حسینہ واجد کا دھڑن تختہ بھارت نے اپنی ناکامی کا ملبہ آئی ایس آئی پر ڈالنا شروع کر دیا

بنگلہ دیش اور پاکستان کے مسلمانوں کے خلاف مودی سرکار کی شرانگیز میڈیا مہم کی سنسنی خیز روداد

فوٹو : فائل

5 اگست کی دوپہر بنگلہ دیش کی ڈکٹیٹر ، بیگم حسینہ واجد اپنی جان بچا کر فرار ہوئی تو اسی شام بھارت کا میڈیا اپنی قوم پرست مودی حکومت کی ایما پر یہ پروپیگنڈا کرنے لگا کہ موصوفہ کی حکومت گرانے میں پاک فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی نے اہم کردار ادا کیا۔

ممتاز بھارتی نیوز سائٹس... انڈیا ٹوڈے،ہندوستان ٹائمز، دکن ہیرالڈ، ٹائمز آف انڈیا، این ڈی ٹی وی، فرسٹ پوسٹ، دی اکنامک ٹائمز، بزنس ٹوڈے، نیوز18، اے بی پی لائیو، ڈی این اے انڈیا اور دیگر نے اس سلسلے میں خصوصی مضامین شائع کیے اور حسینہ واجد حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام پاکستان اور چین پر بھی دھر دیا۔ اس پروپیگنڈے کی بنیاد پر ہی حسینہ واجد کے بیٹے نے دعوی کر دیا کہ اس کی ماں کی حکومت پاکستانیوں کی مدد سے ختم کی گئی۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔

معاشی وجوہ انقلاب لائیں

دنیا والے حسینہ واجد کے کرتوتوں سے بخوبی آگاہ ہو چکے۔ وہ ایک آمر تھی جو طاقت کے بل پر حکومت کرتی رہی۔اس نے اپوزیشن کو کچل کر رکھ دیا۔ اس کے دور حکومت میں اشرافیہ یا ایلیٹ طبقے کو ہی معاشی ترقی کے فوائد ملے جبکہ عام آدمی غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کے عفریتوں سے نبردآزما رہا۔ آخرکار یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات نے حسینہ واجد کی آمریت کو چیلنج کیا اور اس کے خلاف تحریک چلانے لگے۔ابتداً وہ صرف سرکاری ملازمتوں میں اپنا حصہ بڑھانا چاہتے تھے جس پہ حکمران جماعت ، عوامی لیگ کی مونوپلی تھی۔عوامی لیگی لیڈر بطور سیاسی رشوت یا مالی مفاد، کسی کو بھی سرکاری نوکری دے دیتے تھے۔

بیگم صاحبہ خیالی محل میں

وزیراعظم حسینہ واجد حزب اختلاف نہ ہونے کے باعث خود کو مہان ہستی اور بنگلہ دیشیوں کی ہیرو سمجھنے لگی تھی۔ کاسہ لیس اور خوشامدی اسے یہی رپورٹ دیتے تھے کہ عوام اس سے بہت خوش ہیں ، حالانکہ وہ اٹھتے بیٹھتے حکمران طبقے کو گالیاں نکالتے تھے۔ خود کو اوتار تصّور کرنے کے باعث ہی بیگم صاحبہ کو طلبہ کا احتجاج ناگوار گذرا۔ بجائے یہ کہ وہ انھیں نرمی و شفقت سے ڈیل کرتی، مغرور ومتکبر آمر کی طرح ان پہ برس پڑی۔ حتی کہ سیکورٹی فورسز اور عوامی لیگ کے غنڈوں کو کھلی چھٹی دے دی، طلبہ پر تشدد کریں اور انھیں گولیاں کا نشانہ بنائیں۔

اس تشدد کے بعد ہی بنگلہ دیشی عوام بھی طلبہ کی احتجاجی تحریک کا حصہ بن گئے۔بیروزگاری اور مہنگائی سے وہ پہلے ہی عاجز تھے، اب جان ہتھیلی پر رکھ کر آمر کی ظالمانہ سرکاری مشینری کا مقابلہ کرنے لگے۔آخر عوام ہی کو فتح حاصل ہوئی اور آمر بیگم اپنی جائے پناہ ، بھارت فرار ہو گئی۔اب وہاں بیٹھ کر دعوی کر رہی ہے کہ جنگی اڈہ نہ دینے پر امریکا نے اس کی حکومت ختم کرا دی۔ یوں حسینہ واجد نے عوامی احتجاج کی توہین کرتے ہوئے اسے غیرملی ایجنڈا بنا دیا۔اسی لیے طلبہ لیڈر بیگم صاحبہ پہ عوام کے قتل کا مقدمہ چلانا چاہتے ہیں۔



بھارت جائے پناہ بنا

1975ء میں ناراض فوجیوں نے اس کے ڈکٹیٹر باپ، شیخ مجیب کو قتل کر دیا تھا۔ تب بیگم حسینہ یورپ تھی، اس لیے بچ گئی۔اس نے پھر کئی سال بھارت میں گزارے۔ یوں بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس کی سرپرست و آقا بن گئی۔

اکیسویں صدی کے اوائل میں بدقسمتی سے بنگلہ دیشی جرنیلوں اور بیوروکریسی کا جھکاؤ ابھرتی معاشی طاقت، بھارت کی جانب ہو گیا۔ ان کو یقین تھا کہ بھارت سے دوستی بنگلہ دیشی معیشت کے لیے برگ وبار لائے گی۔اسی لیے بنگلہ دیشی اسٹیبلشمنٹ نہ صرف الیکشن میں دھاندلی کر کے بیگم حسینہ کو اقتدار میں لے آئی بلکہ متواتر پندرہ سال تک اسے تخت پر بٹھائے رکھنے کے لیے ہر ممکن غیر اخلاقی ، غیر قانونی اور غیر آئینی حربہ استعمال کیا۔ مقصد یہی تھا کہ بیگم صاحبہ بھارت سے اپنی دوستی کے بل پر ملکی معیشت کو ترقی دے سکے۔ معاشی ترقی تو ہوئی مگر جیسا کہ بتایا گیا، اس کے بیشتر ثمرات حکمران طبقہ لے اڑا، عوام کو آٹے میں نمک برابر ہی فائدہ ہو سکا۔

بھارتی اثرونفوذ بڑھ گیا

بیگم حسینہ کے دور میں بھارت کا اثرونفوذ بنگلہ دیش میں بڑھ گیا۔ اب اسے اس کے ساتھ لگی سرحد پہ فوج تعینات کرنے کی بھی ضرورت نہ تھی ۔اس تعیناتی پہ اخراجات اٹھتے ہیں، یوں بھارت کثیر خرچ سے بچ گیا۔ دریں اثنا بھارتی خفیہ ایجنسی، را نے بھی مملکت میں اپنا اثرورسوخ بڑھا لیا۔ را نے کئی مقتدر شخصیات سے تعلقات قائم کیے اور انھیں بھاری رقم دے کر اپنا ایجنٹ بنا لیا۔ اس طرح بھارت بنگلہ دیش میں چین اور پاکستان کے اثرات کم سے کم کرنا چاہتا تھا۔ نیز وہ مقامی ہندو لیڈروں کو زیادہ طاقتور بنانا چاہتا تھا ۔حسینہ واجد حکومت ختم ہونے سے مگر بھارت کی سرمایہ کاری کو دھچکا لگ گیا کیونکہ نئی حکومت ظاہر ہے، بیگم حسینہ کی طرح اس کی کٹھ پتلی نہیں ہو سکتی۔

کھسیانی بلی کھمبانوچے

بنگلہ دیش میں اپنا منصوبہ ناکام ہوتا دیکھ کر ہی مودی سرکار غم وصدمے میں ڈوب گئی۔اس عالم میں، کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف وہ پاکستان، پاک فوج، آئی ایس آئی ، مسلمانوں اور چین پر چڑھ دوڑی۔ مودی جنتا کے حکم پر اس کا زرخرید میڈیا یہ جھوٹ تسلسل اور دھڑلے سے بولنے لگا کہ حسینہ واجد حکومت کا خاتمہ پاکستان وچین کا مشترکہ مشن تھا۔ اور اس مشن میں بنگلہ دیش کی اپوزیشن پارٹیوں ، بی این پی اور جماعت اسلامی نے بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ دعوی کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر پاکستان کے اکاؤنٹس سے حسینہ واجد حکومت کے خلاف لاکھوں پوسٹیں کی گئیں۔ یہ اکاؤنٹس آئی ایس آئی چلا رہی تھی۔ یوں بنگلہ دیشی عوام کو اپنی حکومت کے خلاف ابھارا گیا۔ جو کہ سراسر جھوٹ اور پراپیگنڈہ ہے۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم

بھارتی میڈیا نے پھر بنگلہ دیشی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز اور پُرتعصب مہم چلا دی۔ یہ دعوی کیا گیا کہ بنگلہ دیشی عوام ہندؤں کے گھروں اور کاروبار کو نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ وہ بیگم حسینہ واجد کے ساتھ تھے۔بھارتی میڈیا نے پروپیگنڈا کیا کہ جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت کے ارکان ہندؤں پر حملے کرنے میں پیش پیش ہیں۔ یہ جھوٹی خبریں مشتہر کر کے بھارتی میڈیا دراصل اہل دنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ بنگلہ دیش میں اسلام پسند حکومت میںآ سکتے ہیں جو دہشت گردی اور جہاد کو فروغ دیں گے۔ یوں بنگلہ دیشی مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے بھارتی اشرافیہ کے حکم پر بھارت کے میڈٰیا نے نہایت منظم مہم چلائی اور تمام اخلاقی و قانونی حدود پار کر دیں۔ یہ گھناؤنا عمل دنیا والوں کے سامنے بھارتی حکومت و میڈیا کا مکروہ و حقیقی روپ سامنے لے آیا۔

بھارتی دعوی بے بنیاد

یہ درست ہے کہ پاکستانی حکمران طبقہ ہی نہیں اہل پاکستان بھی حسینہ واجد حکومت سے ناراض و بددل تھے۔ وہ پاکستان کے خلاف زہر اگلتی رہتی تھی۔ اس نے جماعت اسلامی کے لیڈروں پہ جو ظلم وستم ڈھائے، وہ قابل مذمت ہیں۔اسے یقیناً مظلوموں کی آہ بھی لگی اور اللہ تعالی نے مغرور بیگم کا سارا کروفر وغرور مٹی میں ملا دیا۔ پاکستانی حکومت نے مگر کبھی یہ نہیں چاہا کہ خفیہ سازشوں اور چالوں سے حسینہ واجد حکومت گرائی جائے۔ ایسے منصوبے عموماً طشت ازبام ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی حکمران طبقے کو بخوبی علم ہو گا کہ ایسا کوئی بھی منصوبہ بنگلہ دیشی عوام میں پاکستان وعوام کو مزید نامقبول بنا دے گا۔ اس لیے یہ بھارتی دعوی بالکل بے بنیاد اور نامعقول ہے کہ پاکستانی حکومت یا پاک فوج حسینہ واجد حکومت گرانے میں ملوث ہے۔ ہاں، حکومت پاکستان نے بنگلہ دیشی طلبہ اور عوام کی احتجاجی تحریک سے ضرور اظہار یک جہتی کیا کیونکہ وہ ظلم کے خلاف چل رہی تھی۔

بھارتی پروپیگنڈا کیسے ہوا؟

ٹائمز گروپ بھارت میں سب سے بڑا نیوز گروپ ہے۔ یہ ٹائمز آف انڈیا اخبار اور کئی یو ٹیوب و ٹی وی چینلوں کا مالک ہے۔ اس کی ملکیت والے ''مرر ناؤ'' کے یوٹیوب چینل پر ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی جس کا عنوان تھا:'' بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملہ۔''اس وڈیو میں دعوی کیا گیا کہ بنگلہ دیشی مسلمان ہندؤں کا اجتماعی قتل کر رہے ہیں۔ ہجوم انھیں قتل کرنے میں مصروف ہے۔ وڈیو میں چار گھروں پر حملے اور آتش زنی کے واقعات کی فوٹیج دکھا ئی گئی۔

جب غیرجانب دار نیوز ایجنسیوں کے صحافیوں نے ان واقعات کی تحقیق کی تو انکشاف ہوا کہ چار گھروں میں سے دو گھر مسلمانوں کے ہیں۔جبکہ دو گھر ہندوؤں کی ملکیت تھے۔مگر ان پر حملہ مذہبی نہیں سیاسی وجوہ کی بنا پر ہوا۔ دونوں ہندو عوامی لیگ کے مقامی رہنما تھے اور علاقے میں ان کی شہرت اچھی نہیں تھی۔دراصل جب عوامی لیگ کو زوال آیا تو اس سے عاجز آئے عوام نے پارٹی کے تمام نامقبول لیڈروں کے گھروں ، کاروباری مقامات اور دفاتر پر دھاوا بول دیا۔ تب لیڈروں کو مارا پیٹا گیا اور ان کی جائیداد کو آگ لگا دی گئی۔ انہی حملوں کے دوران ہندو رہنما بھی ٹارگٹ بنے...اس لیے نہیں کہ وہ غیرمسلم تھے، وجہ یہ تھی کہ وہ ایک آمر کے ساتھی تھے۔

صاف عیاں ہے کہ بھارتی نیوز سائٹ کی پوسٹ کردہ ویڈیو کا عنوان واضح طور پر گمراہ کن تھا کیونکہ بنگلہ دیش میں کہیں بھی ہندؤں کا اجتماعی قتل عام نہیں کیا گیا۔ ویڈیو میں دعوی کیا گیا کہ 24 ہندو ہجوم کے ذریعے زندہ جلائے گئے ۔یہ غیر مصدقہ دعوے بھی کیے گئے کہ بنگلہ دیشی مسلمان اقلیتوں کے مراکز کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ بنگلہ دیشی صحافی کہتے ہیں: حسینہ کی برطرفی کے بعد صرف دو ہندو ہلاک ہوئے... ایک پولیس افسر اور ایک حسینہ کی عوامی لیگ کا کارکن۔




بنگلہ دیش کی سترہ کروڑ آبادی کا تقریباً 8 فیصد ہندو ہیں۔ وہ روایتی طور پر عوامی لیگ کے مضبوط حامی رہے ہیں جسے عام طور پر حزب اختلاف کے مقابلے میں سیکولر سمجھا جاتا ہے۔ اپوزیشن میں جماعت اسلامی بھی شامل ہے۔بھارتی میڈیا نے ہندوؤں پر حملوں کی جو جھوٹی مہم چلائی ، اس میں بہت سے عجیب و غریب دعوے کیے گئے۔ مثلاً یہ کہ ''ایک کروڑ سے زیادہ ہندو پناہ گزین جلد ہی مغربی بنگال میں داخل ہو جائیں گے۔''یہ دعوی اکنامک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ اس خبر کی بنیاد بھارتی حکمران پارٹی، بی جے پی کا ایک سینئر رہنما سویندو ادھیکاری تھا۔کچھ ذرائع ابلاغ نے یہ قیاس کرتے ہوئے کہ ہندوؤں کو بنگلہ دیش سے نکال دیا جائے گا، بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ ممکنہ پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے تیاری کرلے۔

اے این آئی نیوز ایجنسی مودی حکومت کے بہت قریب ہے۔ اس نے اپنی رپورٹ میں دعوی کیا کہ ایک بھارتی طالب علم رہنما کا کہنا ہے:'' بڑے پیمانے پر بغاوت بنگلہ دیش کے دشمنوں کی طرف سے منظم سازش تھی۔''ٹائمز آف انڈیا کے ایک اور عجیب مضمون میں کہا گیا:'' بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اسلام پسند پارٹی، جماعت اسلامی نے شیخ حسینہ کی حکومت کو گرا دیا۔''

