غزہ میں جاری بربریت دنیا کی بے حسی
اسرائیل ظلم کی ہر حد پارکرچکا ہے مگر اقوام عالم جان بوجھتے انجان بنی ہوئی ہے
غزہ میں بربریت کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے، اسرائیل کی سفاکیت پوری دنیا پر واضح ہے۔ مسلسل جارحیت کی وجہ سے یومیہ ایک سو سے زائد لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں، سفاک اسرائیلی خواتین اور بچوں کو بھی اپنی نفرت کا نشانہ بنا رہے ہیں، بھوک و افلاس، موت کا خوف، بے گھری، اہلخانہ کی لاشوں کو دیکھ کر فلسطینی شدید تناؤکا شکار ہوگئے ہیں۔
غزہ میں ایک سینٹی میٹر جگہ بھی محفوظ نہیں رہی۔ علاقے کی آبادی اور امدادی اداروں کی قیمت پر جنگی قوانین کو متواتر پامال کیا جا رہا ہے، غزہ میں امداد کی فراہمی کا عمل غیر یقینی حالات سے دوچار ہے۔ اس کے نتیجے میں غذائی قلت کا شکار بچوں کے لیے کوئی مدد میسر نہیں رہی۔ علاقے میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں حملے کا خطرہ نہ ہو۔ حملوں سے قبل لوگوں کے پاس کسی علاقے سے انخلا کرنے کے لیے 10 سے 15 منٹ ہوتے ہیں۔
ایسے میں انہیں جلدی سے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کون سا سامان ساتھ لے جانا ہے اورکون سا چھوڑ دینا ہے۔ غزہ شہر، جبالیہ،خان یونس، دیر البلح اور اب رفح سے انخلا کرنے والوں سمیت سب کا ایک جیسا حال ہے۔ فوڈ سیکیورٹی کی صورت حال کی مربوط اور مرحلہ وار درجہ بندی کرنے والے ادارے Integrated Food Security Phase Classification یا آئی پی سی کے مطابق غزہ میں اسرائیل اور حماس کے مابین جاری خونریزی کی وجہ سے امداد کی ترسیل محدود ہے، جس کی وجہ سے بھوک اور قحط کے شدید خطرے کا سامنا ہے۔
آئی پی سی نے بتایا ہے کہ غزہ کی کُل تقریبا 2.3 ملین کی آبادی میں سے پانچ لاکھ کے قریب یا تقریبا پانچویں حصے کو غذائی تحفظ کی صورتحال کے حوالے سے انتہائی المناک اور تباہ کن حد تک برے حالات کا سامنا ہے۔ وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس 7 اکتوبر سے اب تک ہلاکتوں کی مجموعی تعداد چالیس ہزار سے زائد ہوگئی ہے،ان میں بہت بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
اسرائیل ظلم کی ہر حد پارکرچکا ہے مگر اقوام عالم جان بوجھتے انجان بنی ہوئی ہے، جنیوا کنونشن سمیت دیگر عالمی انسانی قواعد کا معمول کے مطابق قتل عام ہو رہا ہے۔ حد ہے اسپتالوں تک پر بمباری ہو رہی ہے، تعلیمی ادارے تک محفوظ نہیں ہیں، پناہ گزین کیمپوں تک پر دھاوا بولا جا رہا ہے، غرض کے فلسطین میں ہر سمت اسرائیلی سفاکیت کا راج ہے اور مجال ہے کسی عالمی ادارے کے کان پر جوں رینگی ہو، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اہل مغرب کے سامنے جنگی جرائم وہ ہیں جو ان کے مفادات کے منافی ہو، کوئی بھی اس کا سیاسی حل نکالنے پر تیار نہیں ہے۔
عالمی عدالت انصاف فیصلہ دے چکی ہے کہ اسرائیل فلسطینی نسل کشی میں ملوث ہے جبکہ عالمی عدالت انصاف کو فوری طور پر جنگ بندی کا حکم دینا چاہیے تھا۔ دنیا کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ آرہی ہے کہ فلسطین کھنڈر بن چکا ہے، وہاں باقاعدہ نسل کشی کی جا رہی ہے، یہ تنازع کسی عمارت یا زمین کا نہیں ہے جہاں معاملے کو طول دیا جا سکے، یہ معصوم انسانی جانوں کا مسئلہ ہے، جسے فوری طور پر حل ہوجانا چاہیے تھا مگر اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے معاملے کو طول دیا جا رہا ہے، سبھی جانتے ہیں کہ 1947میں اقوام متحدہ نے اسرائیل اور فلسطین دونوں کے قیام کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اس دوران جنگ چھڑنے کے نتیجے میں اسرائیل نے فلسطین کے بیشتر حصے پر ناجائز قبضہ کرلیا تھا، وہ تبھی سے اپنے توسیع پسندانہ منصوبوں پرکاربند ہے، امریکا کی ستم ظرفی تو دیکھیں اس نے یو این او میں اسرائیل کے خلاف پیش ہونے والی ہر قرارداد کو ویٹو کیا ہے۔
اس عالمی تنازعے پر امریکا ہمیشہ یہ کہہ کر روڑے اٹکائے ہیں کہ اس سے صورتحال مزید بگڑے گی۔ اسرائیل کا اصل نشانہ یروشلم ہے، جسے وہ اپنا سب سے بڑا مذہبی مرکز قرار دینے پر مصر ہے، مگر وہ اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھا ہے کہ یہ وہی یروشلم ہے، جہاں قبلہ اول موجود ہے اور جس کے ساتھ تمام دنیا کے مسلمانوں کی مذہبی وابستگی ہے۔ اسی یروشلم میں موجود ٹیمپل ماؤنٹ کی مغربی دیوار ہے جسے عرف عام میں '' دیوارگریہ'' بھی کہا جاتا ہے۔
یروشلم کا قدیم شہر دراصل چار حصوں میں بٹا ہوا ہے، یہ چاروں حصے عیسائی، یہودی، مسلمان اور آرمیینائیوں کے ہیں، چونکہ آرمینائی بھی عیسائی ہی ہیں تو زیادہ حصہ عیسائی مذہب سے متاثر ہے مگر اسرائیل یروشلم کے بڑے حصے پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے ناجائز قیام کے بعد جو سات لاکھ فلسطینی مہاجر ہوگئے تھے، ان کی تعداد بڑھ کر اب 80 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے، اسرائیل کو ڈر ہے کہ یہ آگئے تو یہودی اقلیت میں آجائیں گے، اقلیت میں آجانے کا خوف ہی دراصل صیہونی ریاست کو ہر قسم کے ظلم و بربریت پر آمادہ کیے ہوئے ہے۔ فلسطین دنیا کا وہ واحد علاقہ ہے جو پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی سامراجیت کا سب سے زیادہ شکار ہوا۔
مظلوم فلسطینی گزشتہ75 سال سے فلسطین حالت جنگ میں ہیں، اسرائیل نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا گیا ہے، فلسطینی مزاحمت کاروں کے دیسی ساختہ کھلونا قسم کے راکٹوں کو بہانہ بنا کر انسانیت پر قیامت مسلط کرنے والی صہیونی حکومت نے غزہ کی پٹی میں جو تباہی اور بربادی پھیلائی ہے اسے دیکھ کر 1945ء میں جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر امریکی ایٹم بم حملوں کی تباہی یاد آتی ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ڈیڑھ ماہ سے بھی کم عرصے میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر 20 ہزار ٹن بارود پھینکا ہے، جو مجموعی طور پر چھ طاقتور ایٹم بموں کے بارود اور ان کی تباہی کے برابر ہے۔
بارود کی بارش میں یورینیم گیسوں کے گولے بھی شامل ہیں، جس کے نتیجے میں انسانی زندگی کیساتھ حیوانی اور نباتاتی زندگی بھی مفلوج ہونا شروع ہوگئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ''ایف 15'' ایف 16 اور بغیر پائلٹ کے ڈرون طیاروں کی مدد سے غزہ کی پٹی پر MK82,MK83 اور MK84 نامی اسی ہزار بم برسائے گئے ہیں، اس بم کی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک بم جس مقام پرگرتا ہے، وہاں ایک مربع کلومیٹر کے علاقے میں کسی چیز کے زندہ بچ جانے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔
جہاں ہزاروں ایسے بم برسائے گئے ہوں وہاں تباہی کی نوعیت کیا ہوسکتی ہے۔ اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں، یہ ذہن میں رکھیں گا کہ بم باری کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کو کچلنے کے لیے ہر قسم کے غیر انسانی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ اردن اور مشرقی یروشلم میں تعمیر کی جانے والی 140بستیوں میں چھ لاکھ سے زیادہ یہودیوں کو آباد کیا جاچکا ہے، اسرائیل پوری طرح فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کرکے اپنا راج قائم کرنا چاہتا ہے، لیکن جانباز فلسطینیوں کی مزاحمت ناجائز صہیونی ریاست سیسہ پلائی دیوارکی مانند کھڑی ہے، دلیر فلسطینی خون کے آخری قطرے تک اپنی سرزمین کی بازیابی کے لیے سینہ سپر رہیں گے۔