ملک آگے بڑھ رہا ہے یا نہیں

عوام میں بجلی کے بلوں اور بڑھتی مہنگائی کے سبب بہت بے چینی ہے اور وہ ہو بھی کیوں نہ

mnoorani08@hotmail.com

پی ٹی آئی کے حامی کچھ ریٹائرڈ سرکاری افراد کی گرفتاری پر ہر دانشور اور تبصرہ نگار اپنی اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق تبصرے کر رہا ہے۔ کسی کا خیال ہے یہ تو ابھی شروعات ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ جب کہ کسی دوسرے فریق کے مطابق یہ معمول کی بات ہے اور اس سے کسی سیاست دان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فساد اور انتشار پیدا کرنے والے گروہ کے سرغنہ کو نکیل ڈال کر ملک کو مزید تباہی سے بچالیا گیا ہے۔

2014 سے اس ملک میں جو انتشار اور فساد پیدا کیا جاتا رہا ہے، اس نے اس ملک کو سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ ایک شدید معاشی بحران میں بھی مبتلا کر دیا ہے۔ ایسا بحران جس سے نکلنے اور ڈیفالٹ ہوجانے سے بچ جانے کے لیے ہم سب آج انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی نچلی سطح کو چھو رہے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ اگر موجود ہ بحران مزید جاری رہتا ہے تو پھر ہمیں کوئی بھی ڈیفالٹ ہوجانے سے بچا نہیں سکتا ہے۔ ہم آج چند ملین ڈالرز کے لیے IMF کی منت سماجت کر رہے ہیں اور اس کی کڑی سے کڑی شرط مان کر اپنی قوم پر مہنگائی اورگرانی کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔

آج گرچہ ہماری سڑکوں پر اس قسم کا احتجاج اور فساد نہیں ہو رہا ہے جو ایک ڈیڑھ سال پہلے تک یہاں ہوتا رہا ہے لیکن ایسے ہنگاموں کے امکانات بہرحال ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ کوئی ایک غلطی یا کوئی جنبش ہمیں ایک بار پھر انھی احتجاج اور فسادات سے ہمکنار کرسکتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے یہاں بھی بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ خطرات اور امکانات تو یہی ظاہر کر رہے تھے لیکن ہمارے ایک ادارے کی جانب سے جب سے کچھ افسران کے خلاف تادیبی اور انضباطی کارروائی شروع کی گئی ہے یہ خطرات اور امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔

عوام میں بجلی کے بلوں اور بڑھتی مہنگائی کے سبب بہت بے چینی ہے اور وہ ہو بھی کیوں نہ۔ اس مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر کے رکھ دیا ہے، وہ کس طرح اپنا خرچ پورا کررہے ہیں، یہ وہی جانتے ہیں ورنہ تیس چالیس ہزار ماہانہ کمانے والا صرف اپنا ذاتی خرچ چلا سکتا ہے، اپنے بیوی اور بچوں کا ہرگز نہیں۔ گھرکا کرایہ، کھانے پینے کے اخراجات، بجلی کا بل اور اسکول کی فیس اِن چالیس ہزار روپوں سے تو پوری نہیں کی جاسکتی ہے۔ حکومت گرچہ اپنی دانست میں عوام کو ریلیف فراہم کر رہی ہے لیکن اس ریلیف سے ایک عام آدمی کی تکالیف دور نہیں ہوسکتی ہیں۔ عوام اس وقت شدید اضطراب میں گرفتار ہیں۔


کینیا میں عوام نے بھی اپنی حکومت کا تختہ اسی وجہ سے گول کردیا کہ وہ IMF کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ملک میں مہنگائی کے پہاڑ توڑ رہی تھی۔ ہماری حکومت کو بھی اب ہوش کے ناخن لینا چاہیے ۔ صرف ایک ماہ یا دو ماہ کے ریلیف سے کام نہیں چلے گا، اگر کسی دباؤ یا مجبوری سے اس نے یہ اقتدار سنبھالا ہے تو پھر اپنی ذمے داری نبھاتے ہوئے عوام کی خوشحالی کی تدابیر پیدا کرے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ اقتدار حالات اور واقعات نے آپ کی گود میں لا ڈالا ہے، اگر آپ نے وقتی مجبوریوں کے تحت یہ ذمے داری قبول کی ہے تو اسے احسن طریقہ سے سرانجام بھی دیں۔ قرضے اور ٹیکس بڑھا کر ملک چلانا تو کوئی ہنر اور کارکردگی نہیں ہے۔

