کراچی کے دکھ
یہ خبر چونکا دینے والی تھی جس میں ایک بڑے ادارے نے ایک عام شہری کو چونا لگا دیا تھا
خبر آئی کہ کراچی میں نجانے کتنے ایکڑکی زمین کے ملکیت کے تنازع کی درخواست کو مسترد کردیاگیا۔ دراصل کسی کی زمین پر سیلاب کے ستائے لوگوں نے قیام کیا اور ایسا کیا کہ پھر وہیں بس گئے اور اپنے آبائی علاقوں سے منہ ہی موڑ لیا،اب کون مالک کیسا مالک کہ مالک تو اوپر والا ہے کہ جس نے اس زمین کو انسانوں کے لیے کارآمد بنایا جس پر وہ بڑا اکڑ کر چلتا پھرتا ہے۔ کھاتا پیتا ہے، شان دکھاتا ہے۔
ایک صحت مند آدمی کی اوسط عمر پاکستان میں چونسٹھ ، پینسٹھ برس ہے اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پیدائش سے لے کر بیس بائیس برس تو رہنے ہی دیں، اس کے بعد چالیس بیالیس برس تک کی موجیں ہیں۔ ان میں بڑھاپے کی آخری عمرکی شدت الگ ہے، گویا پچیس چھبیس برس ہی انسان کھل کر زندگی کے مزے اڑا سکتا ہے، لوٹ سکتا ہے،کرپشن کرسکتا ہے، ظلم کرسکتا ہے اور پھراس کے آگے۔یہ کسی خوفناک کہانی کی ابتدا نہیں ہے بلکہ زندگی کا ایک سادہ سا اصول ہے کہ کوئی بھی شخص کسی کا حق غصب کر کے آخر کتنے برس عیاشی سے جی سکتا ہے۔
ان چند برسوں کے لیے انسان کس قدر تگ و دو کرتا ہے، پلاننگ کرتا ہے، سازشیں بنتا ہے اور آخر میں کیا ملتا ہے۔کورٹ کے فیصلوں سے آگے بھی جوکورٹ ہم سب کی منتظر ہے، اس میں کوئی بھی ہمیں بچا نہیں سکتا۔ ہم ایک ذرے کو بھی چھپا نہیں سکتے پھر آخر کس کے لیے کانٹوں سے اپنے اعمال نامے بھرتے ہیں۔
یہ خبر چونکا دینے والی تھی جس میں ایک بڑے ادارے نے ایک عام شہری کو چونا لگا دیا تھا۔ اب کون کس کا گریبان پکڑتا ہے؟ یہ کہانی تو بڑے لوگوں کی ہے لیکن خود حکومت کی زمین پرکون کون قابض ہے اورکیا کیا ارادے لے کر بیٹھے ہیں۔ یہ بات کسی اندرون سندھ کے غیر آباد دیہات کی نہیں ہورہی بلکہ کراچی شہرکے مرکزکی اربوں کی زمین کی ہو رہی ہے جس پر نہ صرف دوسرے علاقوں سے بلکہ دوسرے ملکوں سے آئے لوگ بھی قبضہ جماکر بیٹھے ہیں۔
تیرہ مارچ 1843ء کے ایک گزٹ نوٹیفیکیشن کے ذریعے میجر جنرل چارلس نیپیئرکو سندھ کا گورنر مقررکیا گیا تھا۔ اس گزٹ کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ کے قوانین بھی سندھ میں نافذ کیے گئے تھے اور یہ باقاعدہ برطانیہ کی کالونی بن گیا تھا۔ اس زمانے میں کراچی میں دو مقامات ہی قابل ذکر تھے یعنی کھارا در اور میٹھا در اور ان کے درمیان قلعہ جس میں 1813ء کی مردم شماری کے مطابق تین ہزار دو سو پچاس مکانات تھے۔ یہ قلعہ 1729ء میں مہاجر بھوجومل نے تعمیرکرایا تھا۔ یہ تھا قدیم کراچی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور انگریزوں کی نئی تعمیرات کے باعث نظر اندازکیا گیا۔ ماہی گیری کے حوالے سے یہ علاقہ اہم تھا اور اس کا یہ حوالہ ہی اس کے لیے کافی تھا، ورنہ یہاں دور دور دھول اڑتی نظر آتی تھی۔1843ء میں ہی جدید کراچی کی بنیاد رکھی گئی، کیونکہ اسے دارالحکومت کے لیے منتخب کرلیا گیا تھا۔
