مقابلے میں نوجوان کی ہلاکت ایس ایچ او اور 3 اہلکاروں پر قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم

پولیس اہل کاروں کے ساتھ تلخی پر پولیس پارٹی مقتول کو ساتھ بٹھا کر لے گئی اور بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا، مدعی

(فوٹو: فائل)

پولیس مقابلے میں نوجوان کی ہلاکت پر عدالت نے ایس ایچ او اور 3 پولیس اہل کاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔


سندھ ہائی کورٹ میں قائد آباد میں مبینہ پولیس مقابلے میں نوجوان کی ہلاکت کے معاملے پر ایس ایچ او اور پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے فیصلے کیخلاف درخواست مسترد کردی اور حقائق کے مطابق ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔


دوران سماعت وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نوجوان کو ساتھ لے کر گئی اور جعلی مقابلے میں قتل کردیا۔ پولیس کی یہ درخواست انصاف میں رکاوٹ ڈالنےکی کوشش ہے۔ ویڈیوکلپس نے پولیس کی کہانی کاپردہ چاک کردیا ہے۔



وکیل نے کہا کہ سیشن جج ملیر نے بھی پولیس کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ سنایاتھا اور ایس ایس پی ملیر کو مدعی کا بیان ریکارڈ کرکے مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔ پولیس کے مطابق 8جولائی 2024کو ملزم مبینہ طورپر پولیس سے فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا۔


مدعی کے مطابق مقتول اور پولیس اہلکاروں کی تلخ کلامی ہوئی جس پر پولیس پارٹی مقتول کو موٹر سائیکل پر بٹھاکراپنے ہمراہ لے گئی اور بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا۔ سیشن عدالت نے قراردیاہے کہ وڈیوز اور دیگر شواہد سے نوجوان کا قتل ثابت ہوتا ہے۔


بعد ازاں عدالت نے ایس ایچ او قائد آباد اور 3 پولیس اہلکاروں پر قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔


ملزمان میں ایس ایچ او قائدآباد سمیت کانسٹیبل جہانگیر مروت، اقبال حسین اور بابر علی رند شامل ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ثبوتوں کی بنیاد پر ایس ایچ او بھی ملزم ہے، ملزم ایف آئی آر درج نہیں کرسکتے۔ ایس ایس پی بیان ریکارڈ کرکے مقدمہ درج کروائیں۔

Load Next Story