مؤذنِ وخاذنِ رسول ﷺ حضرت بلال بن رباح ؓ

آپ رسول اللہ ﷺ کے تین برس بعد پیدا ہوئے اور آپ کا پورا نام بلال بن ابی رباح تھا۔


فوٹو : فائل

نبی پاک ﷺ کے تمام صحابہ کرام ؓ معیارِ حق ہیں۔ ان کی پیارے آقاﷺ سے محبت ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے اپنا سب کچھ نبی پاک ﷺ پر قربان کیا یہاں تک کہ اپنے گھر بار کو چھوڑا اور جانوں تک کو قربان کر دیا۔

ان ہی صحابہ کرامؓؓ میں ایک پیارے صحابی حضرت بلال بن رباحؓ بھی ہیں۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے شروع میں اسلام قبول کیا اور جن کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔ آپ رسول اللہ ﷺ کے تین برس بعد پیدا ہوئے اور آپ کا پورا نام بلال بن ابی رباح تھا۔ آپؓ کی والدہ ایک غلام تھیں جن کو امیہ بن خلف نے خریدا تھا۔ امیہ بن خلف اسلام کا سخت دشمن تھا اور حضرت بلال ؓپر طرح طرح کے مظالم ڈھاتا تھا تاکہ وہ اسلام سے پھر جائیں۔ عرب کی تپتی دوپہر میں ان کو گرم ریت پر لٹایا جاتا تھا اور ان کے سینے پر ایک وزنی چٹان رکھی جاتی تھی اور ان سے کہا جاتا تھا کہ اسلام چھوڑ دو لیکن ان کی زبان سے صرف احد احد نکلتا تھا۔ یہی امیہ بن خلف غزوہ بدر میں قیدی بن کر آیا تھا اور حضرت بلال کے ہاتھوں قتل ہوا۔

بلال میرے آقا ہیں

رسول اللہ ﷺ حضرت بلال ؓ پر ہونے والے تمام مظالم سے آگاہ تھے آپ ﷺ نے صحابہ کو فرمایا کیا کوئی ایسا نہیں جو بلال کو خرید کر آزاد کر دے؟ حضرت ابوبکرصدیقؓ امیہ بن خلف کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ بلال کو کتنے میں بیچو گے؟ اس نے سونے کے دس سکوں کا مطالبہ کیا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ گھر آئے اور سونے کے دس سکے لے کر گئے اور امیہ کو دیے، جس پر امیہ ہنس پڑا اور کہنے لگا، خدا کی قسم اگر آج تم ضد کرتے تو میں بلال کو سونے کے ایک سکے کے بدلے بھی فروخت کر دیتا۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓنے فرمایا، اگر آج تم ضد کرتے اور مجھ سے بلال کے بدلے سونے کے سو سکے بھی مانگتے تو میں وہ دے کر بھی بلال کو آزاد کرادیتا۔ حضرت بلال ؓکو آزاد کرانے کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ کہتے تھے بلال میرے آقا ہیں۔ (سبحان اللّہ)

الخاذن ومؤذنِ رسولﷺ

روایات کے مطابق آپؓ کا رنگ سیاہ تھا، قد اونچا اور کسی قدر دبلے پتلے تھے، لیکن جب صحابہؓ ان کی خصوصیات بتاتے تو کہتے تھے کہ وہ صادق القلب تھے۔ ایک ایسے انسان جنہوں نے سب کچھ محنت اور جدوجہد سے حاصل کیا اور یہ سب اللّہ اور اس کے رسول ﷺکی محبت کا نتیجہ تھا۔ آپ ﷺ کی جانب سے حضرت بلالؓ کو دو لقب دیے گئے یا دو طرح کی خدمات تھیں جو خود آپ ﷺ نے حضرت بلالؓ کو سونپیں، ایک الخازن، آپ نبی پاک ﷺ کے ذاتی خزانچی تھے، اور دوسرا لقب '' مؤذن رسول ﷺ۔''

میں ایک غلام ہوں

رسول اللہ ﷺ کی ہر مہم ہر غزوے میں حضرت بلالؓ آپﷺ کے ساتھ رہے۔ حضرت بلالؓ ہمیشہ بات کرتے ہوئے یہی کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے وہ فرمایا، ان سے کوئی اور بات کی جاتی تو کچھ دیر وہ بات کرتے مگر پھر یہیں آجاتے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے وہ فرمایا۔ آپﷺ فرماتے تھے، بلال کوئی بھی بات مجھ سے منسوب کر کے کہے تو اس کے بارے میں کسی شک میں مت پڑنا۔ حضرت بلال ؓ کی حضرات صحابہ کرام ؓ بے پناہ عزت کرتے اور ان کی تعریف کرتے اور جب ایسا ہوتا، حضرت بلال اپنے سر کو جھکا لیتے، جاننے والے جانتے تھے کہ ان کی تعریف کی جارہی ہے۔ حضرت بلال ؓکی جب کوئی تعریف کرتا تو آپ ؓ کی آنکھوں سے اشک جاری ہوجاتے اور فرماتے میں تمہیں بتاؤں میں کیا ہوں؟ میں ایک حبشی ہوں اور میں ایک غلام تھا اور ایک غلام ہوں، اللہ کا غلام۔

جنت حضرت بلال کی منتظر

ایک بار ایک قبیلے کے کچھ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ اے اللّہ کے رسول ﷺ میری بیٹی کی شادی کسی سے کردیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، بلال کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ لوگ پھر آئے پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ میری بیٹی کی شادی کسی سے کر دیں، آپ ﷺ نے فرمایا، بلال کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ لوگ تیسری بار پھر آئے اور پھر یہی کہا، آپ ﷺ نے پھر جواب دیا، بلال کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جو کہ جنتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جنت، حضرت بلالؓؓ کا انتظار کرتی ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم جنت کا انتظار کرتے ہیں جب کہ جنت خود حضرت بلالؓؓ کا انتظار کرتی ہے۔ ایک بار فجر کی نماز کے بعد آپ ﷺ نے حضرت بلالؓ سے پوچھا کہ تم ایسا کیا کرتے ہو کہ کل رات جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے آگے تمہارے قدموں کی آواز سنی۔ حضرت بلالؓؓ نے جواب دیا، یا رسول اللہ ﷺ جب بھی میرا وضو ٹوٹتا ہے میں دوبارہ وضو کر کے دو رکعت نفل ادا کرتا ہوں۔

اذان ِ بلال اور رسولؐکی جدائی

حضرت بلال ؓ اذان دیتے وقت جب اشہد ان محمد رسول اللہ پر آتے تو آپﷺ گھر سے نکل کر مسجد کی طرف آتے تھے۔ پھر جب علالت کا وقت آیا اور آپ ﷺ سے امامت کے لیے آیا نہ جا سکا تو حضرت بلال خود آپﷺ کو بلانے جاتے، کبھی آپ ﷺ خود آتے کبھی کسی نے سہارا دیا ہوتا۔ یہ دیکھ کر حضرت بلالؓؓ فرماتے کہ کیا ہی دکھ اور غم کے دن ہیں، اگر یہ دن ہی دیکھنا تھا تو میری ماں نے مجھے پیدا ہی نہ کیا ہوتا، یا اے کاش! میں یہ دن دیکھنے سے پہلے مرگیا ہوتا۔ پھر یوں بھی ہوا کہ حضرت بلال ؓ اذان دیتے ہوئے غم سے بے ہوش ہوگئے۔ آپﷺ کی وفات کے وقت جب کہ آپﷺ کا جسمِ مبارک ابھی وہیں تھا حضرت بلالؓ نے اذان دینے کی کوشش کی لیکن جب اشد ان محمدرسول اللّہ پر پہنچے اور آپﷺ گھر سے نہ نکلے تو یہ منظر اس قدر غم ناک تھا کہ اذان دیتے ہوئے حضرت بلال ؓکو ہچکی لگ گئی، وہ اتنا روئے کہ باقی تمام صحابہؓ کو بھی رلا دیا۔

اگلے تین روز تک مسلسل آپ نے اذان دینے کی کوشش کی لیکن اشہد ان محمد رسول اللّہ پر پہنچ کر ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے تھے، آخر کار اسی صدمے میں آپ ؓ نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ آپﷺ کی وفات کے بعد حضرت بلالؓؓ نے مدینہ چھوڑ دیا تھا، وہ ان گلیوں کو رسول اللہ ﷺ کے بغیر دیکھ ہی نہیں سکتے تھے جہاں انہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ زندگی گزاری تھی۔ حضرت بلالؓؓ، حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے اور ان سے اجازت مانگی کہ وہ جانا چاہتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ مت جاؤ مجھے تمہاری ضرورت ہے لیکن حضرت بلالؓؓ نے جواب دیا کہ اے ابوبکرؓ! اگر آپ نے مجھے اپنے لیے خرید کر آزاد کیا تھا تو میں رک جاتا ہوں اگر اللہ کے لیے آزاد کیا تھا تو مجھے جانے دیجیے۔ چناںچہ آپ ؓ مدینہ کو الوداع کہہ گئے۔

اذانِ بلال اور مدینہ میں کہرام

ایک رات خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوئی۔ آپﷺ فرما رہے تھے کہ بلال! تم نے میرے پاس آنا چھوڑ دیا؟ حضرت بلال ؓنے اسی وقت مدینہ کا ارادہ کیا اور مسجدِنبوی میں حاضر ہوئے۔ حضرت حسن ؓو حسینؓ نے دیکھا تو اذان دینے کی فرمائش کی۔ حضرت بلالؓؓ نے ٹالنا چاہا لیکن رسول اللہﷺ کے نواسوں کی فرمائش تھی سو اذان شروع کی۔ مدینے میں کہرام مچ گیا۔ کچھ نے کہا کہ کیا رسول اللہ ﷺ واپس آگئے، لوگ اتنا روئے کہ داڑھیاں تر ہو گئیں۔ کہتے ہیں مدینے کی فضا اس سے زیادہ سو گوار پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ یہ واقعہ آپ ﷺ کی وفات کے کافی عرصے بعد پیش آیا تھا۔ حضرت بلال ؓنے دوبارہ کوشش کی کہ مدینہ میں ہی رہیں لیکن وہ مدینہ کو آپﷺ کے بغیر دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے، اس لیے واپس چلے گئے۔

بیت المقدس میں اذانِ بلالؓ

بیت المقدس جب فتح ہوا تو وہاں کے لوگوں نے اس شرط پر شہر کی کنجیاں دینے کی ہامی بھری کہ خود حضرت عمرؓ آئیں اور صلح کی شرائط طے کریں۔ یہاں پر تمام بڑے صحابہؓ موجود تھے۔ سب نے حضرت بلالؓ سے دوبارہ اذان کی فرمائش کی، حضرت بلالؓؓ بہ مشکل مانے اور اذان دی۔ رسول اللہ ﷺ کے وقت کی یاد تازہ ہوگئی۔ وہ خود بھی روئے اور تمام موجود صحابہ ؓبھی روئے۔ یہ دو ہی بار تھا جب رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی اور کے کہنے پر حضرت بلالؓؓ نے اذان دی، اس کے بعد حضرت بلالؓؓ کی اذان نہ تو فرش والوں نے سنی نہ ہی عرش والوں نے۔ یہ فخر صرف بلال بن ابی رباحؓ کو حاصل ہے کہ جنہوں نے خانہ کعبہ میں، مسجدِ نبویﷺ میں اور مسجد اقصٰی میں، تینوں جگہ اذان دی، تینوں جگہ توحید کا اعلان کیا۔

وفاتِ حضرت بلال ؓ

حضرت بلالؓ کی وفات کے وقت جب ان کی بیوی نے یہ کہا کہ کیا ہی غم کا وقت ہے تو حضرت بلاؓل نے فرمایا نہیں یہ بہت خوشی کا وقت ہے، کل میں رسول اللہ ﷺ سے ملوں گا، اپنے ساتھیوں سے ملوں گا۔ حضرت بلالؓؓ دمشق میں20 ہجری میں اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے محبوب ﷺ سے ملنے چلے گئے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ نہ ہی ان کی کوئی جائیداد تھی۔ اصل میں فقر کے باعث وہ اپنے پیچھے کچھ نہ چھوڑ کر گئے سوائے اذان کے جو قیامت تک تمام مسلمانوں کو ان کی یاد دلاتی رہے گی۔

دمکتا رہے تیرے روضے کا منظر

سلامت رہے تیرے روضے کی جالی

ہمیں بھی عطا ہو وہ شوقِ ابوذرؓ

ہمیں بھی عطا ہووہ جذبہ بلالی ؓ

حضرت بلال ؓکی قربانیاں اور نبی پاک ﷺ سے محبت ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کے کرداروافکار سے اسلام کو طاقت ملی ہے۔ اللہ پاک ہمیں بھی حضرت بلال ؓ جیسا عشق مصطفی نصیب فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں