درد کا سفر امجد صدیقی

کم عمری سے انھیں اخباروں میں رپورٹنگ اور مختصرکالم نویسی کا موقعہ ملا تھا

zahedahina@gmail.com

کبھی کبھی بچپن میں سنی ہوئی کہانیاں آپ کا تعاقب کرتی ہیں۔ میں بھی بچپن میں سنی اور پڑھی ہوئی پرومی تھیس کی کہانی کو یاد کرتی ہوں۔ یونانی اساطیرکا ایک کردار جس نے انسانوں کے لیے کیا نہیں کیا اور جس کی اس نے ہزاروں سال کی بھیانک سزا برداشت کی۔

وہ رب الارباب زیوس کا بیٹا تھا، انسانوں سے ہمدردی رکھتا تھا، وہ دیکھتا تھا کہ انسان کس قدر لاچار اور بے بس ہے۔ پروتھیس کو آگ چرانے والا اور انسانوں کو یہ آگ دینے والا کہا جاتا ہے۔ اس نے انسانوں کو کھانا پکانا سکھایا اور اسی نے انسانوں کو جڑی بوٹیوں سے دوائیں اور مرہم بنانا سکھایا۔ اس کے بارے میں مشہور انگریزی شاعر شیلے اورگوئٹے نے انیسویں صدی کی بے مثال شاعری کی ہے۔

پرومی تھیس نے کرب و بلا کی جو اذیتیں سہیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ ایک نہایت طاقتور انسان یا نیم دیوتا پرومی تھیس کو دو چوٹیوں کے درمیان باندھ دیا جاتا ہے۔ زیوس کے حکم سے ایک گدھ روزانہ اس کا کلیجہ نوچتا اور کھاتا ہے۔ رات ہوتی ہے تو شبنم اس کے زخموں پرگرتی ہے اور اس کے زخم مندمل کردیتی ہے۔ درد و دہشت کا ایک نیا سلسلہ جو دوسرا دن نکلنے پر پھر شروع ہو جائے گا۔

انگریزی اور جرمن ادب میں دونوں نظمیں شاہکار سمجھی جاتی ہیں۔ کسی کو ان کی چند سطروں کو پڑھنا ہو تو سید سبط حسن کی '' نویدِ فکر'' پڑھیے جو انھوں نے ''پہلا باغی'' کے عنوان سے لکھی ہے اور جو کوہ قاف پر بندھے ہوئے اور رب الارباب زیوس کے حکم سے پرومی تھیس کا کلیجہ نوچنے والے گدھ کے بارے میں ہے۔ سبط حسن صاحب نے شیلے اور گوئٹے کی نظموں کے اعلیٰ ترجمے بھی کیے ہیں۔

''آمدم برسرِ مطلب'' امجد صدیقی کی خود نوشت پڑھتے ہوئے مجھے پرومی تھیس یاد آیا۔ وہ تقدیرکا مارا نہیں تھا، اس نے کمزور اور مجبور انسانوں کو جینے کی ہمت بخشی تھی، انھیں آگ کا تحفہ دیا تھا، امجد صدیقی نے تقدیر کا تیر سہا۔ عام انسان تقدیرکا ایک تیر نہیں برداشت کر پاتے، امجد صدیقی ایک پڑھا لکھا اور جوش و جذبے سے بھرپور نوجوان، روشن مستقبل اس کے سامنے پھیلا ہوا ہے،کار چلا رہا ہے کہ ایک کار حادثے میں وہ زخمی ہوتا ہے، بے ہوش ہو جاتا ہے، اسپتال میں آنکھ کھلتی ہے۔

ماہر ڈاکٹر اسے بتاتے ہیں کہ وہ عمر بھرکے لیے مفلوج ہو چکا ہے۔ سینے سے نیچے تک کا اس کا جسم مردہ ہے، وہ کھڑا نہیں ہو سکتا، پیروں کو جنبش نہیں دے سکتا، غرض یہ کہ وہ ایک زندہ لاش ہے جو اپنے بسترکا قیدی ہے اور بس۔


اس کے سنہرے خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں لیکن وہ اپنے بارے میں تمام سچ جاننے کے باوجود اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں سمیٹ کر انھیں پھر سے جوڑنے بیٹھ جاتے ہیں، اس میں جہاںان کی قوت ارادی کا کمال ہے، وہیں ان کے معالجین کا بھی جو امریکی ہیں۔ وہ اپنے فزیو تھراپسٹ کی زیر نگرانی اتنی جانفشانی سے ایکسرسائز کرتے ہیں کہ ان کے دونوں بازو جو اس حادثے میں سلامت رہے تھے وہ ان کا سرمایہ بن جاتے ہیں اور ان کے سہارے وہ بہت سے کام کرلیتے ہیں، وہ ایک پڑھے لکھے گھرانے کے فرد تھے۔

کم عمری سے انھیں اخباروں میں رپورٹنگ اور مختصرکالم نویسی کا موقعہ ملا تھا۔ انھیں لندن جانے کا شوق تھا اس لیے انھوں نے شروع سے اپنی انگریزی سنوارنے پر توجہ دی۔ انگریزی ٹائپنگ انھیں آتی تھی، اسی کی وجہ سے سعودی بینک میں کام کر رہے تھے اور ان کے عزائم بہت بہت بلند تھے۔ قریبی لوگ ان پر رشک کرتے تھے اور بقول ان کے شاید مجھے کچھ لوگوں کی نظر بھی لگ گئی۔ جو سمجھتے کہ جہاں اس حادثے اور معذوری کی وجہ سے میں نے اپنے بہت سے قریبی دوست اور خون کے رشتے کھو دیے، وہیں میں نے نئے دوست اور رشتے قائم کیے۔

انھوں نے ایک بزرگ خاتون کو اپنی ماں بنایا جنھیں وہ ماما ورنا کہتے ہیں۔ ماما ورنا اور ان کے پورے خاندان نے امجد صدیقی کو اپنے شہر بلایا اور انھیں ایک شان دار دعوت دی۔ اس وقت تک امجد شادی کر چکے تھے اور ان کی بیوی واقعی ان کی شریک حیات ثابت ہوئی تھی۔ ان کے رشتہ داروں نے انھیں پیروں، فقیروں اور عاملوں کے سپرد کرنا چاہا لیکن وہ بڑی مشکل سے بچ نکلے۔

امجد صدیقی کی سرگزشت پڑھیے تو اس میں جہاں درد کے بھنور ہیں، وہیں دلچسپ واقعات بھی ہیں جو ہمیں سننے پر اور ہمارے یہاں کے لوگوں کی کم عقلی پر رونے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔

وہ اپنی والدہ کے شدید مجبورکرنے پرکچھ دنوں کے لیے پاکستان آتے ہیں لیکن یہاں انھیں اندازہ ہوا کہ وہ پیروں، فقیروں اور عاملوں کے چنگل میں پھنسے رہیں گے چنانچہ اپنے آہنی عزم و ارادے کے ساتھ واپس سعودی عرب چلے گئے جہاں انھیں صلاحیت کی بنا پر دوبارہ ملازمت مل گئی۔ اپنی وہیل چیئر پر دنیا کے متعدد ملکوں کے سفر کیے اور وہاں سے بے حد داد اور عزت سمیٹی۔

اب ان کے دو بیٹے جوان ہو رہے تھے چنانچہ انھوں نے وطن واپس جانے کا فیصلہ کیا اور اب وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان میں ہیں اور کاروبارکی نئی بساط بچھا رہے ہیں۔
Load Next Story