تنقید الزامات اور سیاسی ڈرامے
2018 ء سے قبل پنجاب کے متعدد الیکٹ ایبلز نے مخصوص اشاروں پر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی
عام طور پرکہا جاتا ہے کہ تنقید تعمیری، الزامات درست اور سیاست پاک صاف، آئینی اور قانون کے دائرے میں کرنی چاہیے مگر یہ بات 1996 میں سیاسی جماعت بنا کر سیاست میں آنے والے کرکٹ کے کھلاڑی کی سمجھ میں نہیں آئی جو 22 سال ناکام رہنے کے بعد 2018 میں غیبی مدد سے وزیر اعظم بنائے گئے تھے اور اب غیر سیاسی سرگرمیوں، انتقامی مزاج، لالچ، جھوٹے الزامات، آئے دن تبدیل کرنے والے اپنے بیانات اور یو ٹرین لینے میں ملک بھر میں مشہور ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ ہم سے مذاکرات کے لیے اپنا نمایندہ مقررکرے ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
اپنی جارحانہ سیاست و منفی کردار کے باعث ایک سال سے قید بانی پی ٹی آئی نے مذاکرات کی یہ پیشکش اس طرح کی ہے جیسیدوسری جانب سے انھیں مذاکرات پر آمادگی کے لیے کہا گیا ہو اور متعدد سنگین الزامات میں مقدمات کا سامنا کرنے والے سابق وزیر اعظم مذاکرات پر راضی ہوگئے ہوں اور انھوں نے اسٹیبلشمنٹ سے کہہ دیا کہ وہ اپنا نمایندہ مقرر کرے۔
ریاستی ادارے آئینی طور پر حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں، وہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہوتے کہ وہ حکومت یا سیاسی جماعتوں کی طرح کسی سیاسی جماعت کو مذاکرات کی پیشکش کریں نہ ہی کسی ریاستی ادارے نے کسی کو بھی خواہ وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی مذاکرات کی کبھی پیشکش کی۔
ہاں! یہ ضرور ہے کہ حکومتی عہدیداروں کے علاوہ سیاسی رہنما، صنعتکار اور تاجر بعض دفعہ مذہبی شخصیات بھی ریاستی اداروں کے عہدیداروں سے اپنے طور پر ملتیرہتی ہیں اور یہ سلسلہ ہر حکومت میں جاری رہا اور چیئرمین پی ٹی آئی اپنے 2014 کے دھرنے کے دوران بھی مختلف ریاستی عہدیداروں سے ملتے رہے ہیں اور چیئرمین پی ٹی آئی دھرنے کے دوران ایمپائر سیبار بار کہتے رہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا خاتمہ کرے اور حصول اقتدار کے لیے پی ٹی آئی کا ساتھ دے مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی ۔
2018 ء سے قبل پنجاب کے متعدد الیکٹ ایبلز نے مخصوص اشاروں پر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی جنھیں پی ٹی آئی حکومت میں اہم عہدے دیے گئے تھے۔عمران خان نے اقتدار سے قبل اور بعد میں بھی منفی سیاست کی۔ جھوٹ کو فروغ دیا، اپنے مخالفین پر بے بنیاد جھوٹے الزامات لگائے، سابق حکمرانوں میں صرف شریفوں اور زرداریوں کو اپنا دشمن سمجھ کر ان پر ملک لوٹنے، بیرون ملک اور اندرون ملک غیر قانونی جائیدادیں بنانے کے سنگین الزامات لگائے، اپنے غیر ملکی دورے میں پاکستان میں کرپشن عروج پر ہونے کا کہہ کر اپنے ہی ملک کو دنیا میں بدنام کیا۔ اپنے سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالنے کا اعلان کیا اور کر بھی دکھایا اورکوئی اور جرم نہ ملنے پر انھیں ہیروئن برآمدگی کے جھوٹے کیس میں جیل میں رکھا، جس جرم کی سزا موت تھی۔
سیاست میں سیاستدانوں پر کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات کا لگنا تو عام بات ہے مگر بانی پی ٹی آئی نے اپنے سوشل میڈیا ٹیم، جھوٹے ٹرولرز اور میڈیا پرسنزکو نوازکر اور اپنے بیانات سے متاثرکر کے ان سب سے اپنا سیاسی مخالفین کی ذاتی کردار کشی کرائی اور ان پر بے بنیاد الزامات لگوائے ۔ بانی پی ٹی آئی نے منفی اور جھوٹے الزامات کی وہ سیاست کی جس کا مقابلہ کوئی سیاسی جماعت اور ان کی مخالف حکومتیں آج تک نہ کرسکیں اور منفی سیاست کا توڑ نہ کر سکیں۔بانی پی ٹی آئی اپنی منفی سیاست میں اپنی چرب زبانی سے اپنے حامیوں پر اثرانداز رہنے کے ماہر ہیں ۔
بانی پی ٹی آئی میں انتقام اور جھوٹ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور وہ یو ٹرن لینے کا انتہائی ماہر ضرور ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ موجودہ دور وہ نہیں جب سیاسی رہنما اپنے بیانات سے منحرف ہو جاتے تھے، اب منحرف ہونا ممکن نہیں کیونکہ اب ہر چیز ریکارڈ پر ہے اور میڈیا انھیں جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ہر ایک کی تقریر دوبارہ دکھا دیتا ہے مگر جھوٹوں اور قوم کو بے وقوف بنانے والے اب بھی باز نہیں آئے ۔ بانی پی ٹی آئی وقت کے مطابق یو ٹرن لینے کے نہ صرف ماہر ہیں بلکہ یو ٹرن لیتے ہوئے خود کو عظیم لیڈر بھی قرار دے چکے ہیں اور اس ڈھٹائی سے اپنا بیان بدلتے ہیں کہ ہر کوئی حیران رہ جاتا ہے۔ سیاست سے پہلے کا بانی پی ٹی آئی کا کردار جو بھی رہا وہ اپنی جگہ مگر سیاست میں ہر ایک کا کردار عوام کی تقلید کا ذریعہ بن جاتا ہے اور اس کا ذاتی منفی کردار ذاتی نہیں عوامی دلچسپی کا حامل بن جاتا ہے۔
بانی پی ٹی آئی کو اپنی سیاست کا راستہ نکالنے اور خود کو بچانے کا خیال اب آیا ہے جب وہ 9 مئی کرا چکے ۔ سیاسی طور پر ڈراموں، یوٹرنز اور جارحانہ و منفی سیاست انھیں ہی نہیں ملک کو بھی کافی نقصان پہنچا چکی ہے اب انھیں دور اندیشی کا مظاہرہ کرنے جھوٹوں اور الزام تراشی کی منفی سیاست چھوڑنا ہوگی کیونکہ ملک اب اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ان کے مخالف بھی دودھ کے دھلے نہیں سیاست میں سب ایک جیسے اور بدعنوان ہیں اور بانی چیئرمین کی کرپشن اب عیاں ہو چکی ہے اور ملک کو صاف ستھری اور کرپشن سے پاک سیاست نصیب ہوئی ہے نہ ہوگی۔ اس لیے اب سب کو اپنی سیاست کی بجائے ملک و قوم کے وسیع مفاد کا سوچنا اور تعمیری سیاست کرنا ہوگی۔