بنگلہ دیشی تحریک اور خواہشات کے گھوڑے… ناصر منصور

موجودہ تبدیلی کوئی سماجی انقلاب نہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے

پوچھا گیا ہے کہ ''دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبونے والے کہاں ہیں۔'' لگتا ہے انہیں بنگلہ دیش کی صورتحال کا درست ادراک ہی نہیں۔ بنگلہ دیش کے واقعات پر ہم اپنے زخموں کو چاٹنے بیٹھ جاتے ہیں، یہ کوئی صحت مند رویہ نہیں۔ بنگالیوں نے اکہتر میں بھی غیر جمہوری اور غیر انسانی سلوک کے خلاف بغاوت کی اور آزادی حاصل کی اور وہ آج بھی غیر انسانی اور غیر جمہوری طرز حکومت کے خلاف سراپا احتجاج رہے ہیں۔ یہ واقعات کہیں بھی سترکے واقعات کی ہماری توجیحات اور خوش گمانیوں کی تصدیق نہیں کرتے۔

یہ وقت نے ثابت بھی کیا ہے اور مزید نکھارکے ساتھ ثابت بھی کرے گا کہ بنگالی عوام اپنی آزادی، قومی شناخت، سیکولر اور جمہوری آدرشوں سے آج بھی اتنے ہی جڑے ہوئے ہیں، جتنا اپنی آزادی کی جدوجہد کے دوران۔ آپ سمجھتے ہیں کہ وہاں کے لوگ اکہتر میں لگے گہرے گھاؤ بھول جائیں گے ایسا ممکن نہیں۔ بنگلہ دیش میں موجودہ تبدیلی دراصل ان اصولوں میں سے ایک بنیادی اصول یعنی جمہوری آزادیوں سے مسلسل انحراف کے خلاف عوامی ردعمل کا منطقی نتیجہ ہے اورکچھ نہیں۔

بتانا یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر قوم کی تشکیل کا نظریہ اکہتر میں، میں نہیں بلکہ جناح صاحب نے 11 اگست 1947 کو یہ کہہ کر دفن کردیا تھا پاکستان میں بسنے والے سب بالا تفریق مذہب پاکستانی قوم ہیں ( گو یہ بھی تاریخی، سماجی اور سیاسی طور درست نہیں) اور برابر کے شہری ہیں اور ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ یہ جناح صاحب ہی تھے جنہوں نے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ اب ہندوستان کے وفا دار شہری بن جائیں یعنی ہندوستانی قوم کا حصہ۔

بنگلہ دیش کے قیام نے تو صرف اس امر پر مہر ثبت کی تھی کہ مذہب کی بنیاد پر قوموں کی تشکیل مفروضہ اور نقش برآب ہے۔ ہمیں مشرقی بنگال میں اپنے کیے پر پشیماں ہونے کی بجائے بنگالیوں کے مندمل ہوتے زخموں کو کریدنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، بلکہ مزید سبکی ہی ہوگی اور حالات ثابت کریں گے کہ شیخ حسینہ واجد کی آمرانہ طرز حکومت کے خلاف طلبا کی مزاحمت کہیں بھی بنگالیوں کی قومی آزادی کی تحریک کا انکار نہیں اور نہ ہی دو قومی نظریے سے وابستگی کا کوئی اعلان۔ جو ایسا سوچ رہے ہیں ان کے لیے عرض ہے ۔

اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی


اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی

ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک ایسی جماعت کے خلاف بغاوت ہوئی ہے جس نے بنگالی قوم کی آزادی کی جنگ جیتی جو جمہوریت، قومی شناخت اور سیکولر ازم جیسے آدرشوں کی علم بردار تھی اور اب اس قومی آزادی کی جنگ کی قیادت کرنے والی جماعت کا اپنے آدرشوں سے مسلسل انحراف کا منطقی انجام ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کی بدلتی سیاسی صورت حال میں جماعت اسلامی کی سوچ حاوی ہو جائے گی، ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ نیا سیاسی سیٹ اپ کیا کرتا ہے ابھی دیکھنا باقی ہے لیکن ایک بات تو طے ہوئی کہ فوج کی براہ راست حکمرانی کو طلبہ نمائندوں نے مسترد کردیا ہے۔ تحریک کی طاقت کا مرکزہ جماعت اسلامی یا فوج نہیں بلکہ حسینہ واجد کی پندرہ سالہ غیر جمہوری آمرانہ پالیسیوں پر طلبہ اور عوام کا رد عمل ہے۔ گو سیاسی عمل میں غیر متعلقہ ہوتی فوج کو جواز مہیا ہوا کہ وہ ایک بار پھر سیاست میں اپنا کھیل کھیل سکے لیکن وہ وہ کس قدرکامیاب ہوتی ہے یہ جلد نظر آجائے گا۔ عوامی بے چینی سے وہ قوتیں بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی، جو عوام دشمن ایجنڈا لیے بیٹھی ہیں۔

شیخ مجیب کے مجسموں کی تھوڑ پھوڑ، ہندوؤں، بدھسٹوں کی املاک اور عبادت گاہوں پر حملے قابل مذمت اور انتہائی شرمناک ناک عمل ہے جو کسی صورت بنگلہ دیش کے شہریوں کی عمومی سوچ کی عکاسی نہیں کرتی اور تحریکی طلبہ نے اسے روکا بھی ہے۔ یہ سب ٹل سکتا تھا اگر شیخ حسینہ واجد وقت پر عوامی غصہ کی وجوہات کو سمجھ لیتیں اور اپنے آمرانہ چلن کو تیاگ کر جمہوری طرز عمل اختیار کرتیں۔ آپ جائز مطالبات کے لیے آواز اٹھائیں، والوں کو رضا کار (غدار) کہیں اور یہ بھی کہیں کہ ان کے لیے تو عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم ہی کافی ہے تو پھر یہ جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔ ایک ماہ میں ساڑھے چار سو سے زائد شہریوں کو جنگ میں استعمال ہونے والی شوٹرگنز سے ہلاک کرنا، ہزاروں کوگھائل زخمی اورگرفتارکرنا، موجودہ صورت میں منتج ہونے کے علاوہ ہو بھی کیا سکتا تھا۔

موجودہ تبدیلی کوئی سماجی انقلاب نہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہ ایک حکومت کی تبدیلی ہے جو اپنی آمرانہ روش کی بنا پر عوام کا اعتماد کھو چکی تھی۔ اس میں چین، امریکہ یا کسی اور کی سازش تلاش کرنا بھی اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ موجودہ تحریک کے نتیجہ میں عوام کو اپنی قوت کا ادراک ہوا ہے کہ اگر اظہار کے جمہوری راستے روکے جائیں گے تو عوامی تحریک سے ہر آمرانہ روش کو شکست دی جا سکتی ہے۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام اور باشعور حلقہ جمہوری آزادیوں، سیکولر ازم اور قومی تشخص کے خلاف ہونے والی ہر طرح کی سازش کو ناکام بھی بنا سکتا ہے۔
Load Next Story