آمدنی کے ذرایع اور وسائل بڑھا کر ملک و قوم کو اس عذاب سے نکالنے کی تدابیر اختیارکرنا ہونگی۔ آپ کے پاس وقت بہت کم ہے۔ اگر یہ کام نہ ہوسکا تو پھر صورتحال خراب ہونے کے خدشات ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا ہے، جب کہ ایک سابق ماہر معیشت اور ایف بی آر کے چیف شبر حسین زیدی دو سال پہلے کہہ چکے ہیں کہ ملک تو ڈیفالٹ ہوچکا ہے بس باقاعدہ اعلان ہونا باقی ہے۔ ویسے بھی حالات اسی بات کی تصدیق اور غمازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

IMF اگر ہماری مدد نہیں کرتا تو ہم کب کے اعلانیہ ڈیفالٹ کرچکے ہوتے۔اس وقت سیاسی حالات سابقہ برسوں کے مقابلے میں کافی سازگار ہیں۔ ہر روز ہنگامے اور سڑکوں پر لانگ مارچ کرنے کا سلسلہ بند ہوچکا ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور انتشار پیدا کرنیوالے ماسٹر مائنڈ آج کل پابند سلاسل ہیںاور فی الحال ان کی رہائی کا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔ حکومت کے لیے ایک اچھا موقعہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اورکارکردگی دکھا کر عوام کے لیے راحت و سکون کا سامان پیدا کرے۔ کسی کو بھی پتا نہیں کہ آنے والے وقت یہاں کیا صورتحال ہوگی۔ سب اپنی محدود سوچ اور سمجھ کے مطابق قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔

حکومت اِن قیاس آرائیوں پر توجہ دینے اور یقین کرنے کے بجائے اپنی عافیت کے سامان پیدا کرے اور ملک کو موجودہ مالی مشکلات سے باہر نکالنے کے لیے جدوجہد کرے۔ ملک کے اندر جن قدرتی خزانوں کے ذخائر ہیں وہ انھیں بروئے کار لا کر قوم کو قرضوں سے چھٹکارا دلائے، جن جن ملکوں کے یہاں پچھلے دنوں سرمایہ کاری کرنے کا عندیہ دیا تھا اورMOU پر دستخط بھی کیے تھے انھیں اپنے ان معاہدوں کی یاد دہانی کروائی جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سارے معاہدے صرف زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں تھے ۔ دس دس ملین ڈالرزکی سرمایہ کاری کے یہ خطیر معاہدے ہواؤں میںتحلیل ہوکر نہ رہ جائیں۔ حکومت ابھی تک وہیں کھڑی ہے جہاں سے اس نے یہ سفر شروع کیا تھا۔IMF نے بھی ابھی تک اپنے معاہدے کو فائنل نہیں کیا ہے۔

اسٹاف لیول پر طے کیا گیا معاہدہ ابھی بھی تعطل کا شکار ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ بھی کچھ دنوں سے خاموش ہیں۔ عوام اب مزید قربانیوں کے لیے تیار نہیں ہیں، دوسری طرف IMF بھی اپنی کڑی شرائط پر جوں کی توں قائم ہے، وہ کسی بھی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے میں حکومت کے پاس متبادل یا دوسرا آپشن کیا ہے اور کون سا ہے نہ وزیر خزانہ کچھ بتاتے ہیں اور نہ حکومت۔ ایسی صورتحال میں ہم وثوق سے ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے، وہ آگے بڑھ بھی رہا ہے یا نہیں۔ حکومت سب اچھا ہے کی گردان کر رہی ہے جب کہ اپوزیشن اس کے برعکس ملک کو درپیش خطرناک صورتحال کی نشاندہی کر رہی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہمارے لوگ ملک چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ بزنس مین اور کاروباری طبقہ انتہائی مایوس اور مضطرب ہے، وہ بھی اپنا سرمایہ یہاں سے نکال کر دوسرے ملکوں کو منتقل کررہا ہے۔ یہ صورتحال ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے لیکن ہمیں جواب دینے کے لیے یہاں کوئی بھی موجود نہیں۔
Load Next Story