ہم دیکھیں گے …رافعیہ قاسم

ایسا نہیں ہے کہ کسی ملک میں کرپشن نہ ہوئی ہو اور معیشت کوکبھی کوئی نقصان نہ پہنچا ہو


August 18, 2024

دنیا کے نقشے پر جب بھی کوئی مملکت وجود میں آتی ہے تو اس کو بنانے والے کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں، اس کو قائم کرنے والوں کا بھی کوئی مقصد یا کوئی خواب ہوگا۔ ہمیں غلامی کی زندگی سے نجات اور آزادی دلانے تک اس وطنِ عزیزکے بانیان نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ہمارا وطن دو '' قومی نظریہ'' کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ ان الفاظ کو زبان سے صرف ادا کردینا یا انہیں اپنی تحریرکا حصہ بنانا آسان لگتا ہے، لیکن اصل میں ان الفاظ کے پیچھے چھپی حقیقت کو جاننا اور سب سے بڑی بات اسے سمجھنا ہماری عقل و فہم سے بالاتر ہے۔

دو قومی نظریے کی بدولت آج ہمیں آزادانہ مملکت کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اس کا تاریخی پس منظرکچھ یوں ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں تھیں ہیں، جن کا دین و مذہب الگ، نظریات الگ، روایات الگ، جو معاشرتی اصولوں اور عقائد میں جدا ہیں وہ آخرکیسے ایک ساتھ رہ سکتی ہیں۔ ان مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اور ان کے ساتھیوں نے دو قومی نظریے کے تحت ایک مملکت کی بنیاد رکھی جس کا نام رکھا، اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ بانیانِ پاکستان نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کو تشکیل دیا جہاں وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق مذہبی اعتبار سے بنا کسی مذمت و روک ٹوک کے بغیر استقامت سے زندگی بسرکرسکیں۔

بانی پاکستان نے اپنی تقاریر میں پاکستانی قوم کو ہمیشہ ایک ہی پیغام دیا تھا کہ اپنے حق کی خاطر آواز بلند کرنا، یہ ملک آپ کا ہے، اس کو آپ آگے لیکر چلیں گے، نوجوانوں کو ملک کا سرمایہ اور مستقبل بتایا اور انہیں محنت و جرات سے کام کرنے کی تلقین کی، لیکن جب ملک کو بنانے والے دنیا فانی سے رخصت ہوجائیں تو اس وقت ملک میں استحکام قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، اگر ملک ان کے طے کردہ اصولوں اور قوانین کے مطابق نہ چلے تو ترقی اس ملک کا راستہ کبھی نہیں دیکھتی۔

ایسا نہیں ہے کہ کسی ملک میں کرپشن نہ ہوئی ہو اور معیشت کوکبھی کوئی نقصان نہ پہنچا ہو، لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں ہر ملک آگے سے آگے بڑھنے کی کوششوں میں لگا ہے اور بہتری کی طرف جا رہا ہے وہاں ہمارا ملک کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ ملک کو بہتری کی طرف لے جانا اور اس میں استحکام قائم رکھنا حکمرانوں اور عدلیہ کا کام ہوتا ہے۔ ملک کو ایسے اصولوں پر چلانا جس سے عوام کو فائدہ پہنچے اور انہیں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ حکمران کا کام ہوتا ہے جب وہ اقتدار میں آتا ہے تو وہ اپنے فیصلوں کی نظرِ ثانی کرے اور اپنے اصولوں کو بہترین انداز میں استعمال کرنا جانتا ہو اور اپنے وعدوں اور دعوؤں کا پختہ ہو، جو ملک و قوم کے لیے فخر کا باعث بنے۔

جو عوام کو سیاست سے نہ جوڑے، بلکہ ملک میں استحکام اور خوشحالی لائے، مگر ایک کامیاب مملکت کا خواب، خواب ہی رہ گیا ہے۔ اس کا اندازہ پاکستان کی موجودہ صورتحال سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس وقت ملک سیاسی بحران، مہنگائی،کرپشن، جرائم، دہشت گردی، ظلم و جبرگویا کہ عدم استحکام کا گڑھ بنا ہوا ہے۔

یہاں ہرکوئی اپنی سیاست چمکانے میں لگا ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے ہر سال بجٹ بم عوام کے سر پرگرایا جاتا ہے۔ کمر توڑ مہنگائی، بجلی کے اضافی یونٹ، روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کھانے پینے کے سامان ہر چیز پر بڑھتی قیمتیں سننے میں تو وہی گھسی پٹی اور فرسودہ باتیں لگتی ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ کہ ہم کب تک انہیں مسئلوں میں پھنسے رہیں گے۔ ملک پاکستان بدحالی، بد عنوانی، بد امنی، بد اخلاقی کا شکار ہے۔ بے روزگاری مالی حالات سے تنگ آکر روز ایک نیا واقعہ رونما ہوتا ہے۔

کبھی مجبور باپ نہر میں چھلانگ لگا کر جان دیتا ہے،کبھی پنکھے سے لٹک کے خود کشی کرلیتا ہے،کبھی ماں بچوں سمیت زہرکھا کر مرجاتی ہے۔ گھریلو ناچاقیاں، بھائی کا بہن کو قتل کردینا، اخراجات پورے نہ ہونے کی وجہ سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہونا گوکہ گرتی معیشت اور سیاسی بحران میں الجھے حکمران اب عوام کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے لگے ہیں۔ ہم آج آزاد ہوکر بھی غلام ہی ہیں۔ ان سب فسادات کی وجہ قوم کی خاموشی ہے۔ اپنے لیے آواز نہ اٹھانا، اپنے حقوق کے خاطر نہ لڑنا، مظالم سہنا اور مظالم کو تماشائی بن کر بس دیکھنا، چپ رہنا اس قوم کا شعار بن گیا ہے۔

صرف چند لوگوں کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ آج ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو مہم جوئی کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کررہے ہیں جو انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، بچوں کے حقوق، ملازمین کے حقوق اور دیگر مہمات کے ذریعے لوگوں کو اپنے حقوق کے خاطر لڑنے کی تعلیم دے رہے ہیں، لیکن جب تک ہم اپنے ساتھ مخلص نہیں ہوتے تب تک ہم غلام ہی رہیں گے۔ یہ مہنگائی، بے روزگاری، گرتی معیشت، ناخواندگی، غربت یہ سب آج تک ہمارے ملک کا حصہ صرف ہماری خاموشی کی وجہ سے ہیں۔ یہ سب مسائل ترقی یافتہ ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں لیکن ان مسائل کا حد سے بڑھ جانا ملک کو تباہ کردیتا ہے، جو قوم اپنے لیے آواز اٹھانے سے گریزکرتی ہے وہ اپنے حقوق اور مفاد کا دفاع نہیں کرپاتی اور ان کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔

ملک کے بہتر مستقبل کے لیے قوم کا بیدار ہونا ضروری ہے۔ بیدار قوم اپنے حقوق کا دفاع کرتی ہے۔ فساد اور لاقانونیت کے خلاف لڑتی ہے، ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ جب قوم بیدار ہوتی ہے تو وہ اپنے ملک کی معیشت، تعلیمی نظام، صحت اور عدلیہ کے امور میں دلچسپی لیتی ہے۔ بیدار قوم اپنے ملک کے منصوبوں کا حصہ بنتی ہے اور سب سے بڑھ کر متحد ہوکر ظلم کے لیے آواز بلند کرتی ہے۔

آج اگر قوم ملک کے بے جا مسائل اور زوال پذیری پر حکمرانوں کو برا بھلا کہتی ہے اور ان سے شکایت کرتی ہے تو انہیں اس کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، کیونکہ یہ عوام کے اپنے غلط انتخاب کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو قوم انقلاب برپا کرنے کا ارادہ کر لے،کامیابی اس قوم کا مقدر ہوتی ہے۔ اس بات کی جیتی جاگتی مثال موجودہ دور میں اپنے حق کے خاطر آواز اٹھانیوالے بنگلہ دیشی طلبہ ہیں، جنہوں نے ظلم اور لاقانونیت کے خاطر اپنی جانیں دے دی اور بالآخر وہ حاصل کر کے دم لیا، جس کے لیے وہ اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے تھے۔

آج ایسی قومیں ملیں گی جو اپنے پیاروں کی جانیں قربان ہوتے دیکھ رہی ہیں۔کشمیری جو اپنی مخصوص حیثیت کھونے کے بعد سے اب تک ظلم و جبرکی اس جنگ میں لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے کیونکہ انقلاب تھال میں رکھ کر نہیں ملتا، اس کے لیے مسلسل کوشش اور لڑائی جاری رکھنا پڑتی ہے اور بے شمار قربانیاں دینی پڑتی ہیں، اپنوں کوکھونا پڑتا ہے۔ پاکستان ایک جمہوری نظام کے تحت وجود میں آیا ہے۔ جمہوریت میں سیاستدان اور عوام کے درمیان ایک رشتہ ہوتا ہے۔

عوام اپنے ووٹ کے ذریعے سیاستدان کو اقتدار میں لاتے ہیں۔ ووٹ، سیاستدان کی ضرورت ہوتا ہے لیکن اگر یہ درست جگہ استعمال ہوا ہو، ورنہ اس کا نقصان پورے ملک کو اٹھانا پڑتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے سے بات چیت کر کے سیاسی مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ بات چیت سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب ہے جیسے ہم لوگ گھروں، دفاتر، اسکولوں، بازاروں، ہوٹلوں، مسجدوں اور پارکس میں جاتے ہیں۔ کوئی ہم سے سوال کرے گا جب ہمیں معلومات ہوگی تو ہم اُس انسان کو تسلی بخش جواب دے سکیں گے اور اگر وہ غلط ہوگا تو ہم اُس کی اصلاح بھی کرسکیں گے۔

معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہم لوگ ایک درست لیڈکو حکومت میں لاسکتے ہیں، اگرکوشش ایمانداری سے کی جائے تو۔ موجودہ سیاسی صورت حال پر بات چیت کی جائے، لیکن شدت پسندی سے دور رہ کر اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے،کیونکہ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو سمجھانے والا سمجھتا ہے کہ میں درست ہوں لیکن کچھ وقت کہ بعد اُس کوکسی نہ کسی ذریعے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ میں غلطی پر تھا۔ ہمارے ملک میں اِس وقت ایک سیاسی انتشار پیدا ہوچکا ہے، جسے سلجھانے میں ہرکسی کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تنقید کی جائے لیکن مثبت انداز میں جس سے بدمزگی انتہا پسندی اور انتشار پیدا نہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں