ حضورکے سلام کو حاضر ہوئیں تو ان میں حمیدہ بانو بیگم بھی تھیں، بادشاہ حضور نے پوچھا یہ کون ہے۔ ماہم بیگم نے بتایا یہ حمیدہ بانو بیگم ہے بابا دوست کی بیٹی، بادشاہ اسے ایک نظر دیکھتے ہی اس کے عشق میں مبتلا ہوگیا اور اس کے لیے رشتہ بھیجا لیکن حمیدہ بانو نے انکار کردیا، لیکن ماہم بیگم اسے مناتی رہیں، اس کا کہنا تھا کہ بادشاہ کی عمر میں اور اس کی عمر میں بہت فرق ہے۔ ہمایوں شیر شاہ سوری سے جنگ ہارنے کے بعد بہت پریشان تھا، اس کا خیال تھا کہ حمیدہ اس کے لیے خوش بختی لائے گی، آخر مسلسل چالیس دن تک ماہم بیگم حمیدہ بانو کو مناتی رہیں۔

اس مہم میں دلدار بیگم بھی شریک تھیں، انھوں نے حمیدہ بانو سے کہا کہ تم کسی سے تو شادی کرو گی پھر بادشاہ سے بہتر اور کون ہوگا، حمیدہ بانو نے کہا وہ ایسے شخص سے شادی کرنا چاہے گی جس کے گریبان تک اس کا ہاتھ پہنچ سکے۔ یہاں تو دامن تک بھی رسائی نہیں، لیکن پھر دلدار بیگم نے اسے منا ہی لیا۔ شادی کے وقت حمیدہ بانو کی عمر سترہ برس اور ہمایوں کی عمر تقریباً تینتیس سال تھی، لیکن یہ شادی واقعی ہمایوں کے لیے خوش بختی لائی تھی۔''

گلبدن بیگم نے ستر خواتین کے ساتھ مکہ مکرمہ کا سفرکیا، اس میں صرف تین مرد شامل تھے، قافلے کو پہلے گجرات کے شہر سورت میں رکنا پڑا، تاکہ پرتگالی ان کے سفر کو بحری قذاقوں سے محفوظ بنائے۔ اس وجہ سے ایک سال تک قافلہ سورت میں رُکا رہا، پھر بحری سفر اور خشکی کے تکلیف دہ سفر کے بعد قافلہ مکہ پہنچا۔ سن 1576 عیسوی میں حج کیا اور پھر وہاں شریک خواتین نے رہنے کا فیصلہ کر لیا، اس قافلے کے لیے اکبر نے اپنی پھوپھی کے لیے خزانے کے منہ کھول دیے۔

گلبدن بیگم کی داد و دہش کی داستانیں عام ہوئیں تو سلطنت عثمانیہ کے سلطان مراد نے اسے اکبر بادشاہ کے اثر و رسوخ کی بڑھوتری سے تعبیر کیا اور گلبدن بانو بیگم کو یکے بعد چار رقعے بھیجے کہ وہ یہاں سے چلی جائیں، لیکن شہزادی نے کوئی پرواہ نہ کی۔ بہرحال چار سال کے بعد یہ قافلہ 1580 عیسوی میں واپس ہندوستان پہنچا۔

گلبدن بانو بیگم بہت پڑھی لکھی اور بردبار شہزادی تھیں، وہ محلاتی سازشوں سے الگ تھلگ لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتی تھیں۔ شہنشاہ اکبر اپنی پھوپھی کو بہت چاہتے تھے اور ان کا احترام کرتے۔ وہ چند روز بیمار ہوئیں، اس وقت حمیدہ بانو بیگم ان کے پاس تھیں۔ وہ آنکھیں بند کیے لیٹی تھیں، حمیدہ بانو نے انھیں پیار سے آواز دی، جیوا۔۔۔۔جیوا ! یعنی باجی، باجی۔ لیکن انھوں نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ پھر حمیدہ بانو نے انھیں ان کے نام سے پکارا تو انھوں نے آنکھیں کھولیں اور بولیں: ہم چلے تم زندہ رہو۔ اور آنکھیں بند کرلیں۔ سن 1603 عیسوی میں 80 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ کابل کی شہزادی نے آگرے میں آنکھیں موند لیں۔
Load Next Story