نواز شریف اور چوہدری نثار کی ملاقات

ملک کا وزیر اعظم وزیر داخلہ کی منتیں کر رہا ہے کہ وہ اپنی ذمے داریا ں دوبارہ سے سنبھال لیں۔

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

ہم جب بھی یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس ملک میں سب کچھ ہو چکا، عین اُس وقت کچھ نیا ہو جاتا ہے۔ انگلیاں پھر سے دانتوں میں دابنی پڑتی ہیں۔ دیدے حیرت سے پھٹنے لگتے ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ یہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا ملک جو بدترین علاقائی حالات میں گھرا ہوا ہے، جہاں حکومتی ادارے ناقص کارکردگی کی وجہ سے قوم کے عذابوں میں روزانہ نت نئے اضا فے کرتے ہیں۔

جہاں تقریباً دس کروڑ عوام غربت کی اس سطح پر ہیں جہاں نہ اُن کے سر پر چھت ہے اور نہ پیٹ میں دو وقت کی روٹی۔ جو حکومت کے اپنے بیان کے مطابق اپنی 'بقاء' کی جنگ لڑ رہا ہے۔ جس جیسے دوسرے ممالک چند ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہر روز دنیا کے نقشے سے غائب ہو رہے ہیں۔ جہاں پر بننے والی سب سے بڑی خبر کیا ہے؟ نواز شریف نے چوہدری نثار کو ''گلے لگا لیا'' ''باہمی گلے شکوے دور'' چوہدری نثار اور نواز شریف پھر سے ایک ہو گئے وغیرہ وغیرہ۔ اس سے زیادہ عجیب بات اور کیا ہو سکتی ہے۔

اس خبر کا متن شہ سرخی سے بھی کہیں زیادہ حیران کن معلومات سے بھرا ہوا ہے۔ ملک کا وزیر اعظم وزیر داخلہ کی منتیں کر رہا ہے کہ وہ اپنی ذمے داریا ں دوبارہ سے سنبھال لیں۔ یاد رہے کہ ذمے داریاں اپنے گھر کی صفائی ستھرائی یا بچوں کو گرمیوں کی چھٹیوں میں مصروف رکھنے کے لیے چڑیا گھر لے جانے کی نہیں۔ یہ پاکستان میں امن و امان برقرار رکھنے، دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے لائحہ عمل بنوانے، ہوائی اڈے، ریلو ے اسٹیشن اور اہم تنصیبات پر حفاظتی اقدامات کرنے، پاسپورٹ، ویزا، امیگریشن، منشیات وغیرہ کے معاملات نپٹانے، پولیس، ایف سی جیسی فورسز کے معاملات چلانے وغیرہ ہیں۔

وزرات داخلہ وہ ریڑھ کی ہڈی ہے جس میں ذرا سی لچک سارے نظام کو ٹیڑھا کر دیتی ہے۔ اس کا وزیر پچھلے کئی ہفتوں سے ناراض ہو کر گھر بیٹھا ہوا ہے اور ملک کا وزیر اعظم اس سے سوال پوچھنے کے بجائے واپسی کے سوال نامے ارسال کر رہا ہو، ہم اس پر سر نہ پیٹیں تو کیا کریں۔ اگر چوہدری نثار کو تما م تعلیم اور تجربے کے باوجود اپنی اس چھٹی کے بچگانہ پن کا احسا س نہیں ہے تو انھیں بتا نے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مگر اصل مسئلہ چوہدری نثار کا نہیں، وزیر اعظم کے انداز حکمرانی کا ہے۔ اپنی پرانی پالیسی کے تحت انھوں نے ذاتی تعلقات کو حکومت کی بنیاد بنایا ہوا ہے۔ اُن کے لیے مسئلہ وزیر داخلہ کا وزارت سے غیر حاضری کا نہیں ہے خود سے ناراضی کا تھا۔


اگر چوہدری نثار کسی اور وجہ سے ایسے ہی چلاتے رہتے جیسے شہروں میں بیٹھے ہو ئے زمیندار گائوں میں جا کر لاتعلقی کے ساتھ جاگیر چلاتے ہیں تو یہ صورت حال کئی ماہ اور برقرار رہتی۔ مگر چونکہ چوہدری نثار، اسحق ڈار، خواجہ آصف، شہبا ز شریف، پرویز رشید پر مبنی کور کمیٹی کا حصہ ہے، لہذا ان کی خفگی زیادہ دیر برقرار رہنا نقصان دہ تھا۔ اسی وجہ سے اس تماشے کا اہتمام کیا گیا۔ جس کا پہلا حصہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دورے اور پھر ڈھائی درجن قومی اسمبلی کے ممبران پر مبنی تصفیہ پارٹی کا دورہ ہونا طے پایا۔ اس کے بعد جاتی عمرہ میں دونوں کی ملاقات ایسی ہوئی جیسے دو ناراض ریاستوں کے سربراہاں مملکت مل رہے ہوں۔

رپورٹرز کا ہجوم، ٹی وی کوریج، تجزیئے، اور نام نہاد حلقوں میں ایسا جوش جو اسپتالوں کے زچہ و بچہ وارڈ کے باہر موجود رشتے داروں میں پایا جاتا ہے۔ دیکھنے میں آیا گھنٹوں یہی سوال پوچھا جاتا رہا کہ ہو گا یا نہیں ہو گا؟ ہو گیا تو کیا ہو گا؟ کیسے ہو گا؟ اور پھر جب یہ خبر آئی کہ مسئلہ طے ہو گیا ہے تو ہر طرف خوشی کی لہر دوڑانے کے لیے پارٹی سرکاری ذرائع معلومات نے رمضان المبارک کے باوجود کمال مشقت سے کام کرنا شروع کر دیا۔ لہذا اُس روز کے اخباروں میں اس ملکی بحران کے طے پا جانے کی نوید ایسے انداز میں چھپی ہوئی تھی کہ جیسے عید آ گئی ہو۔ مجھے یقین ہے کہ اس تمام واقعہ میں حکومت کے کسی رکن کو کوئی معیوب پہلو نظر نہیں آ رہا ہو گا۔ کیونکہ اس میں وزیر اعظم اور اُن کے بھائی دونوں پیش پیش ہیںتو کس کی مجال ہے کہ سوال کرے۔

اطلاعات کے مطابق چوہدری نثار کی ایک وجہ ناراضی کور کمیٹی کے دوسرے اراکین کی وزیر اعظم کے یہاں اُن سے زیادہ پذیرائی تھی۔ میر ی معلومات اس سے مختلف ہیں۔ ایک اہم معاملہ فوج کے ساتھ جنرل مشرف کے مقدمے کے فیصلے کے باعث بگڑتے ہوئے تعلقات سے تھا۔ چوہدری نثار اور شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے جنرل مشرف کو ملک سے نکالنے یا سزا ہونے کی صورت میں حکومت کا لائحہ عمل طے کرنے جیسے سنجیدہ مسئلے کو فوج کے اہم حلقوں کے ساتھ کئی مرتبہ اٹھا چکے تھے۔

ایک خیال یہ ہے کہ فوج کو یہ حتمی تاثر دے دیا گیا تھا کہ جنرل پرویز مشر ف کے اس ملک سے جانے کے لیے راہ ہموار کر دی جائے گی مگر جب یہ مرحلہ آیا تو وزیر اعظم نواز شریف پیچھے ہٹ گئے، چوہدری نثار برے بن گئے۔ اور سب کو ایسا پیغام ملا کہ جیسے وہ اپنی مرضی سے بڑے بڑے وعدے کرتے پھر رہے ہیں۔ چند دوسرے مسائل بھی تھے۔ جن پر چوہدری نثار اپنے تمام تر اثر و رسوخ کے باوجود وزیر اعظم کی اجازت حاصل نہ کر سکے۔ شہباز شریف ان کا مقدمہ نہ لڑ پائے۔ وہ ناراض ہو کر گھر بیٹھ گئے۔ اور پھر وہ سب کچھ ہوا جس پر میں نے اتنا لمبا آرٹیکل تحریر کیا ہے۔

لیڈروں کے درمیان غصہ، چپقلش، مایوسی سیا سی جماعتوں میں عام ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچی جاتی ہیں۔ اور خود کو دوسروں سے اہم ثابت کرنے کے لیے جنگ جویانہ خصلت بھی اپنائی جاتی ہے۔ مگر پارٹی کے معاملات محلے میں ہونے والی لڑائیوں میں تبدیل نہیں کیے جاتے جس کا تماشا علاقے کے لوگ بالکونی سے کھڑے دیکھ رہے ہوں۔ مسلم لیگ نواز کی قیادت کو وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی میٹنگ کی خبروں پر شرمند ہ ہو نا چاہیے نہ کہ خوش۔ اس سے حکومت کی ساکھ مزید متاثر ہوئی ہے۔
Load Next Story