افطاری سحری اور فوڈ اسٹریٹ

آج 08 رمضان ہے۔ روزوں کا موسم ہے۔ شب و روز کا سلسلہ اب قدرے بدل گیا ہے۔


Intezar Hussain July 07, 2014
[email protected]

آج 08 رمضان ہے۔ روزوں کا موسم ہے۔ شب و روز کا سلسلہ اب قدرے بدل گیا ہے۔ وہ دن گئے جب شرفا کی نظروں میں دن کی اہمیت زیادہ تھی۔ سمجھ لیجیے کہ سارا زور دن پر تھا۔ سارے ضروری کام دن میں انجام دیے جاتے تھے۔ سو رونق بھی بلکہ کہیے کے چہل پہل، بھاگ دوڑ زیادہ تر دن ہی کے اوقات میں ہوتی تھی۔

مگر رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی دن اور رات کے طور بدل جاتے، دن کی خاموش۔ آمد و رفت، چلت پھرت کا سلسلہ کم بہت ہی کم۔ روزہ دار جو ہوئے۔ گہما گہمی دن ڈھلے شروع ہوتی تھی۔ افطار کا وقت آتے آتے گھروں بازاروں میں، گلی کوچوں میں یہ صورت ہوتی جیسے سوئے لوگ جاگ اٹھے ہیں۔ کھانے پینے کی تیاریاں ہیں، گھروں میں چولہوں پر کڑہائیاں چڑھی ہوئی ہیں، پھلکیاں، پکوڑے، پوریاں تلی جا رہی ہیں۔ جس کی جتنی اوقات، اس حساب سے افطار کا دسترخوان وسیع اور رنگارنگ۔

اب فرق یہ پڑ گیا ہے کہ کاروباری زندگی اتنا زور پکڑ گئی ہے کہ دن کے اوقات میں ماہ رمضان کے باوصف ٹریفک کی وہی ہلچل نظر آتی ہے۔ غور سے دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ بازاروں میں بھیڑ اب پہلی جتنی نہیں ہے اور سڑکوں پر موٹریں، رکشائیں، اسکوٹر، سائیکلیں اب بھی رواں دواں ہیں مگر بہر حال اب ٹریفک کچھ چھدرا چھدرا ہے۔

گرمی کے موسم میں روزے پہلے بھی سخت گزرتے تھے اب بھی ان ساری سہولتوں کے باوجود جو نئے زمانے نے فراہم کی ہیں سخت گزرتے ہیں بلکہ شاید سختی اس کمبخت نئے زمانے کی وجہ سے کچھ زیادہ آ گئی ہے۔ غالبؔ نے روزوں کے سلسلہ میں عذر صرف اتنا کیا تھا کہ؎

سامان خور و خواب کہاں سے لائوں

آرام کے اسباب کہاں سے لائوں

روزہ مرا ایمان ہے غالبؔ لیکن

خس خانہ و برفاب کہاں سے لائوں

خس خانہ و برفاب کی صورت اس زمانے میں یہ تھی کہ صاحب حیثیت گھروں میں دوپہر کے اوقات میں فرشی پنکھا یعنی وہ جھالر والا لمبا پنکھا جو چھت میں اس طرح آویزاں ہے کہ کمرے کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک لہراتا نظر آ رہا ہے۔ ڈوری ملازم کے ہاتھ میں ہے وہ کھینچ رہا ہے اور پورے کمرے میں ہوا پھیل رہی ہے۔ دروازوں پر خس کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ان پر پانی جھڑکا جاتا ہے اور خس کی خوشبو ٹھنڈک کے ساتھ مل کر کمرے کی فضا میں مہک پیدا کر دیتی ہے۔

پینے کے پانی کے لیے صراحیوں، کورے گھڑوں میں پانی اس طرح ٹھنڈا ہو رہا ہے کہ مٹی کی مہک بھی اس میں شامل ہے۔ شربت پینے کی آرزو ہے تو پھر برف بھی مہیا ہے۔

یہ انتظام نہ ہو تو دوپہر سہ پہر کے ایام کس مشکل سے کٹتے تھے۔ سو غالبؔ نے خس خانۂ و برفاب کے نہ ہونے کا جو روزوں کے سلسلہ میں عذر کیا ہے وہ کتنا جائز نظر آتا ہے۔ بس غالبؔ کو ایک سہولت کا احساس نہیں تھا جو عام آدمی کو بہرحال مہیا تھی۔ یعنی کھجوری پنکھا وہ دستی پنکھا تو سب ہی کی دسترس میں تھا مگر اب صورت یہ ہے کہ یاروں نے سمجھا کہ اب تو گھر گھر بجلی مہیا ہے تو گھر میں روشنی بھی ہے اور بجلی کا پنکھا بھی چل رہا ہے مگر افطار کا وقت قریب ہو اور لوڈشیڈنگ چل رہی ہو تو روشنی بھی غائب ہوا بھی ندارد۔ اور جب یہ صورت ہو تو صاحب حیثیت الگ پریشان، غریب غربا الگ بولائے بولائے پھر رہے ہیں۔

سو آج کے زمانے میں صورت یہ ہے کہ زمانے نے تو سہولتیں مہیا کریں۔ مگر یار پھر بھی مشکل میں ہیں۔ ایک بجلی کے نہ ہونے سے ایک طرف چراغ گل بتی غائب، دوسری طرف پنکھا بھی ساکت ہے اور گھر میں کوئی کھجوری پنکھا بھی نہیں ہے۔ ادھر نل سے پانی بھی نہیں آ رہا۔ نئے روزہ داروں کے لیے مشکلیں ہی مشکلیں ہیں۔

مگر نئے روزہ دار پھر نئے روزہ دار ہیں۔ انھوں نے خوب راہ ڈھونڈی ہے۔ جیب تھوڑی بھاری ہونی چاہیے۔ پھر کس بات کا ڈر ہے۔ چلو فوڈ اسٹریٹ کی طرف۔ فوڈ اسٹریٹ کو لوڈشیڈنگ کچھ نہیں کہتی۔ یہاں بہرحال روشنی بھی ہوتی ہے۔ پنکھے بھی گھرر گھرر چلتے نظر آئیں گے۔ واپڈا کی طرف سے انھیں رعایت نہ ملی ہو تو بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ جنریٹر تو اپنا کام کرے گا۔ تو جو فرق پڑتا ہے کم آمدنی والی مخلوق کے لیے پڑتا ہے۔ صاحب حیثیت لوگوں کے لیے کیا فرق پڑتا ہے۔ جہاں کہاں شہر میں فوڈ اسٹریٹ ہیں چھوٹے بڑے ہوٹل ہیں۔ سب سے بڑھ کر ایم ایم عالم روڈ ہے۔ سو اے واپڈا والو، اے منافع خورو؎

دل یہ کس کا ہے میری جان جگر کس کا ہے

تیر پر تیر چلائو تمہیں ڈر کس کا ہے

مہنگائی چہ کیست کہ پیش مرداں می آید۔

صاحبو، یہ کمرشلائزیشن کا زمانہ ہے۔ وہ زمانہ گیا جب ہنڈیاں کڑہائیاں چڑھی ہوئی ہیں۔ افطاری کے نام پر کچھ مہمان بھی آئے بیٹھے ہیں۔ آذان کی آواز بلند ہو گی یا گولہ چھوٹے گا تو افطار کے وقت کا پتہ چل جائے گا۔ سو سامنے دسترخوان بچھا ہے۔ رنگارنگ کھانے پکوان، مٹھائیاں، افطار کرو اور ثواب دارین حاصل کرو۔

مگر کمرشلائزیشن نے کونسا جادو کیا کہ گھر کے کچن ٹھنڈے ہو گئے۔ ہوٹل اور فوڈ اسٹریٹ کی رونق پہلے سے کتنی بڑھ گئی ہے۔ بڑھنی ہی تھی۔ جب قدرت نے نوازا ہے اور پیسہ کوڑی کی کمی نہیں ہے۔ تو پھر گھر میں بیٹھ کر چولہے میں کیوں سر جھونکیں۔ چلو گھر سے نکلیں۔ اور چلیں قلعہ کے پیچھے فوڈ اسٹریٹ کی طرف۔ ارے اتنی دور کون جائے۔ ایم ایم عالم روڈ۔ گھر سے کتنی قریب ہے۔ وہاں رنگ رنگ کی ڈشیں مہیا ہیں۔ گھر میں اتنی ڈشیں کون تیار کر سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ اس کمرشلائزیشن کے دور میں ہم سب چٹورے ہیں۔ چٹوروں کی تخصیص نہیں رہی۔ جو پیسے والے ہیں وہ بھی چٹورے ہیں۔ جو کم آمدنی والے ہیں وہ بھی چٹورے ہیں اور چٹورے لوگ پہلے بھی کونسے گھر میں بند ہوکر بیٹھتے تھے۔ گھمی کبابی ایسے کبابی انھیں کب گھر میں بیٹھنے دیتے تھے۔

اب ایک کبابی پہ موقوف نہیں ہے۔ پورے پورے بازار چٹوروں کو صبح و شام پکارتے رہتے ہیں۔

تو اس زمانے میں افطار کے طور اور ہیں۔ روزہ داروں سے بڑھ کر روزہ خوروں کی بن آئی ہے۔ پہلے تو وہ افطار کی حد تک تھے۔ اب تو نئے ہوٹلوں نے انھیں سحری کا خوگر بنا دیا ہے۔ روزہ بیشک نہ رکھیں لیکن نئے ہوٹلوں میں، نو آمدہ فوڈ اسٹریٹوں میں جا کر افطار کرتے ہیں، سحری کھاتے ہیں اور روزہ داروں کے ثواب میں برابر کے شریک ہو جاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں