محبت کے لطیف جذبوں کا شاعر ارشد ملک
ارشد ملک کی بعض غزلوں میں روایت کا گہرا شعور ملتا ہے لیکن ان کے یہاں موضوعات روایتی نہیں ہیں
خوبصورت یادیں زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں۔ وہیں کچھ یادوں سے جڑے لوگ کئی صدیوں تک نہیں بھولتے بلکہ ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ ایسی ہی کچھ کیفیت ارشد ملک کے ہاں موجود ہے، جو بہت خوبصورت لب و لہجے کے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نفیس انسان ہے۔ انہیں کتابوں میں رہنا اور کتابی چہروں سے ملنا بہت اچھا لگتا ہے، وہ رات کے اندھیرے میں فلک پر چمکتے ستاروں کے جھرمٹ کو اپنی آنکھوں میں قید کرتے ہوئے محبت کے سہانے خواب سجانے کا کچھ یوں جتن کرتے ہیں۔
میرے چاروں طرف اندھیرا ہے
دیکھتا ہوں میں روشنی کی طرف
'' کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں'' یہ ان کے شعری مجموعہ کا نام ہے۔ جو حمد،نعت، غزلوں، نظموں اور اشعار پر مشتمل ہیں۔ اس کتاب کے دیباچہ میں شدت احساس کا شاعرکا نام دیتے ہوئے شبنم شکیل لکھتی ہے کہ '' ارشد ملک کے اس نئے مجموعے میں جو غزلیں اور نظمیں شامل ہیں، اُن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شاعری کی کلاسیکی روایت سے کسی صورت بھی دست کش ہونے کو تیار نہیں مگر ایسا نہ جانیے کہ وہ محض روایتی قسم کی شاعری کر رہا ہے اُس کی جدید اور عام فہم لفظیات اُس کے موضوعات کا تنوع، ایک سادہ سا رومانوی ٹچ جس میں وہ ہلکا پن کبھی نہیں آنے دیتا اور ہر مقام پر اُس کے شدتِ احساس کی کارفرمائی مستقبل میں اُس کے ایک صاحب اسلوب شاعر ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔''
ارشد ملک کی شاعری میں عشق و محبت کے نازک اور لطیف جذبات اور ان کے اُتار چڑھاؤکی تصویریں بھرپور انداز میں کھینچی ہیں لیکن ان کا اظہار باوقار پیرائے میں کیا ہے کیونکہ وہ عشق وحسن دونوں کی حرمت کے قائل ہیں ان کی رسوائی گوارا نہیں ہے نہ وہ خود ذلیل ہوتے ہیں اور نہ حسن کو ذلیل ہونے دیتے ہیں۔ وہ عشق میں محبوب کی قدر و قیمت کو جانتے ہوئے احترام دینے کے قائل ہے۔ ان کے نزدیک عشق و محبت ایک ایسی عبادت ہے جو زندگی کو خوبصورت بنا دیتی ہے۔
مجھے جب سے محبت ہو گئی ہے
یہ دنیا خوبصورت ہو گئی ہے
ارشد ملک کی بعض غزلوں میں روایت کا گہرا شعور ملتا ہے لیکن ان کے یہاں موضوعات روایتی نہیں ہیں۔ ان کا اصل سرمایہ عشقیہ شاعری ہے جو ارضی و جسمانی ہے اور قلبی وارداتوں اور اس کی جاودانی کیفیتوں کی داستان ہے، اس میں ایک شریف انسان کی سے پاکیزگی اور بلندی ہے۔ وہ خالص جذبوں کا شاعر ہے۔
ان کے بارے میں جمیل یوسف لکھتے ہیں کہ '' ارشد ملک کی سوچ بھی ہو بہو یہی ہے، اُس نے اپنی شاعری پرگفتگوکرتے ہوئے مجھ کو بتایا ہے کہ وہ اس طرح کے شعر لکھتا ہے اور لکھنا چاہتا ہے جس طرح کے شعر اُس کا قاری پڑھنا چاہتا ہے، عام اور پاپولر ذوق کا ہمیشہ خیال رہتا ہے، وہ کتب فروش ہے اُسے اچھی طرح پتہ ہے کہ لوگ کس قسم کی کتابوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔
وہ طلب و رسد کے پیمانوں کو خوب پہچانتا ہے شاعری میں وہ جس خوبی کو اہم سمجھتا ہے وہ اچھی شاعری کی بنیادی خوبی ہے۔ اُس نے '' مجھے کچھ کہنا ہے'' میں لکھا ہے کہ '' قارئین کے ہاتھ میں جب میری کتاب ہو تو انہیں بات کا مکمل یقین ہوکہ لکھنے والے کے احساس خالص ہیں، نظریات خالص ہیں تو شاعری پھر خود بخود اعلیٰ و ارفع مقام تک پہنچ جاتی ہے۔'''' کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں'' ارشد ملک جن لوگوں کی یاد میں ہے وہ لوگ شائد دل کے سچے جذبوں اور آنکھوں کی خوبصورت سپنوں میں ہی چھپے ہیں یا ستاروں کی محفل میں یا محبت کے جہاں میں یا پھرگلشن کی بہاروں میں گھر بنائے ہوئے ہیں۔
کیونکہ جن لوگوں کی یادیں انسان سے وابستہ ہوں وہ یاد آنے پر یا بھول جانے پرکبھی دل سے جدا نہیں ہوتے، بلکہ اپنی خوشبوکسی تازہ گلاب کی طرح سانسوں کو بخشتے رہتے ہیں، کیونکہ کچھ لوگ دعاؤں کی طرح ہوتے ہیں۔ اسی بات پر ارشد ملک اپنی رائے کا اظہارکچھ یوں کرتے ہیں کہ '' ابھی ہم سجدے میں سر ٹکاتے ہیں کہ وہ اشکوں کی طرح آنکھوں سے آجاتے ہیں اورکچھ لوگوں سے تھوڑی دیرکا ملن برسوں کی جدائی بھلا دیتا ہے۔
ان کا مختصر ساتھ ایک لمبی یاد بن کر دل میں بس جاتا ہے اُن کی گفتگو اور دلنوازیاں ہمیشہ تڑپاتی ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی یادوں کے اتنے گہرے نقوش دوسروں کے ذہن پر چھوڑ جاتے ہیں کہ میرے جیسا شاعر اُن کے خلوص اور وقارکو اپنی یاد کی مٹھی میں بندکر لینا چاہتا ہے، میری زندگی تپتے صحرا میں یہ یادیں نخلستان کا کام دیتی ہیں اور جب لوگ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو یہ یادیں میری تنہائی کا ساتھی بن جاتی ہیں، میرے لفظوں کا پیراہن بن جاتی ہیں اور میری زندگی کی کتاب کا حاصل ۔'' ارشد ملک کے یہ الفاظ بے شک انمول موتیوں جیسا ہیں۔ وہ دُکھ کو بھی اپنا ساتھی رکھتا ہے، وہ کسی کے یاد آنے پر آنسو نہیں بہاتا بلکہ اپنا دُکھ سکھ لفظوں کی صورت تحریرکرکے اپنے چاہنے والوں کو رونے اور ہنسانے کا تحفہ دیتے ہیں۔
وقت خوشیوں میں بھی کٹ جاتا ہے لیکن دوستو
غم سے بڑھ کرکوئی جذبہ دیر پا نہیں ہوتا
ارشد ملک ایک صاف گو اور مہمان نواز آدمی ہے۔ ان کی دوستی سدا بہار پھولوں کی خوشبو جیسی ہے۔ وہ راولپنڈی میں مقیم کتاب کلچرکے فروغ کیلئے ایک اشاعتی ادارہ '' رُمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز'' کے نام سے قائم کیے ہوئے ہیں۔ اپنے اس شعری مجموعے کا انتساب انہوں نے '' رُمیل'' کے نام کرتے ہوئے کیا خوبصورت جملہ لکھا ہے کہ ''جس کے دم قدم سے زندگی کا احساس باقی ہے۔'' آخر میں بس یہی کہوں گا جو لوگ خشک پتوں کی طرح شاخوں سے ٹوٹ کر جدا ہو جاتے ہیں اسی طرح جو لوگ ہم سے بچھڑ جاتے ہیں وہی لوگ ارشد ملک کے اس شعرکی مانند بھول جانے پر بھی ہمیشہ یاد آتے ہیں۔
کچھ باتیں تھیں پھولوں جیسی کچھ خوشبو جیسے لمحے تھے
میں صحنِ چمن میں ٹہلوں توکچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں