سیاسی بدزبانی اور سوشل میڈیا مہم
کے پی کے وزیر اعلیٰ اورگورنر ایک دوسرے پر تنقید کا کوئی موقعہ جانے نہیں دیتے
خیبر پختون خوا حکومت کے ایک مشیر صاحب نے اپنے صوبے کے گورنر کے بارے میں فرمایا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے پی ان کے اعصاب پر سوار ہیں۔ موصوف یہی نہیں رکے بلکہ گورنر کو نفسیاتی مریض اور غدار تک کا ٹائٹل مرحمت فرمایا۔ گورنر کو طعنہ دیا کہ دہشت گردی، بجلی بحران اور بنوں و ضلع کرم سانحات پر منفی بیان بازی کے سوا گورنر نے اور کیا ہی کیا ہے۔آخر میں یہ نصیحت فرمائی کہ گورنر خیبر پختونخوا اپنی کارکردگی دکھائیں۔
گورنر خیبر پختونخوا نے گزشتہ دنوں ایک تقریب میں پی ٹی آئی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ پی ٹی آئی دس سال سے اقتدار میں ہے، اس کے باوجود خزانہ خالی ہونے کی رٹ لگا رکھی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پی بھی گورنر کے بارے میں ایسے ایسے بیانات دے چکے کہ جن کی مثال کسی اور صوبے میں نہیں ملتی اور نہ کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ نے اپنے صوبائی گورنر کے خلاف ایسی سخت زبان کبھی استعمال کی حالانکہ مختلف وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ایک دوسرے کی شدید مخالف سیاسی پارٹیوں کے گورنر اور وزیر اعلیٰ رہے ہیں مگر وہاں کبھی ایسے سیاسی اور سخت مخالفانہ بیانات کی نوبت کبھی نہیں آئی۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ماضی میں ایک دوسرے کی شدید مخالف رہی ہیں اور اس وقت کی وفاقی حکومتوں نے اپنے ایسے گورنر ان صوبوں میں مقررکیے جہاں ان کی مخالف سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں تھیں، انھوں نے وہاں کی حکمران پارٹی کے سخت مخالفین کو گورنر مقرر کیا تھا مگر وہاں بھی یہ نوبت نہیں آئی کہ غدار جیسے غیرسیاسی الزامات لگائیں مگر یہ مثال بھی پی ٹی آئی کی صوبے میں تیسری مسلسل حکومت نے قائم کر دی ہے۔
کے پی کے وزیر اعلیٰ اورگورنر ایک دوسرے پر تنقید کا کوئی موقعہ جانے نہیں دیتے۔ گورنر کے پی نے اپنی طرف سے محاذ آرائی نہ کرنے اور کے پی حکومت کے ساتھ اپنے آئینی کردار کے مطابق چلنے اور تعاون کا اعلان کیا تھا مگر وزیر اعلیٰ نے ''بڑے پن '' کا مظاہرہ کرتے ہوئے گورنر کے ساتھ آئین کے مطابق چلنے کا اعلان تک نہیں کیا تھا بلکہ انھیں دھمکیاں دی تھیں کہ ان کا پٹرول اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی بند کر دی جائے گی اورگورنر کے پی پر اسلام آباد میں کے پی ہاؤس میں داخلے پر پابندی لگائی تھی حالانکہ اسلام آباد میں ہر صوبے کے اپنے اپنے نام کے ہاؤسز ہیں جہاں ان کے گورنر کے لیے وی آئی پی سوئٹس بھی موجود ہیں۔
وزیر اعلیٰ کے پی اب گورنر کے خلاف سخت بیانات تو نہیں دے رہے لیکن انھوں نے یہ ڈیوٹی اپنے وزراء اور مشیران کی لگائی ہے ۔گورنر کے پی قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے ترجمان بھی رہے اور اب اپنے صوبے کے گورنر ہیں اور کے پی حکومت کے مستقل نشانے پر ہیں جو کسی بھی طرح مناسب نہیں۔آئین میں صوبائی حکومت اورگورنرکا آئینی کردار واضح طور پر درج ہے مگر اتنی محاذ آرائی کسی اور صوبے میں موجود نہیں جو کے پی میں چل رہی ہے۔
علی امین گنڈاپور ماضی میں بھی غیر اخلاقی تقاریرکرتے رہے ہیں اور اب یہ ذمے داری مشیر صاحبان ادا کر رہے ہیں جن کا تعلق کے پی سے ہے جہاں کے رواج کے مطابق خواتین کا بڑا احترام کیا جاتا ہے مگر یہ رواج پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار میں ختم کر دیا ہے جس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
ملکی سیاست میں گالم گلوچ، مخالفین کی ذاتی کردار کشی، جھوٹی الزام تراشی، عدم برداشت پی ٹی آئی نے شروع کی جو اس کے بانی چیئرمین نے عروج پر پہنچائی اور انھوں نے جیسی قابل اعتراض، ہتک آمیز اور اخلاق باختہ تقاریرکیں وہ اس سے قبل کسی قومی رہنما کے منہ سے عوام نے نہیں سنی تھیں، اسی لیے وہ بھی خوش ہوتے تھے۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں ایسی تقاریر پر تالیاں بجا کر اپنے چیئرمین کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی اور ایسی سیاست اب اس مقام پر پہنچا دی گئی ہے کہ اب ملک میں پی ٹی آئی مخالف کسی رہنما کی عزت محفوظ نہیں۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرولرزکے ہاتھوں اب پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین تو کیا اب ان سے اپنے خلاف فیصلے دینے والے ججز محفوظ ہیں نہ چیف جسٹس پاکستان و اسلام آباد اور نہ ہی عسکری ادارے۔ یہاں تک کہ ملک کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ تو ان کی خاص طور پر ٹارگٹ ہیں۔
پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اپنے مخالفین کی منفی سیاست کا جواب دینے کا حق ضرور رکھتا ہے مگر اس سمیت پی ٹی آئی کے حامی یا مخالف کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس حد تک آ جائیں اور اپنے رہنماؤں کی محبت میں مخالفین کی ذاتیات پر آجائیں۔