اگر مسائل نہ ہوں تو

اگر دنیا میں ’’احمق‘‘ نہ ہوتے تو عقل مند بھوکے مرچکے ہوتے


Saad Ulllah Jaan Baraq August 17, 2024
[email protected]

فرض کرلیجیے کہ آج سے ''بغیرسر'' کے لوگ پیدا ہونا شروع ہوجائیں تو ٹوپی اور پگڑی بنانے والے کیا کھائیں گے اور اگر لوگ بغیر پاؤں والے یا کھروں والے پیدا ہوں تو جوتے بنانے والے کیا بیچیں گے؟ اگر انسانوں کے سروں یا جسموں پر''بال'' پیدا نہ ہوں تو یہ بیچارے حجام وغیرہ تو ایک طرف استرے، بلیڈ، شیونگ مشین، شیونگ کریم بیچنے والے گھاس کاٹنا اور کھانا شروع کردیں اور ہاں یاد آیا زنانہ بالوں کی برکت سے ہزاروں کارخانے چل رہے ہیں، یہ تو ہم نے محض چند مثالیں دی ہیں ایسے''کتنے'' ہیں جو''کتنوں'' کی روزی روٹی کا وسیلہ ہیں۔


ایک پشتو کہاوت بھی ہے کہ اگر دنیا میں ''احمق'' نہ ہوتے تو عقل مند بھوکے مرچکے ہوتے۔ یہاں پر شاید آپ کا خیال چھلانگ لگاکر لیڈروں اور کالانعام پر جائے تو وضاحت ضروری ہے کہ نہ تو ہمارے عوام کالانعام''اتنے'' '' احمق'' ہیں اور نہ لیڈر''اتنے'' عقل مند بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ ثبوت کے لیے اتنا بتادینا کافی ہے کہ ہزاروں سال گزرے لیکن نہ تو کالانعاموں کو''عقل'' آئی اور نہ لیڈروں کو شرم یا رحم۔حالانکہ اس عرصے میں بے شمار جنگلی اور وحشی جانور تک''سدھ'' گئے ہیں ، گھوڑے، گدھے، بیل، اونٹ''جُت'' گئے ہیں ریچھ بندر ''بدھ'' گئے ہیں لیکن کالانعام اتنے ہی کالانعام ہیں جتنے صدیوں پہلے تھے اور ممتاز اتنے ہی ممتاز ہیں۔


طوطے یہ ''بولنا'' تو سیکھ گئے ہیں کہ ہم''شکاری'' کے نرکل پر نہیں بیٹھیں گے لیکن نرکل پر''بیٹھنا'' اور''لٹکنا'' بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں۔خیر بات کو وہیں سے جوڑتے ہیں جہاں ہم نے اس بڑے سے بریک سے پہلے چھوڑی اور توڑی تھی۔اگر آج کوئی جادوگر یا بزرگ ''چُف'' کرکے انسانوں کی وہ تمام بیماریاں ختم کردیں جو مسیحاؤں اور سوداگروں نے بڑی محنتوں اور جان جوکھم کے بعد انسانوں میں ڈالی ہیں تو کیا یہ دواساز، دواباز اور دغابازمسیحا اس ''بزرگ'' کو ایک لمحے کے لیے زندہ چھوڑدیں گے، ہر گز نہیں بلکہ ایک دم ہی سارے چندہ بناکے تمام اجرتی قاتلوں، شارپ شوٹروں اور بلیک واٹروں کو اس پر چڑھا ڈالیں گے، بھلا کوئی اپنی محنت سے اگائی ہوئی ''فصلوں'' کو یوں برباد ہوکے دیکھ سکتا ہے؟


بحرساکن ہو تو تم کو کوئی پوچھے بھی نہیں


''ناخدا''خیرمنا بحر میں طوفانوں کی


اب اس ''بحر'' بلکہ مجمع البحرین کو دیکھیے جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان عرف ریاست مدینہ ہے اور عملی طور پر وزیرستان،مشیرستان،معاونستان اور ستان ستان ہے۔یاد رہے کہ یہ جو''ستان'' کا لفظ ہے اصل میں استھان،استان اور ''اسٹیند'' ہے جہاں''اس'' یعنی گھوڑے رکھے جاتے ہیں، پالے جاتے ہیں، بیچے، خریدے جاتے ہیں ،جوتے جاتے ہیں اور دوڑائے جاتے ہیں۔اس جمع ستان مساوی ستان۔اب یہ بتانے کی تو شاید ضرورت ہی نہیں کہ جن جن ممالک کے ناموں میں''ستان'' پایا جاتا ہے۔وہاں گھوڑوں کا ہی کاروبار ہوتا ہے علامہ نے بھی کہا ہے


دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے


بحرظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے


ہمیں پھر شبہ ہونے لگا ہے کہ آپ کی بے مثال سمجھدانی کسی اور طرف بھی نکل سکتی ہے اس لیے بتائے دیتے ہیں یہاں ہمارا مطلب ان گھوڑوں سے بالکل نہیں جن کی چارٹانگیں ہوتی ہیں اور ان کے داروغہ کو اسائیں ،سائیں یا اساسیں کہا جاتا ہے۔بلکہ ان ممالک میں جو گھوڑے پالے جاتے ہیں ان کی دو ٹانگیں ہوتی ہیں اور ان کی تربیت کرنے والے بلکہ ''والوں'' کو سئیں سیاس اور سیاسی کہا جاتا ہے۔لیکن ان استانوں یا ''ستانوں'' میں کچھ ایسے بھی ہیں جہاں ان''گھوڑوں'' کو مسائل کہا جاتا ہے''سئیں لوگ'' اسے پالتے ہیں پوستے ہیں اور گدھوں کی پیٹھ پر لاد کر ''تجارت'' کرتے ہیں اور نفع کماتے ہیں۔


ویسے تو ہر سائیں یا سئیں یا سیاس ان گھوڑوں عرف مسائل کو پیدا کرنے اور پالنے پوسنے میں''یدطولیٰ'' رکھتا ہے اس لیے انھیں بار بار''لایا'' جاتا ہے کہ گھوڑوں عرف مسائل کی پیداوار بڑھتی رہے اور قوم کو کبھی بھی گھوڑوں عرف مسائل کی قلت یا کمی محسوس نہ ہو لیکن بعض تو ان میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے ہیں مثلاً عرصہ ہوا ایک ماہر سئیں نے ''تین'' کا فارمولہ استعمال کرتے ہوئے ایک وسیع اصطبل قائم کیا۔''تین'' کے فارمولے کو آپ یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اس نے نہ چار نہ دو بلکہ تین پیروں والے گھوڑے پیدا کیے۔جیسے روٹی کپڑا مکان۔اسلام ہمارا دین،جمہوریت ہماری سیاست،سوشل ازم ہماری معیشت یہ بھی تین،جھنڈے کے رنگ بھی تین۔پارٹی کا نام بھی تھری(p) اور سئیں بھی امرشل لا ایڈمنسٹریٹر صدر اور وزیراعظم،خطابات بھی تین قائد عوام فخر ایشیا اور قائد جمہوریت۔ لیکن تازہ ترین''سئیں'' جو ابھی گزارا نہیں ہے اور نہ جانے کب تک گزرتا رہے گا شاید اس ملک کے''دی اینڈ'' ہونے تک


اس گزرگاہ سے پہنچیں تو کہیں منزل تک


جو بھی گزرے گی گزاردیں گے گزرنے والے


اس نے کمال ہنرمندی سے ایسے گھوڑے پیدا کیے جو پیروں کے محتاج ہی نہیں بلکہ اڑتے ہیں وہ بھی''بے پر'' کے۔بلکہ بظاہر گھوڑے لگتے ہیں اور اصل میں گدھے بھی نہیں ہوتے بلکہ ہوتے بھی نہیں اور نہیں بھی ہوتے


کوئی جھنکار ہے نغمہ ہے صدا ہے کیا ہے؟


تو کرن ہے کہ کلی ہے کہ صبا ہے کیا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں