کرومبر کنارے ایک سرد رات

شمالی علاقہ جات کے حسین نظاروں میں ایک مسافرت


حارث بٹ August 18, 2024
شمالی علاقہ جات کے حسین نظاروں میں ایک مسافرت ۔ فوٹو : فائل

(تیسری قسط)

غزال نے ایک بار پھر چلنا شروع کر دیا۔ پتا چلا کہ اب بس ہم لشکر گاہز پہنچے ہی چاہتے ہیں۔ اس میدان میں جہاں کبھی چینوں اور تبتیوں کی لڑائی ہوئی تھی۔ دوپہر ڈھل چکی تھی، سہہ پہر اور شام کے درمیان مذاکرات جاری تھے کہ جب ہمارے دائیں جانب ایک جھیل نمودار ہوئی جس میں ایک چھوٹے سے پہاڑ کا خوبصورت سا عکس بنا ہوا تھا۔

یہ حیدر جھیل تھی۔ جی آپ نے ٹھیک سنا، یہ حیدر جھیل ہی تھی۔ لوگوں کے لیے بے شک نہیں تھی مگر میرے لئے یہ حیدر جھیل ہی تھی۔ حیدر میرے من پسند شخصیات میں سے ایک شخص تھا۔ حیدر کو میں چپ چاپ بہت سالوں سے دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دو طرح کے لوگ بہت بھاتے ہیں۔ ایک وہ جو خطرناک حد تک سنجیدہ ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو خطرناک حد تک غیر سنجیدہ ہوتے ہیں۔ جو دنیا کے لوازمات کو، اس کی مشکلوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ ڈنکے کی چوٹ پر اپنی زندگی جیتے ہیں اور چپ چاپ مر جاتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان پائے جانے والے مرد ہمیشہ کنفوز ہوتے ہیں۔ نہ زندگی کو اچھی طرح جی پاتے ہیں اور نہ انھیں سکون کی موت نصیب ہوتی ہے۔

میرا شمار بھی ان ہی طرح کے درمیان والے مردوں میں ہوتا ہے۔ حیدر کا شمار پہلی طرح کے مردوں میں ہوتا تھا۔ کم از کم چار سالوں سے یہ میری نظروں میں تھا۔ بات کرتا تھا تو انتہائی سنجیدگی سے۔ خامی بس اس میں ایک ہی تھی۔ وہ بولتا بہت تھا اور زیادہ بولنے والے مرد اور خاص کر سفر میں زیادہ بولنے والے مرد مجھے تقریباً تقریباً زہر ہی لگتے ہیں۔ دورانِ سفر شروع شروع میں بعض لمحات وہ بھی آئے کہ حیدر بولتا چلا جاتا تھا، بولتا چلا جاتا تھا اور میرا دل چاہ رہا ہوتا تھا کہ میں اس بندے کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہوں کہ بھائی، خدا کا واسطہ ہے چپ کر جا۔ علی عمر کے ساتھ سفر کرتے ہوئے مجھے گمان ہوتا تھا کہ علی عمر سے زیادہ کون بولتا ہو گا مگر حیدر نے علی عمر کا بھی ریکارڈ توڑ دیا تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ حیدر اور علی عمر کا کوئی مقابلہ ہی نہ تھا۔



حیدر کا نام اچھا بھلا مدثر خان تھا مگر نہ جانے اس مدثر خان کو کیا سوجھی کہ وہ حیدر علی بن گیا۔ ہم سب کو ہی اپنی اپنی سوچ کے مطابق اپنے جسم میں، اپنی سوچ میں تبدیلی کا حق حاصل ہے تو مدثر خان سے حیدر علی تک کے سفر پر بحث کیسی۔

تو ہم حیدر جھیل کے کنارے کھڑے تھے جس میں ایک پہاڑ اپنا عکس دیکھ رہا تھا۔ حیدر جھیل ایسی پیاری تھی کہ اسے کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ صاف ستھرا آسمان، آسمان پر چند سفید روئی جیسے بادل، ایک طرف پہاڑوں کا ایک مکمل سلسلہ اور دوسری طرف میں حیدر جھیل کے کنارے کھڑا تھا۔ حیدر مجھ سے کچھ فاصلے پر ہی کھڑا تھا بلکہ صورت حال کچھ یہ تھی کہ سب ساتھی بمعہ حیدر، جھیل کے ایک کونے پر کھڑے تھے جب کہ میں اکیلا حیدر جھیل کے دوسرے کنارے پر کھڑا تھا۔ مجھے کسی کے ساتھ کی ضرورت بھی نہ تھی۔ میرے لئے میرا تخیل ہی بہت تھا۔ میرے لئے یہی بہت تھا کہ حیدر ان سب کے ساتھ تھا جب کہ میرے ساتھ پوری کی پوری حیدر جھیل تھی۔ حیدر جھیل۔۔۔۔یعنی ایک پوری کائناتی جھیل۔ میں چپ چاپ جھیل کے کنارے بیٹھ گیا۔ دوسرے کونے پر سے دوسرے ساتھیوں کے ہنسنے بولنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ میری طرف سے جھیل اور پہاڑوں کا نظارہ ہی الگ تھا۔ یقیناً دوسری طرف سے بھی اچھا ہی نظارہ ہوگا۔

مجھے تنہا بیٹھا دیکھ کر دو بروغل واسی میرے پاس آ گئے اور تصاویر بنوانے لگے۔ ان دونوں کو دیکھ کر مجھے شدت سے احساس ہوا کہ دنیا میں ایک تیسری طرح کے مرد بھی ہوتے ہیں اور ایسے مرد صرف اور صرف وادیِ بروغل میں ہی پائے جاتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد میں نے حیدر جھیل کو چھوڑا اور حیدر کا ہاتھ تھامے جیپ پر سوار ہوگیا۔

اب کی بار جو غزال چلی تو سچ مچ لشکر گاہز آ گیا۔ ایک ہرا بھرا بڑا سا میدان جس کے آغاز پر ہی آپ کو لشکر گاہز کا ایک بورڈ ملے گا اور کچھ ہی فاصلے پر ایک دوسرا بورڈ بھی لگا ہو گا جو کہ آپ کو کرومبر تک کا فاصلہ 26 کلومیٹر بتاتا ہے حالاں کہ بنتا یہ تقریباً 23 کلو میٹر ہے۔ لشکر گاہز بالکل اس ملاں کی بستی کی طرح ہے جو دودھی پت سر جاتے ہوئے راستے میں پڑتی ہے۔ نہ جانے آج یہ ملاں کی بستی کیسی ہوگی مگر 2019 میں جب میں نے ملاں کی بستی دیکھی تھی تو آج جو میں لشکر گاہز دیکھ رہا تھا، ان دونوں میں زیادہ خوب صورت اور ترقی یافتہ لشکر گاہز ہی تھا۔ ایک چھوٹا سا گارے سے بنا ہوا ہوٹل، جو بنیادی طور پر ان لوگوں نے اپنے رہنے کے لیے گھر بنایا ہوا تھا اور ہمارے لیے باہر ٹینٹ لگا ہوا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی سامنے جانوروں کے لیے چارے کا کمرا تھا۔

دائیں جانب مڑتے ہی ایک بڑا سا ہال تھا جس کے تین اطراف میں چھوٹے چھوٹے کمرے بنے تھے جب کہ ایک طرف کچن تھا۔ اب آپ کمروں کو عام کمروں کی طرح بالکل مت سمجھیے گا۔ وہی گارے کے کمرے جن میں بس گدے پڑے تھے۔ اصل میں پورا گھر مقامیوں کا تھا جیسے کہ میں نے اوپر بھی بتایا مگر یہاں چوں کہ ساتھ ہی کچن تھا اور درودیوار بھی گارے کے تھے، خواہ گارے مٹی کے ہی تھے، کم از کم تھے تو۔ اس لیے مجھے ٹینٹ میں سونے سے بہتر لگا کہ یہیں ایک کونے میں پڑا رہوں۔ میں نے اعلان کردیا کہ بھائی ہم تو رات یہیں کریں گے۔ ایک مقامی جو ہمارا باورچی بھی تھا، ہنس پڑا۔ کہنے لگا ہمارے ساتھ سو لو گے؟ میں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔ میری دیکھا دیکھی سب نے ہی اس گھر میں رہنے کا اعلان کردیا۔ ان سب مقامی لوگوں کی محبت کہ سب ایک رات کے لیے باہر شفٹ ہوگئے اور ہم لوگ پوری ایک رات کے لیے لشکر گاہز کے اکلوتے محل پر قابض ہوگئے۔

ہمارے دروازے پر ایک کالا ریچھ نما کتا بیٹھا تھا۔ جسامت اس کی ریچھ جیسی تو نہیں تھی مگر شکل ضرور تھی۔ اس کتے پر مجھے فوکسی کی طرح پیار تو نہیں آ رہا تھا مگر یہ کتا اتنا برا بھی نہ تھا۔ بس چپ چاپ سا کتا تھی۔ یہی بات فوکسی اور اس میں مشترک تھی کہ دونوں بالکل خاموش رہتے تھے، نہ دم ہلاتے تھے، نہ بھونکتے تھے، ہمارے دروازے پر پڑے رہتے تھے جیسے کہ ہمارے ہی در کے کتے ہوں۔ میں تو ان دونوں کو بہت شریف کتا سمجھتا رہا۔ یہ راز بہت بعد میں کھلا کہ یہ دونوں کتے تو بہت ہی زیادہ کتے تھے۔ یہ خاموش تو تھے مگر معصوم اور کیوٹ بالکل بھی نہ تھے بلکہ یہ ہماری نگرانی اور حفاظت پر مامور کتے تھے۔

یہ جو فوکسی تھا ناں، یہ بڑا خطرناک کتا تھا۔ کہتے ہیں کتا جب نہ دم ہلائے، نہ بھونکے، خاموش اور سنجیدہ ہو اور اپنے گھر کی حدود میں ہو تو بہت زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اسے مالک کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ مہمان ہیں آرام سے بیٹھو، اس لیے ہمارے دونوں کتے مہمانوں کے احترام میں چپ اور سنجیدہ تھے لیکن اگر ہم اکیلے بغیر اس کے مالکان کی موجودگی میں گھر کی حدود میں داخل ہوتے تو ہمیں لگ پتا جاتا۔ یہ کتے صرف اپنی حدود کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کی ذمے داری ہوتی ہے کہ کوئی اجنبی ان کے مالک کے گھر کے قریب بھی نہ آئے۔

حیدر کو صبح جلدی اٹھنے کی عادت تھی۔ لشکر گاہز میں صبح کے وقت جب مالک بھی سوئے تھے تو حیدر ایک چٹان پر چڑھ گیا لیکن وہ کالا کتا اس کے پاس آ گیا اور اسے سونگھنے لگا اور دم بھی نہیں ہلا رہا تھا۔ حیدر رفتہ رفتہ قدم پیچھے ہٹ کر ایک پتھروں سے بنے کمرے میں داخل ہوگیا اور یقین جانیں یہ کتا باہر ہی کھڑا رہا جیسے انتظار میں ہو۔ ہم اس کتے کے مالکان کے مہمان تھے اور یہ بات وہ بھی جانتا تھا لیکن وہ اکیلے میں حیدر پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھا۔ اسے اپنے مالکان کی طرف سے عطا کی ڈیوٹی نبھانی تھی، لہٰذا اس سے قطع نظر کہ ہم مالکان کے مہمان تھے وہ ہم پر کڑی نظر رکھ کر اپنا فرض نبھا رہا تھا۔ وہ ہم پر اتنی آسانی سے بھروسا نہیں کر رہا تھا۔ حیدر کو واپس کمرے تک (وہ بھی بغیر کاٹے احترام اور نرمی کے ساتھ) پہنچا گیا کہ زیادہ فری نہ ہوں اور براہ کرم اپنی حدود میں رہیں ذرا۔

حیدر کی عادت صبح کے وقت نکلنے کی تھی لیکن یہ بہت صبح تھی۔ یہ کتا بہت دور سے حیدر کے پاس آیا حالاں کہ پچھلے دن بھی ملا تھا مگر تب کوئی خوف محسوس نہ ہوا لیکن صبح سویرے آ کر بالکل قریب ہو کر اسے سونگھنے لگا اور وہ اپنے کپڑے بچا کر اسے NO NO بول رہا تھا۔

دل سے اللّہ سے دعا کر رہا تھا، یااللّہ بچانا یہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے، کیوںکہ دم نہیں ہلا رہا اور اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ سیریس موڈ میں ہے۔ پھر حیدر ایک قدم پیچھے ہوا اور یہ کتا بھی اور ایسے آہستہ آہستہ حیدر بھاگنے کی بجائے چلتے ہوئے کمرے کے دروازے تک آگیا اور فوراً سے اندر جا کر دروازہ بند کردیا۔

پھر پانچ منٹ بعد نکلا تو کتا وہیں تھا۔ پھر اندر آیا اور دس منٹ بعد دیکھا تو وہیں دروازے پر تھا جیسے انتظار میں ہو۔ حیدر نے پانی کی ایک بوتل نکالی اور دروازہ کھول کر اس پر پھینکی۔ تو یہ بھاگ گیا اور جب دور گیا تو کچھ چھوٹے پتھر سے اس کو دور بھگایا، کیوںکہ اسے باہر تو نکلنا ہی تھا اور ہم سب کے اٹھنے میں ابھی دیر تھی۔ پھر اس نے ایک اسٹک اٹھا لی اور باہر نکلا آیا اور پھر یہ کتا کافی دور چلا گیا لیکن اس کی جسامت اور منہ دیکھ کرخوف آتا تھا۔



لشکر گاہز پہنچے پر جو نوڈلز کھائے، تو ذرا فریش ہوئے۔ سب دوست آلتی پالتی ہوکر بیٹھ گئے اور کل کے ٹریک کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ ہلکا پھلکا مذاق سب دوستوں میں ہونے لگا۔ یہ بھی باتیں ہونے لگیں کہ کل کا ٹریک ایک دن میں کرنا ہے یا دو دنوں میں۔ ہمیں کمپنی کی طرف سے جو پلان ملا تھا وہ یہی تھا کہ ہم سب صبح آرام سکون سے ناشتہ کر کے لشکر گاہز سے نکلیں گے۔ مٹر گشت کرتے ہوئے ہم لالہ رباط پہنچیں گے، رات وہیں کیمپ کریں گے۔ پھر اگلے دن صبح سویرے اٹھ کر لالہ رباط سے کرومبر جائیں گے۔ رات وہیں کیمپ کریں گے اور تیسرے روز واپس سیدھا جھیل سے کرومبر پہنچیں گے۔

تقریباً سبھی دوستوں نے ہی ٹریک کے بارے معلومات لی ہوئی تھیں۔ سبھی نے اسے دودھی پت سے بھی ہلکا مگر اس سے لمبا قرار دیا تھا۔ سبھی ممبران کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ ہم سارا ٹریک دو دنوں کی بجائے ایک دن میں کریں گے۔ سب ہی جوان اور فِٹ تھے۔ میں نے بھی دو دن کا ٹریک ایک ہی دن میں کرنے کی حامی بھر لی۔ ایک وہ منصوبہ تھا جو میرے گروپ والوں نے کل کے لیے بنایا تھا، ایک وہ منصوبہ تھا جو میں اپنے لیے گھر سے بنا کر چلا تھا۔

میں نے آج تک جتنے بھی ٹریک کیے ہیں، ان سب کا کریڈٹ یقینی طور پر خذیفہ کو ہی جاتا ہے۔ مجھے ٹریک پر چلانا بس اسی کا کام ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ وہ مجھے دودھی پت سر کیسے اتنا چلا کر لے گیا مگر اسے یہ آرٹ آتا تھا۔ مکڑا ٹریک اسی نے مجھے کروایا اور پھر وادیِ سرن کا بلیجہ ٹریک بھی۔ سب کھانے پینے کے لوازمات اس کے پاس ہوتے تھے۔ وہ مجھے کچھ کچھ دیر بعد کچھ میٹھا کھانے کو دیتا رہتا۔ راہ نمائی کرتا کہ کہاں کہاں لمبے قدم لینے ہیں اور کہاں چھوٹے۔ کہاں تیز چلنا ہے اور کہاں بس رینگ کر چلنا ہے۔ صرف ٹریک ہی نہیں، زندگی کے بہت سے کام بس خذیفہ نے ہی مجھ سے کروائے ہیں۔ ورنہ مجھ سمیت کسی میں اتنی جرأت نہ تھی کہ مجھ سے یہ کام لیتا۔ مگر اب اس کا چکر پاکستان کچھ کچھ کم لگتا ہے، اس لیے مجبوراً مجھے کرومبر اکیلے ہی جانا پڑا ورنہ میں اکیلے کبھی بھی کرومبر نہ جاتا۔ اب اگر حذیفہ میرے ساتھ نہیں تھا تو مطلب میں کرومبر ٹریک نہیں کر سکتا تھا۔ آپ اسے بے شک میرا نفسیاتی مسئلہ کہہ لیں یا کچھ اور۔ خذیفہ نہیں تھا، اس کا توڑ میں نے نکال لیا تھا اور یہ جگاڑ کرنے پر میرے پورے آٹھ ہزار اُڑ گئے۔

لشکر گاہز کی صبح ہی نرالی تھی۔ ایک وسیع لمبائی کی طرز کا میدان جس کے دونوں طرف پہاڑ تھے۔ ہمارے دائیں جانب جو پہاڑ تھے، ان کے پار گلگت بلتستان تھا جب کہ ہمارے بائیں جانب جو پہاڑی سلسلہ تھا، اس کے پیچھے افغانستان تھا۔ ہم پیچھے سے سیدھا سیدھا آئے تھے اور اب ہمیں پھر بالکل سیدھا جانا تھا۔ وادی بروغل کا آخری اسکول لشکر گاہز میں ہے۔ اسکول کیا ہے، ایک خوب صورت سا لکڑی کا hut بنا ہوا ہے جس کے اندر ہی لکڑی کی کچھ تقسیم کر کے چار چھوٹے چھوٹے کمرے بنائے گئے ہیں۔ کسی کلاس میں تین چار بچے تھے اور کسی کلاس میں فقط دو۔ صبح اسمبلی میں تقریباً چودہ سے پندرہ طلباء تھے، دو تین بچے بعد میں شامل ہوگئے۔

آپ دنیا کے جس کونے میں چلے جائیں، آپ کو اسکول دیر سے آنے والے بچے ضرور ملیں گے۔ کچھ بچے میری طرح کے ہوتے ہیں جن کا اسکول جانے کو ذرا دل نہیں چاہتا، جن کا بس چلے تو ہر روز اسکول سے چھٹی ہو۔ یقین مانیں میں بھی ان ہی بچوں میں سے ایک کیوٹ سا بچہ تھا اور یہاں لشکر گاہز میں بھی میں نے دو بچے ایسے دیکھے جو اس وقت اسکول آ رہے تھے جب ساری اسمبلی ختم ہوچکی تھی۔ جب میری نظر اسکول کی اسمبلی پر پڑی تو فوراً اسکول کا رخ کیا مگر چوں کہ فاصلہ زیادہ تھا تو میں بھی آج پھر اسمبلی میں ذرا دیر سے پہنچا۔ بچوں نے پہلے اپنی مقامی زبان میں کچھ دعائیہ الفاظ ادا کیے اور پھر اپنے ہی لہجے میں قومی ترانہ پڑھنے لگے۔

اسکول کے اکلوتے استاد اسمبلی کو پاس کھڑے ہی دیکھ رہے تھے۔ کمال حیرت کی بات یہ تھی چھوٹے چھوٹے بچے بغیر استاد کی مدد کے قومی ترانہ خود پڑھ رہے تھے۔ قومی ترانے کے دوران ہی پانچویں جماعت کے دو لڑکے پرچم کشائی والی جگہ کھڑے ہوگئے۔ ایک لڑکا پرچم کشائی کرنے لگا اور دوسرا اپنے مخصوص انداز میں پرچم کو سیلوٹ کرنے لگا۔ سلام ہے اس استاد پر جو اکیلے ہی اس پورے اسکول کو لے کر چل رہا ہے۔ اسمبلی کے بعد میں استاد کی اجازت سے اسکول میں چلا گیا۔ اسی ایک Hut میں لکڑی سے ہی چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے تھے۔ استاد باری باری سب کلاسز میں جاتا اور بچوں کی حاضری لگاتا اور باری باری سب کلاسز کو کام کرواتا۔

مجھے اپنے ناشتے کی فکر ہونے لگی۔ اگرچہ کہ میں ناشتے کا کوئی زیادہ شوقین نہیں ہوں مگر پھر بھی دو تین نوالے اور ایک کپ چائے تو لازم ہے ناں۔

میں اپنے ہوٹل (حالاں کہ وہ ہوٹل کم اور ایک محل زیادہ لگتا تھا۔ آپ اگر ایک بار لشکر گاہز دیکھ لیں تو یہ ہوٹل آپ کو محل ہی لگے گا) واپس پہنچا تو ناشتہ بس لگا ہی چاہتا تھا۔ میں زندگی میں پہلی بار پراٹھے کے ساتھ جام کھا رہا تھا۔ تجربہ پہلا تھا مگر اچھا تھا۔ بیگ کا وزن کم کرنے کے لیے کچھ فالتو اور استعمال شدہ کپڑے بیگ سے باہر نکال دیے۔ سب نے اپنا سامان ہوٹل سے باہر رکھا اور ٹریک شروع کرنے سے پہلے دعائیں کرنے لگے۔ لشکرگاہز سے بھی آگے تقریباً تین کلو میٹر تک جیپ ٹریک ہے۔

ہم سب جیپ میں بیٹھے اور تھوڑا مزید جھولا لینے لگے۔ تین کلو میٹر کے بعد میدان پگڈنڈی میں بدل گیا۔ غزال رک گئی اور ہمیں بھی سامان سمیت نیچے اتار دیا گیا۔ شہداء میں نام لکھوانے کے لیے میں بھی دو چار قدم چل ہی پڑا حالاں کہ نیت میری ذرا بھی نہ تھی۔ دھوپ رفتہ رفتہ رفتہ تیز ہو رہی تھی۔ جہاں ایک بڑی چٹان آئی، میں اور میڈم ثمرین وہیں رک گئے، قافلے کو ہم نے آگے جانے دیا۔ میں نے سَن بلاک لگایا بھی تھا مگر مجھے لگتا ہے کہ یا تو میرا سَن بلاک ذرا کم کوالٹی کا تھا یا پھر میری جلد ہی کچھ زیادہ نازک ہے۔ دھوپ چبھنے لگی تھی۔ میں نے پیر ودھائی سے جو صافہ لیا تھا، اسے اپنے سر پر لے لیا، گلاسز بھی لگا لیے مگر سب نا کافی رہا۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھے بھی باقیوں کی طرح ایک بڑا سا ہیٹ لینا چاہیے تھا۔

ہمارے دائیں جانب جو پہاڑ تھے بلا کے خوب صورت تھے۔ کہیں کہیں گلیشیئر بھی تھے جن کی برف سے پانی رِس رِس کر نالے میں شامل ہورہا تھا۔ ارے ہاں ہمارے دائیں ہاتھ ایک نالا بھی تو ساتھ چل رہا تھا جو آگے چل کر دریائے چترال میں شامل ہوجاتا تھا۔ کہتے ہیں یہیں کہیں چنتر گلیشیئر بھی ہے جہاں سے دریائے چترال شروع ہوتا ہے اور پھر بہت سے چھوٹے بڑے نالے اور دریائے یارخون، دریائے مستوج سمیت دریائے چترال میں شمال ہوجاتے ہیں اور یہ دریائے چترال ہم سب سے نظریں بچا کر تقریباً تقریباً ہم سے غداری کرتے ہوئے افغانستان کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے دریائے کابل میں جا گرتا ہے، مگر قربان جاؤں میں اس پٹھان دریا پر جو دریائے چترال سمیت نہ جانے کون کون سے چھوٹے موٹے ندی، نالے اور دریا سمیٹ کر پاکستان واپس آ جاتا ہے اور پھر اٹک کے مقام پر دریائے سندھ کے ساتھ مل جاتا ہے۔

ہم کچھ دیر کے لیے اسی بڑی چٹان پر سستانے لگے کہ تھوڑی دیر بعد ہی تین گھوڑے والے آ گئے، جنھیں سیف اللہ نے لشکر گاہز سے ہمارے لیے روانہ کیا تھا۔ کیوں کیا تھا؟ کیوں نے ہم نے گھوڑے بُک کروائے تھے۔ بھائی اب مجھ سے نہیں چلا جاتا تو کیا کرتا؟ کرومبر دیکھے بنا ہی مرجاتا؟ کس کتاب میں لکھا ہے کہ کرومبر تک جانے کے لیے آپ کو ٹریک ہی کرنا پڑے گا۔ کسی بھی کتاب میں نہیں لکھا ناں تو پھر میں اپنی نازک نازک ہرن جیسی ٹانگوں پر بوجھ کیوں ڈالتا۔ گھوڑے والی عیاشی میسر تھی، سو یہ عیاشی کر لی۔ وہ الگ بات ہے کہ یہ عیاشی مجھے پورے آٹھ ہزار میں پڑی۔

میں نکما انسان تو لشکر گاہز جا کر کچھ زیادہ مٹ گشت نہ کر سکا مگر آپ یقین مانیں کہ لشکر گاہز میں بہت کچھ ہے۔ میں نے تو اپنی زندگی ہمیشہ ڈر ڈر کر ہی گزاری ہے۔ جب ہم لشکر گاہز پہنچے تو تقریباً بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر تھے اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے بس میری سانس اب رکی کے تب رکی۔ رات جب ہم وہاں کے واحد ہوٹل میں سو رہے تھے تو اکثر مجھے اپنا منہ کھولنا پڑتا تھا کہ ناک سے سانس نہیں لی جارہی تھی۔ آپ اگر لشکر گاہز جائیں تو جیپ سے اترتے ہی ہوٹل میں جا کر لَم لیٹ نہ ہوجائیں۔ اگر آپ لشکر گاہز پہنچ چکے ہیں اور آپ کو کچھ نہیں ہوا تو یقین مانیں آپ کو آگے بھی کچھ نہیں ہوگا۔

اس لیے ذرا ہمت کر اور لشکر گاہز کی آس پاس کی پہاڑیاں چڑھیں اور یہاں کی سات جھیلیں بھی دیکھیں۔ مانا کہ آپ گھر سے کرومبر دیکھنے کے واسطے ہی گھر سے نکلے ہیں مگر ساتھ اپنی کچھ محنت سے اگر آپ کو کچھ زیادہ مل سکتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ ویسے تو آپ کو اصولی طور پر ایک پورا دن لشکر گاہز پر لگانا چاہیے، اگر آپ کسی ٹور کمپنی کے ساتھ جا رہے ہیں تو یہ کسی صورت بھی ممکن نہیں ہو گا۔ پھر بھی کوشش کریں کہ کچھ نہ کچھ وقت لشکرگاہز کو ضرور دیں۔

اپنے دائیں جانب نیچے اتریں اور نالے تک چلے جائیں۔ میرے تو خیال میں وہاں جانا مشکل نہیں۔ شاید وہاں اترا جا سکتا ہے۔ چٹانوں پر چڑھیں، وہاں سے سورج کے طلوع ہونے یا غروب ہونے کا نظارہ دیکھیں۔ مقامی لوگوں سے معلومات لے کر لشکر گاہز کی سات جھیلوں تک جائیں۔ لشکر گاہز میں ایک سرمئی رنگ کے پانیوں والی جھیل ہے جس کے اطراف کی گھاس زمین کے نیچے دلدل ہونے کی وجہ سے کافی نرم ہے، جس کے اطراف کی پہاڑیاں پامیر کی پہاڑیوں سے مماثلت رکھتی ہیں۔ لشکر گاہز میں ہی ایک بڑی نیلے پانیوں کی جھیل ہے جس کے پیچھے آپ درہ درکُوت کو بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ ایک جھیل تو ایسی ہے جس کے گہرے نیلے پانیوں کے ساتھ ساتھ ایک طرف رَتے پھول بھی کھلے ہوئے ہیں۔ ایک جھیل ایسی بھی ہے جو دو حصوں میں تقسیم ہے، مگر اصل میں وہ ایک ہی ہے البتہ یہاں پانی کم ہے۔

جہاں اب ہم تھے، یہ یاک سرائے تھا۔ یاک گائے کی طرح کا ایک ایسا جانور ہے جس کے جسم پر لمبے لمبے بال ہوتے ہیں اور یہ وادی بروغل میں ہی پایا جاتا ہے۔ ہر جان دار کی طرح یاک کی بھی مونث ہے جسے خوش گائے کہا جاتا ہے۔ یاک، بکرے، بھیڑیں سارا دن انھی میدانوں میں چرتی رہتی ہیں اور پھر شام سے ذرا پہلے خوش گائے اپنے مالک کے گھر کا رخ کرتی ہے۔ انھیں ایسی تربیت دی جاتی ہے کہ شام سے پہلے ہی خوش گائے گھر چلی آتی ہے۔ اس کا دودھ دھویا جاتا ہے اور پھر کھلے میدان میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یاک کے جسم پر لمبے لمبے بال اسے وادی کی سردی سے بچاتے ہیں۔

ہم بے شک وادیِ بروغل میں بالکل سیدھا سیدھا چل رہے تھے مگر یہاں بھی بالکل ہمارے گلی محلوں کی طرح علاقے بٹے ہوئے تھے۔ ایک خطہ شواشیر آیا جہاں ہمارے گائیڈ نجیب اللہ اور سیف اللہ کی بقیہ فیمیلی رہتی تھی۔ ہمارے گھوڑوں کو ان گھروں کی طرف موڑ دیا گیا۔ یہاں بہت سی بکریاں اور بھڑیں تھیں۔ خواتین ان کا باری باری دودھ دھو رہی تھیں۔ جانوروں کی حفاظت کے لیے ایک عدد شریف کتا بھی تھا جو کتا تو تھا مگر شریف کسی صورت نہ تھا۔ بات وہی ہے کہ ہم چوں کہ اس کتے کے مالک کے ساتھ ان کے گھروں میں داخل ہوئے تھے، اس لیے وہ چپ چاپ شریف بچوں کی طرح بیٹھا رہا۔ اگر ہم اکیلے اس جانب آتے تو یقیناً یہ ہمیں اچھی طرح بتاتا کہ وہ کس قدر کتا، کتا تھا۔

( جاری ہے )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