بنگلہ دیش کے ممتاز سیاسی تجزیہ کار، زاہد الرحمان نے غیر ملکی نیوز سائٹس کو بتایا کہ بھارتی میڈیا نے جھوٹی خبریں پھیلا کر اسلاموفوبیا (یا اسلام سے خوف)بڑھانے کی دانستہ کوشش کی۔وہ کہتے ہیں:''سچ یہ ہے کہ بنگلہ دیشی طلبہ کی تحریک جس نے عوامی بغاوت کو ہوا دی،اس میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔لیکن بھارتی میڈیا کا دعوی ہے کہ صرف اسلام پسند اس کا حصّہ بنے۔ ''

آئی ایس آئی پیچھے ہے؟

حسینہ کے ملک سے فرار ہونے کے بعد بھارتی میڈیا نے اس خبر کو بہت اچھالا کہ بنگلہ دیشی مظاہروں کے پیچھے پاکستانی خفیہ ایجنسی، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی قوت کارفرما تھی کیونکہ وہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی(بی این پی) اور جماعت اسلامی کے ذریعے بنگلہ دیش کو اسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔کچھ مبصرین اور میڈیا آؤٹ لیٹس کی سوشل میڈیا پوسٹس میں بنگلہ دیش کی مقبول طلبہ تحریک سے آئی ایس آئی اور چین کے تعلق کی قیاس آرائیاں عام موضوع تھا۔دی اکنامک ٹائمز کے سفارتی امور کے ایڈیٹر ،دیپنجن آر چودھری نے پوسٹ کیا'': سرحد پار سے دہشت گردی کو فروغ دینا جماعت (اسلامی بنگلہ دیش) کا ٹریک ریکارڈ اور حالیہ تاریخ کا حصّہ ہے۔ بھارتی ٹیلی ویژن چینل TV9 گجراتی کے دس لاکھ فالوورز ہیں۔ اس نے یہ خصوصی رپورٹ دکھائی:'کیا پُرتشدد حملوں کے پیچھے جماعت اسلامی کا ہاتھ ہے؟

سچ کیا ہے؟

بھارتی میڈیا کے مضامین اور سوشل میڈیا میں پوسٹس حقائق کے برخلاف تھیں۔ بنگلہ دیش کے مقامی میڈیا نے اطلاع دی کہ پیر کی رات سے ملک کے 64 میں سے 20 اضلاع میں ہندو گھرانوں پر حملہ ہوا اور لوٹ مار کی گئی ۔ مگر تمام حملے مذہبی شناخت نہیں بلکہ سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے ہوئے ۔وسطی ضلع نرسنگدی میں کرائے پر گاڑی چلانے والے مستفیض الرحمان ہیرو نے غیر ملکی صحافیوںکو بتایا کہ ان کے گاؤں میں جن دو ہندو گھرانوں کو نشانہ بنایا گیا وہ عوامی لیگ کے مقامی رہنما تھے۔ ''لوگ ان سے ناراض تھے کیونکہ جب عوامی لیگ کی حکومت تھی تو یہ ہندو رہنما دوسروں کو دھونس دہمکی دیتے تھے۔ اب حسینہ کے زوال کے ساتھ وہ ردعمل کا سامنا کر رہے ہیں۔''

بھارت کے ساتھ لگے سرحدی ضلع جاشور میں عوامی لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے مقامی حکومت کے چیٔرمین بابل سہا کے گودام اور گھر پر حملہ کیا گیا۔جاشور کے ایک رہائشی عبدالرب حیدر کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ سے تعلق کے بغیر کسی ہندو گھرانے پر حملہ نہیں کیا گیا۔یہ حملے فرقہ وارانہ نہیں بلکہ سیاسی طور پر کیے گئے۔''قطری نیوز سائٹ ، الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں بنگلہ دیش کی ہندو برادری کے رہنما، گوبندرا چندر پرمانک نے کہا:''میرے علم کے مطابق صرف ان ہندوؤں پر حملے ہوئے جو عوامی لیگ سے تعلق رکھتے تھے۔ہندو برادری کے رہنما کے طور پر میں اس بات کی تصدیق کر تا ہوں کہ یہ حملے سیاسی تھے فرقہ وارانہ نہیں۔ ورنہ ملک بھر میں عوامی لیگ سے وابستہ مسلم گھرانوں پر دس گنا زیادہ حملے کیے گئے۔''

عام ذریعے سے احکامات

بنگلہ دیش کے ممتاز اخبار، ڈھاکہ ٹریبیون کے ایڈیٹر ظفر سبحان نے بھارتی میڈیا کی بنگلہ دیش مخالف مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:'' زیادہ تر بھارتی میڈیا عام اصول کے طور پر بنگلہ دیش کے بارے میں بے خبر ہے۔ میں اس کیفیت کو بددیانتی سے منسوب کرنا پسند نہیں کرتا جس کی آسانی سے وضاحت کی جاسکتی ہے۔ لیکن غلط معلومات کی جو یکسانیت بھارتی میڈیا میں معمول کے مطابق پھیلائی گئی، اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک عام ذریعے سے احکامات لے رہا تھا ۔''

تاریخی تناظر کا واویلا

ایک بھارتی ماہر تعلیم اس الزام کو مسترد کرتا ہے کہ بھارتی میڈیا کی رپورٹنگ نے اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دیا۔شمالی بھارت میں سونی پت کی او پی جندل یونیورسٹی کے پروفیسر سریرادھا دتہ نے دعوی کیا:'' بنگلہ دیش میں نئی انتظامیہ کے تحت ہندوؤں کے تحفظ کے بارے میں بھارتی میڈیا کی تشویش اسلامو فوبیا کے بجائے ماضی کے تجربات سے تعلق رکھتی ہے۔ پچھلی غیر عوامی لیگی حکومتوں کے دوران، جیسے کہ بی این پی-جماعت اسلامی اتحاد ی حکومت کے دور میں اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہوا تھا۔ اس تاریخی تناظر نے موجودہ تاثرات کو جنم دیا۔''

مسلمانوں نے ہندوؤں کی حفاظت کی

یہ مگر حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کی سوشل میڈیا دنیا میں ایسی کئی پوسٹس گردش کر رہی ہیں جن میں بنگلہ دیشی مسلمان ہندوؤں کے مندروں اور گھروں کے سامنے کھڑے ان کی حفاظت کرتے نظر آتے ہیں۔ان افراد میں مدارس کے طلبہ نمایاں دیکھے جا سکتے ہیں۔بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی سب سے بڑی آبادی والے ضلع برہمن باریا میں مسلمان رہائشی بشمول طلبہ ہندو گھرانوں کی حفاظت کے لیے پیش پیش رہے۔

برہمن باریہ میں ملبوسات کا ایک کاروباری ،منشی عزیز الحق بتاتا ہے کہ وہ علاقے میں کسی بھی قسم کے فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے سرگرم رہا۔وہ کہتا ہے ''ہم نے دیکھاکہ کس طرح بھارتی میڈیا سوشل میڈیا پر بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملوں کی تصویر کشی کر رہا ہے۔ حقیقت بالکل مختلف ہے۔''ہندو برادری کا رہنما، گوبندرا چندر پرمانک بھی تسلیم کرتا ہے کہ ہندو مندروں کی حفاظت کی جا رہی ہے۔



غیرجانب دار بھارتی دانشوروں کی آرا

بھارت میں مشہور نیوز سائٹس ،دی وائر اور کلیریٔن انڈیا نے بنگلہ دیش میں بدامنی شروع ہونے کے بعد یہ خبریں تفصیل سے دیں کہ بنگلہ دیشی یونیورسٹیوں اور مدارس کے طلبہ ہندوؤں کے مندروں اور گھروں کی حفاظت رضاکارانہ طور پر کر رہے ہیں۔ان سائٹس نے شہ سرخیاں چلائیں جن میں کہا گیا :''مسلمان مندروں کے محافظ بن گئے''... '' اقلیتوں کے تحفظ کے لیے مسلمان ایک ہو گئے''... "حملوں کے تناظر میں مندروں اور گرجا گھروں کے باہر مسلم طلبہ نے چوکیداری شروع کر دی ۔''دی وائر کے بانی ایڈیٹر، سدھارتھ وردراجن کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے دو درجن سے زائد اضلاع میں ہندو عبادت گاہوں، کاروباروں اور گھروں پر حملوں کی رپورٹوں پر جہاں جائز اور حقیقی تشویش پائی جاتی ہے، وہیں بھارتی میڈیا اس امر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے لگا۔

سدھارتھ وردراجن کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے :'' بھارتی میڈیا کا ایک حصہ اپنے نظریاتی آقاؤں (آر ایس ایس اور بی جے پی )کے حکم پر بنگلہ دیش کی صورت حال کو مسلم مخالف بیان بازی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرنے لگا۔ اس انتہاپسند میڈیا نے شور مچا دیا کہ حسینہ واجد کو بے دخل کرنا ایک اسلامی سازش ہے جو پاکستان اور چین کے ساتھ مل کر انجام پائی او ر اس کا ہدف بھارت اور ہندو ہیں۔''

ممتاز بھارتی نیوز سائٹ، سکرول(Scroll.in) کے ایڈیٹر نریش فرنانڈیز کا کہنا ہے''بنگلہ دیش میں انقلاب برپا ہوا تو بھارت میں ہندوتوا (شدت پسند ہندو قوم پرستی) کے حامی وہاں کی صورت حال کو ایسی تصویر کے طور پر پیش کرنے لگے جو درحقیقت ان کی اپنی پریشانیوں، تصّورات ، سازشی تھیوریوں اور تنگ نظر سیاسی مقاصد کی عکاس بن گئی۔وہ دعویٰ کرنے لگے کہ حسینہ واجد کا زوال دراصل بین الاقوامی طاقتوں کے ذریعے کیا گیا اور بھارت میں اسی طریقے سے (مودی ) حکومت تبدیل کی جا سکتی ہے۔''

حرف آخر

آرایس ایس اور بی جے پی کے حکم پر بھارتی میڈیا نے اسلام ، مسلمانان ِ بنگلہ دیش و پاکستان اور پاک افواج کے خلاف جو مذموم، جھوٹی اور بے سروپا شر انگیز مہم چلائی ، وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکی۔ الٹا بنگلہ دیش میں یہ نظریہ فروغ پا گیا کہ بھارتی حکومت محمد یونس اور طلبہ لیڈروں کی زیرقیادت بننے والی حکومت کی مخالف ہے۔اسی لیے اس نے جھوٹی مہم چلا کر بنگلہ دیش کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی ۔ بھارتی مہم کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ بنگلہ دیشی عوام میں حسینہ واجد کے لیے ہمدردیاں حاصل کی جا سکیں۔ اسی لیے اس کے بیٹے نے بیان دیا کہ جب بھی الیکشن ہوئے، بیگم حسینہ واپس آ جائے گی۔حالانکہ کچھ عرصہ بیٹے کا بیان آیا تھا کہ وہ اب سیاست میں حصہ نہیں لے گی۔

یہ خوش آئند امر ہے کہ بنگلہ دیشی خاص وعوام کے سامنے مودی سرکار کا عیاّرانہ روپ عیاں ہو گیا۔اب مودی حکومت کے لیے بنگلہ دیش میں اثرورسوخ بڑھانا مشکل تر ہو جائے گا۔ جبکہ یہ امکان موجود ہے کہ نئے بنگلہ دیشی لیڈر پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھانے اور خوشگوار بنانے پر توجہ دیں گے۔ ان تعلقات میں بڑھوتری ہی دونوں اسلامی ممالک کے لیے ترقی وکامرانی کی نوید ہے۔
Load Next Story