پاکستان کا حب کراچی جس کو اگر ملک کی ریڑھ کی ہڈی کہا جائے تو مناسب ہوگا لیکن کیا ہم اس قبضہ مافیا کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں جو پراسرار انداز میں یہاں کی زمینوں پر آکاس بیل کی مانند پھیلتے جا رہے ہیں۔ ریلوے کی زمینوں سے لے کر مختلف نجی سوسائٹیوں کی قیمتی اراضی پرکون قابض ہیں۔ ہم سب جانتے ہوئے بھی کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔
''2005 کے سیلاب'' سے سندھ میں مسائل پیدا ہوئے تھے، وہاں سے بہت سے لوگ اس جگہ آکر بیٹھ گئے، شروع شروع میں حالات ایسے تھے کہ توجہ نہیں دی گئی لیکن اب وہاں جاکر دیکھیں تو لوگوں نے پکے گھر بنا رکھے ہیں۔ وہاں اندرون سندھ سے آئے ہوئے لوگ ہی نہیں بلکہ دوسرے ملک سے آئے لوگ بھی رہ رہے ہیں۔ اسکیم 33 کراچی کی سب سے بڑی رہائشی اسکیم ہے لیکن اس کے زیادہ تر رقبے پر قبضہ مافیا ہے۔ لوگ گھر بنارہے ہیں۔ بیچ رہے ہیں وہیں کچھ جرائم پیشہ اور دوسری طرح کے لوگ آباد ہیں۔ یہ ایک بڑی سوسائٹی ہے لیکن جب پوسٹ آفس والوں کو ہی اپنی سوسائٹی کی فکر نہیں تو کوئی دوسرا کیا کرے گا۔ ان کے اندرونی الیکشن سوسائٹی اور خدا جانے کیا کیا چکر چل رہے ہیں پھر سنجیدگی سے کوئی کام ان مظلوم لوگوں کے لیے کوئی نہیں کررہا جنہوں نے اپنی جمع پونجی اس پلاٹ کو خریدنے میں لگا دی۔ اب وہاں جاکر دیکھیں،کون آباد ہیں اورکیا ان کے پاس کسی قسم کی کوئی دستاویز ہے کہ جس سے وہ اپنی ملکیت ظاہر کرسکیں۔
''کیا ایسا صرف اسی علاقے میں ہے؟''
''ارے بھائی آپ کورنگی کی زمین کا قبضہ تو سن ہی چکے ہیں اور حکومت کی اپنی زمین بھی ہے لیکن کوئی نہیں پوچھتا۔''
انگریزوں نے کراچی میں بہت سی تعمیرات کیں۔ ان کے قائم کردہ نظام میں شہرکے صفائی ستھرائی کے معاملات کو دیکھنے اور سنبھالنے کے لیے مونسپل کمیشن قائم کیاگیا۔ لوگوں کے علاج معالجے کے لیے یوں تو ڈسپنسریاں قائم کی گئی تھیں، لیکن سب سے پہلے سول اسپتال کی بنیاد رکھی گئی۔ دراصل یہ اسپتال پہلے فوجیوں کے علاج کی غرض سے بنایاگیا تھا۔ اس پہلے باقاعدہ اسپتال کے بعد سلسلہ چلتا رہا۔ گزری سنیٹوریم، لیڈی ڈیفرن، سوبھراج اسپتال اسی دورکی یادگار ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے کراچی تنگ گلیوں کا ، مٹی کے کچے پکے مکانوں سے لپا پتا مچھلی اور چمڑے کے کاروبارکرنے والوں کا محدود علاقہ تھا جہاں مردہ جانورگلیوں، سڑکوں پر پڑے رہتے تھے اور انہیں تلف کرنے والا کوئی نہ ہوتا تھا۔
1947ء تک یہاں چوڑی پکی سڑکیں نظر آتی تھیں جو صبح سویرے پانی سے دھلا بھی کرتی تھیں۔ سڑکوں کے کنارے اچھے صاف ستھرے پتھر سے بنے گھر بھی بن گئے تھے۔ آج بھی بہت سی عمارتیں اور اسی دورکی یادگار ہیں جن کے ماتھے پر ان کے قیام کا سال ہمیں بتاتا ہے کہ ماضی میں تعمیرات کا معیارکس قدر بلند تھا۔ اصولوں اور قوانین سے کوئی سودے بازی نہ ہوتی تھی۔ سڑکوں کی چوڑائی، سیوریج کا نظام، بازاروں اور اسپتال،کالج اور اسکول، باغات سب ایک ترتیب سے چل رہے تھے۔ نہ کسی ندی پر قبضہ ہوتا تھا نہ کوئی اپنا آبائی گھر چھوڑ کر کسی کی قیمتی زمین کو ہتھا لیتا تھا۔
کہتے ہیں انگریز نے ہم کو رشوت ستانی کے گر سکھائے پر ہمیں تو لگتا ہے کہ ہم نے اس معرکے میں اپنے استادوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، دراصل استاد اپنے لوگوں یعنی گوروں کی تو قدرکرتے تھے پر ہم کالے گندمی رنگت والے کسی کی توکیا اپنی بھی قدر نہیں کرتے اور جو اپنی قدر ہی کھودے اس کا دنیامیں کیا آخرت میں بھی کیا مقام ہوگا؟ سب جانتے تو ہیں پر مانتے نہیں، دعا ہے کہ مان بھی جائیں۔
ایک صحت مند آدمی کی اوسط عمر پاکستان میں چونسٹھ ، پینسٹھ برس ہے اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پیدائش سے لے کر بیس بائیس برس تو رہنے ہی دیں، اس کے بعد چالیس بیالیس برس تک کی موجیں ہیں۔ ان میں بڑھاپے کی آخری عمرکی شدت الگ ہے، گویا پچیس چھبیس برس ہی انسان کھل کر زندگی کے مزے اڑا سکتا ہے، لوٹ سکتا ہے،کرپشن کرسکتا ہے، ظلم کرسکتا ہے اور پھراس کے آگے۔یہ کسی خوفناک کہانی کی ابتدا نہیں ہے بلکہ زندگی کا ایک سادہ سا اصول ہے کہ کوئی بھی شخص کسی کا حق غصب کر کے آخر کتنے برس عیاشی سے جی سکتا ہے۔
ان چند برسوں کے لیے انسان کس قدر تگ و دو کرتا ہے، پلاننگ کرتا ہے، سازشیں بنتا ہے اور آخر میں کیا ملتا ہے۔کورٹ کے فیصلوں سے آگے بھی جوکورٹ ہم سب کی منتظر ہے، اس میں کوئی بھی ہمیں بچا نہیں سکتا۔ ہم ایک ذرے کو بھی چھپا نہیں سکتے پھر آخر کس کے لیے کانٹوں سے اپنے اعمال نامے بھرتے ہیں۔
یہ خبر چونکا دینے والی تھی جس میں ایک بڑے ادارے نے ایک عام شہری کو چونا لگا دیا تھا۔ اب کون کس کا گریبان پکڑتا ہے؟ یہ کہانی تو بڑے لوگوں کی ہے لیکن خود حکومت کی زمین پرکون کون قابض ہے اورکیا کیا ارادے لے کر بیٹھے ہیں۔ یہ بات کسی اندرون سندھ کے غیر آباد دیہات کی نہیں ہورہی بلکہ کراچی شہرکے مرکزکی اربوں کی زمین کی ہو رہی ہے جس پر نہ صرف دوسرے علاقوں سے بلکہ دوسرے ملکوں سے آئے لوگ بھی قبضہ جماکر بیٹھے ہیں۔
تیرہ مارچ 1843ء کے ایک گزٹ نوٹیفیکیشن کے ذریعے میجر جنرل چارلس نیپیئرکو سندھ کا گورنر مقررکیا گیا تھا۔ اس گزٹ کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ کے قوانین بھی سندھ میں نافذ کیے گئے تھے اور یہ باقاعدہ برطانیہ کی کالونی بن گیا تھا۔ اس زمانے میں کراچی میں دو مقامات ہی قابل ذکر تھے یعنی کھارا در اور میٹھا در اور ان کے درمیان قلعہ جس میں 1813ء کی مردم شماری کے مطابق تین ہزار دو سو پچاس مکانات تھے۔ یہ قلعہ 1729ء میں مہاجر بھوجومل نے تعمیرکرایا تھا۔ یہ تھا قدیم کراچی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور انگریزوں کی نئی تعمیرات کے باعث نظر اندازکیا گیا۔ ماہی گیری کے حوالے سے یہ علاقہ اہم تھا اور اس کا یہ حوالہ ہی اس کے لیے کافی تھا، ورنہ یہاں دور دور دھول اڑتی نظر آتی تھی۔1843ء میں ہی جدید کراچی کی بنیاد رکھی گئی، کیونکہ اسے دارالحکومت کے لیے منتخب کرلیا گیا تھا۔
پاکستان کا حب کراچی جس کو اگر ملک کی ریڑھ کی ہڈی کہا جائے تو مناسب ہوگا لیکن کیا ہم اس قبضہ مافیا کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں جو پراسرار انداز میں یہاں کی زمینوں پر آکاس بیل کی مانند پھیلتے جا رہے ہیں۔ ریلوے کی زمینوں سے لے کر مختلف نجی سوسائٹیوں کی قیمتی اراضی پرکون قابض ہیں۔ ہم سب جانتے ہوئے بھی کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔
''2005 کے سیلاب'' سے سندھ میں مسائل پیدا ہوئے تھے، وہاں سے بہت سے لوگ اس جگہ آکر بیٹھ گئے، شروع شروع میں حالات ایسے تھے کہ توجہ نہیں دی گئی لیکن اب وہاں جاکر دیکھیں تو لوگوں نے پکے گھر بنا رکھے ہیں۔ وہاں اندرون سندھ سے آئے ہوئے لوگ ہی نہیں بلکہ دوسرے ملک سے آئے لوگ بھی رہ رہے ہیں۔ اسکیم 33 کراچی کی سب سے بڑی رہائشی اسکیم ہے لیکن اس کے زیادہ تر رقبے پر قبضہ مافیا ہے۔ لوگ گھر بنارہے ہیں۔ بیچ رہے ہیں وہیں کچھ جرائم پیشہ اور دوسری طرح کے لوگ آباد ہیں۔ یہ ایک بڑی سوسائٹی ہے لیکن جب پوسٹ آفس والوں کو ہی اپنی سوسائٹی کی فکر نہیں تو کوئی دوسرا کیا کرے گا۔ ان کے اندرونی الیکشن سوسائٹی اور خدا جانے کیا کیا چکر چل رہے ہیں پھر سنجیدگی سے کوئی کام ان مظلوم لوگوں کے لیے کوئی نہیں کررہا جنہوں نے اپنی جمع پونجی اس پلاٹ کو خریدنے میں لگا دی۔ اب وہاں جاکر دیکھیں،کون آباد ہیں اورکیا ان کے پاس کسی قسم کی کوئی دستاویز ہے کہ جس سے وہ اپنی ملکیت ظاہر کرسکیں۔
''کیا ایسا صرف اسی علاقے میں ہے؟''
''ارے بھائی آپ کورنگی کی زمین کا قبضہ تو سن ہی چکے ہیں اور حکومت کی اپنی زمین بھی ہے لیکن کوئی نہیں پوچھتا۔''
انگریزوں نے کراچی میں بہت سی تعمیرات کیں۔ ان کے قائم کردہ نظام میں شہرکے صفائی ستھرائی کے معاملات کو دیکھنے اور سنبھالنے کے لیے مونسپل کمیشن قائم کیاگیا۔ لوگوں کے علاج معالجے کے لیے یوں تو ڈسپنسریاں قائم کی گئی تھیں، لیکن سب سے پہلے سول اسپتال کی بنیاد رکھی گئی۔ دراصل یہ اسپتال پہلے فوجیوں کے علاج کی غرض سے بنایاگیا تھا۔ اس پہلے باقاعدہ اسپتال کے بعد سلسلہ چلتا رہا۔ گزری سنیٹوریم، لیڈی ڈیفرن، سوبھراج اسپتال اسی دورکی یادگار ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے کراچی تنگ گلیوں کا ، مٹی کے کچے پکے مکانوں سے لپا پتا مچھلی اور چمڑے کے کاروبارکرنے والوں کا محدود علاقہ تھا جہاں مردہ جانورگلیوں، سڑکوں پر پڑے رہتے تھے اور انہیں تلف کرنے والا کوئی نہ ہوتا تھا۔
1947ء تک یہاں چوڑی پکی سڑکیں نظر آتی تھیں جو صبح سویرے پانی سے دھلا بھی کرتی تھیں۔ سڑکوں کے کنارے اچھے صاف ستھرے پتھر سے بنے گھر بھی بن گئے تھے۔ آج بھی بہت سی عمارتیں اور اسی دورکی یادگار ہیں جن کے ماتھے پر ان کے قیام کا سال ہمیں بتاتا ہے کہ ماضی میں تعمیرات کا معیارکس قدر بلند تھا۔ اصولوں اور قوانین سے کوئی سودے بازی نہ ہوتی تھی۔ سڑکوں کی چوڑائی، سیوریج کا نظام، بازاروں اور اسپتال،کالج اور اسکول، باغات سب ایک ترتیب سے چل رہے تھے۔ نہ کسی ندی پر قبضہ ہوتا تھا نہ کوئی اپنا آبائی گھر چھوڑ کر کسی کی قیمتی زمین کو ہتھا لیتا تھا۔
کہتے ہیں انگریز نے ہم کو رشوت ستانی کے گر سکھائے پر ہمیں تو لگتا ہے کہ ہم نے اس معرکے میں اپنے استادوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، دراصل استاد اپنے لوگوں یعنی گوروں کی تو قدرکرتے تھے پر ہم کالے گندمی رنگت والے کسی کی توکیا اپنی بھی قدر نہیں کرتے اور جو اپنی قدر ہی کھودے اس کا دنیامیں کیا آخرت میں بھی کیا مقام ہوگا؟ سب جانتے تو ہیں پر مانتے نہیں، دعا ہے کہ مان بھی جائیں۔