رحمن ملک ایک اور ’’کڑکی‘‘ میں

رحمن ملک ایک آزمائش سے تو نکل آئے تھے، اب دوسری ان کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی ہے۔

رحمن ملک ایک آزمائش سے تو نکل آئے تھے، اب دوسری ان کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی ہے۔

رحمن ملک ایک آزمائش سے تو نکل آئے تھے، اب دوسری ان کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ نے انھیں دہری شہریت پر نااہل قرار دے دیا تھا جس کے بعد وہ وزارت داخلہ سے مستعفی ہو گئے اور وزیر کے بجائے مشیر بن گئے۔ پھر برطانوی شہریت ختم کرنے کا سرٹیفکیٹ داخل کرنے کے بعد وہ دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئے۔

اس وقت تک وزیر اعظم نے انہیں مشیر داخلہ بنائے رکھا۔ ان کے عہدے کا صرف نام تبدیل ہوا لیکن عملاً وہ وزیر داخلہ ہی تھے۔ سینیٹر منتخب ہونے کے بعد وہ دوبارہ وفاقی وزیر داخلہ بن گئے۔

اب سپریم کورٹ نے گیارہ ارکان اسمبلی کو دہری شہریت پر ناہل قرار دینے کا فیصلہ سناتے ہوئے رحمن ملک کو نااہل تو قرار نہیں دیا لیکن نااہلی کا ''اہل'' ضرور قرار دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ رحمن ملک نے 2008ء میں جھوٹا بیان حلفی داخل کرایا، اس لیے وہ صادق اور امین نہیں رہے، ان کے خلاف ریفرنس چیئرمین سینٹ کو بھجوایا جائے۔

چیئرمین سینیٹ کو سپریم کورٹ کی ہدایت پرعمل کرنا ہو گا یا پھر اسے یہ ہدایت قبول نہ کرنے کی وجوہ بتانا ہوں گی۔ دوسری صورت میں معاملہ پھر عدالت کے سامنے آئے گا اور صاف نظر آ رہاہے، نتیجہ ایک بار پھر کیا ہو گا؟ صادق یا امین قرار نہ پانے کے نتیجے میں ان کے خلاف جو کارروائی ہو گی اس کے نتیجے میں وہ اگلے الیکشن کیلئے بھی نااہل ہو جائیں گے۔

خیر اگر اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے فتح حاصل کر لی تو رحمن ملک کے لئے کوئی نہ کوئی عہدہ نکال ہی لیا جائے گا اور اگر ہار گئی تب بھی نااہلی کا کچھ زیادہ نقصان نہیں ہو گا، اس لیے کہ پیپلز پارٹی میں رحمن ملک کی پہچان وزیر یا مشیر داخلہ سے بڑھ کر ہے، انہیں وزارتی منصب ملے نہ ملے یا سینیٹ کے رکن رہیں نہ رہیں، کسی ایک یا دوسری شکل میں سیاست میں اپنی اہمیت سے محروم نہیں ہوں گے۔

رحمن ملک انوکھی قسمت لے کر آئے ہیں۔ وہ ایسے وزیر ہیں جنھیں بدترین بدامنی اور دہشت گردی کی فضا ورثے میں ملی۔ بدامنی اور دہشت گردی کے ماحول کا زیادہ تر تعلق سیکیورٹی فیصلوں سے ہے جو حکومت نہیں کرتی' کہیں اور ہوتے ہیں لیکن رحمن ملک بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور بدامنی کو روکنے کیلئے دن رات سرگرم عمل رہے۔

وہ دہشت گردی کی ہر واردات کی تحقیقات کیلیے موقع پر پہنچے، لال مسجد آپریشن رحمن ملک نے نہیں کیا لیکن ہر بار کسی ''کریڈٹ'' کے بجائے طعنہ زنی اور غصے کا ٹارگٹ وہی بنے جس کی کئی مثالیں ہیں۔


سوات آپریشن میں ان کا کوئی ہاتھ تھا اور نہ ہی وزیرستان اور بلوچستان آپریشن ان سے پوچھ کر کیے گئے لیکن ایسے ہر آپریشن کے نتیجے میں نئے دہشت گرد پیدا ہوئے جنھوں نے ملک بھر میں وارداتیں کیں اور اپوزیشن کو یہ کہنے کا موقع ملتا رہا کہ رحمن ملک بدامنی روکنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ بطور وزیر داخلہ کراچی ان کی ذمے داری ہے لیکن کراچی میں بدامنی' بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا تعلق اور پس منظر ایسا پیچیدہ ہے کہ کوئی جادو گر بھی ہوتا تو کچھ نہ کر پاتا۔

سیاسی مجبوریوں یا سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے ایک حکومتی اتحاد بنا جو مشترکہ اجلاسوں میں تو ''اتحاد'' ہی ہوتا ہے لیکن مشترکہ اجلاس سے باہر گریبان چاک کی کہانیاں بن جاتا ہے۔ رحمن ملک کی شامت اعمال دیکھیے کہ وہ ایک فریق کو مناتے تو دوسرا ناراض ہو جاتا، دوسرے کو مناتے تو تیسرا ناراض ہو جاتا۔

خلاصہ اس کارگزاری کا یہ ہے کہ سر ڈھانپو تو پائوں ننگے اور پائوں ڈھانپو تو سر سے کمبل کھسک جاتا ہے۔ صلح کیلیے کبھی ایک تو کبھی دوسرے فریق کو منانے کی بھاگ دوڑ میں کئی مرحلے ایسے بھی آئے کہ خود پیپلز پارٹی کے بعض ارکان رحمن ملک کے خلاف ہو گئے۔ ان میں سے ایک ذوالفقار مرزا تو انتہائی حد تک چلے گئے اور رحمن ملک پر وہ الزامات لگا دیے جو اپوزیشن بھی نہیں لگا سکی تھی۔

بہر حال ذوالفقار مرزا اپنا اعلان جنگ واپس لے چکے ہیں اور اب ان کی طرف سے رحمن ملک کیلیے امن ہی امن ہے۔ بہرحال کراچی کا میدان کار زار اب بھی رحمن ملک کیلیے آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ ان کی بے بسی یہ ہے کہ وہ کھل کر بتا بھی نہیں سکتے کہ کراچی کے کھیل میں کون بائولنگ کر رہا ہے اور کون بیٹنگ۔ اس خونی کھیل کا زیادہ تر بوجھ رحمن ملک ہی اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔

اسے قسمت کا ستم ہی کہا جا سکتا ہے کہ ملک صاحب نے جو بھی دستاویزات اور بیان حلفی داخل کرائے' عدالت نے انھیں ماننے سے انکار کر دیا۔ ممکن ہے ان کے بیانات حلفی واقعی غلط ہوں اور یہ امکان بھی ہے کہ عدالت کو غلط نظر آئے ہوں۔ عدالت بھی انسانوں پر مشتمل ہے اور انسانی نظر کبھی دھوکہ بھی کھا جاتی ہے۔

رحمن ملک جس ''کڑکی'' میں ہیں، کڑکی کاروں کا کنٹرول بظاہر مضبوط نظر آتا ہے۔ ان کا معاملہ وزیر اعظم سے مختلف ہے۔ وزیراعظم کے معاملے میں کسی فیصلے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔

یہی وجہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو تین سال سے زائد کی مہلت مل گئی اور اب لگتا ہے کہ راجہ پرویز اشرف کا معاملہ بھی اسی طرح چلتا رہے گا لیکن رحمن ملک آسان ہدف ہیں۔ کوئی بھی فیصلہ ہو' ایسا ویسا ہونے کا اندیشہ کم ہی ہے۔ بہرحال جہاں تک میرا تعلق ہے، میں عدالت سے ڈرتا ہوں اور رحمن ملک کا بھی خیر خواہ ہوں جنھوں نے اپنی وزارت سے متعلق معاملات سلجھانے کیلیے دن رات ایک کیے۔

ایک دو بار تو میں نے انھیں اس حالت میں بھی دیکھا کہ ابھی میز پر ناشتہ رکھا ہی گیا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور وہ چپاتی پر آملیٹ کا ایک ٹکڑا رکھ کر اپنی گاڑی کی طرف باہر بھاگ اٹھے۔ ملک صاحب کو ہر بحران کا سامنا کرنے کیلیے سب سے آگے کھڑے ہونا پڑتا تھا۔ ہمارے مسائل اتنے گمبھیر ہو چکے ہیں کہ حل ہی نہیں ہو سکتے۔

صرف جدوجہد کی جا سکتی ہے۔ بہت زیادہ اور مسلسل جدوجہد ہمیشہ سیاسی ''کریڈٹ'' کے بجائے ''ڈس کریڈٹ'' بن جاتی ہے۔ رحمن ملک حکومت میں آتے ہی ڈس کریڈٹ کی ''کڑکی'' میں پھنس گئے۔ بچ نکلنے کے بہت جتن کیے لیکن ''معافی'' نہیں ملی۔
Load Next Story