نریندر مودی کی خطرناک پیشکش
نریندر مودی نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جو خطرناک عوام دشمن فیصلے کرنے شروع کیے ہیں
نریندر مودی نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جو خطرناک عوام دشمن فیصلے کرنے شروع کیے ہیں ان میں تازہ اور انتہائی خطرناک فیصلہ جدید اسلحہ بنانے کے لیے غیر ملکی دفاعی کمپنیوں کو مالکانہ حقوق کے ساتھ بھارت میں اسلحہ سازی کی فیکٹریاں کھولنے کی پیشکش ہے۔ نریندر مودی کی یہ پیشکش مغربی ملکوں کے لیے اس قدر ترغیب انگیز ہے کہ امریکا، برطانیہ، فرانس وغیرہ نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہوئے اس نرالی پیشکش سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنے اعلیٰ سطح کے نمائندے بھارت بھیجنا شروع کر دیے ہیں۔
بی جے پی بھارت کو مہابھارت بنانے کے جس ایجنڈے پر کام کر رہی ہے غیر ملکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو مالکانہ حقوق کے ساتھ بھارت میں اسلحے کے کارخانے لگانے کی پیشکش اسی خطرناک ایجنڈے کا حصہ ہے۔ دنیا میں جو عالمی جنگیں لڑی جا چکی ہیں اور جن میں کروڑوں انسان مارے گئے اس میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا کردار رہا ہے اور دور حاضر میں جو جنگیں لڑی جا رہی ہیں ان میں بھی ہتھیار خواہ وہ روایتی ہوں یا جدید ترین بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ عراق اور افغانستان کی حالیہ جنگوں میں جو لاکھوں انسان مارے گئے ان انسانوں کو نہ تیر تلوار سے مارا گیا، نہ نیزوں اور بلموں سے مارا گیا، یہ لاکھوں انسان جدید ترین ہتھیاروں ہی سے قتل کیے گئے۔
جنوبی ایشیا دنیا کا ایک پسماندہ ترین خطہ ہے، اس خطے کے ملکوں خصوصاً ہندوستان اور پاکستان جن علاقائی تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں، اس کی وجہ سے یہ ملک ہتھیاروں کی ایک ایسی دوڑ میں شامل ہیں جو ان غریب ملکوں کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ کھاتی جا رہی ہے۔ دنیا میں ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے خلاف تحریکیں چل رہی ہیں، اس تناظر میں نریندر مودی حکومت یہ بدترین فیصلہ اس خطے کو ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے ایسے مرکز میں بدل دے گا جس کے خطرناک مضمرات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
پتھر کے دور کے انسان نے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے شکار کرنے کے لیے پتھر کے ہتھیار بنائے تھے اس وحشی اور غیر مہذب انسان نے پتھر کے ہتھیار انسانوں کو قتل کرنے کے لیے نہیں بنائے تھے، لیکن پھر بھی وہ غیر مہذب اور وحشی کہلایا۔ آج کا مہذب انسان انسانوں کے قتل عام کے لیے جو جدید ترین ہتھیار بنا رہا ہے کیا اس کا یہ عمل مہذبانہ ہے یا وحشیانہ؟
میں ان ملکوں کو کیا نام دوں جو ہتھیاروں کے آرڈر کے حصول کے لیے اسلحے کی نمائش منعقد کرتے ہیں۔ ایک ناخواندہ اور جاہل انسان بھی اس بدنما حقیقت سے واقف ہے کہ ہتھیار خواہ وہ ایک معمولی ٹی ٹی کی شکل میں ہو یا F-16 یا F-17 کی شکل میں یا ایٹم بموں کی شکل میں یہ سب انسانوں کو قتل کرنے کے لیے ہی بنائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص دانستہ یا نادانستہ کسی کو قتل کر دیتا ہے تو وہ قاتل کہلاتا ہے اور عدالت اسے سزائے موت دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاکھوں انسانوں کو مختلف حیلوں، مختلف بہانوں سے قتل کرنے کا سامان فراہم کرنیوالوں کو کیا نام دیا جانا چاہیے اور ان مجرموں کو کیا سزا دی جانی چاہیے؟
جنگیں خواہ وہ بیسویں صدی کی عالمی جنگیں ہوں یا اکیسویں صدی کی عراق افغانستان کی جنگیں، یہ ساری جنگیں ہتھیاروں سے لڑی گئیں اور کروڑوں معصوم انسان ان کا ایندھن بن گئے، جنگوں میں بین الاقوامی معاہدوں اور اخلاقی ضابطوں کے خلاف ورزی کرنیوالوں کو جنگی مجرم قرار دے کر انھیں کڑی سزائیں ہی نہیں دی جاتیں بلکہ ان جنگی مجرموں کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے لیکن یہ جنگی مجرم جن ہتھیاروں کے استعمال سے جنگی اخلاقیات کی خلاف ورزی کرتے ہیں یہ ہتھیار وہی مہذب انسان تیار کرتے ہیں جن کا واحد مقصد بے تحاشا منافع کا حصول ہوتا ہے۔ جو اسلحے کی صنعت کے مالک ہوتے ہیں اور اسلحے کی تجارت سے اربوں کھربوں ڈالر کماتے ہیں۔
بھارت کو پاکستان سے یہ شکایت ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا اڈہ بنا ہوا ہے، بھارت برسوں سے ممبئی حملوں کے مجرموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے، دہشت گرد جن کا تعلق خودکش حملوں سے ہو یا ممبئی حملوں سے ہتھیاروں کے ذریعے ہی یہ قابل نفرت جرم کرتے ہیں۔ کیا بھارتی حکومت یہ مطالبہ نہیں کر سکتی کہ ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت پر ہی پابندی لگا دی جائے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ حکومتیں خواہ کسی بھی ملک کی ہوں عموماً ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں جو کسی عوام دشمن مسئلے کی گہرائی اور گیرائی میں جانے کی زحمت نہیں کرتے بلکہ جنگوں اور اس کے متعلقات کے فیصلے تنگ نظری تعصب کی بنیاد پر کرتے ہیں یہی وہ المیہ ہے جو دنیا میں جنگوں اور قتل و غارت گری کو جنم دیتا ہے۔ہتھیار کے بغیر جنگوں کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
بھارت کے موجودہ حکمران ایک گاؤ ماتا (گائے) کی ہتیا (ہلاکت)کو قومی جرم مانتے ہیں اور اس کا ارتکاب کرنیوالوں کو خون میں نہلا دیتے ہیں، یہی حکومت ملک میں اسلحے کی صنعت لگانے والے غیر ملکیوں کو مالکانہ حق دینے کے لیے تیار ہے۔ اگر غیر ملکی اسلحہ ساز اس فراخدلانہ پیش کش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جدید اسلحے کے کارخانے کھولتے ہیں تو ان کارخانوں میں تیار ہونیوالے جدید ہتھیاروں کے انبار کیا گاندھی جی کے اہنسا کے فلسفے کے کام آئیں گے یا دنیا بھر میں جنگوں، انسانوں کے قتل میں کام آئیں گے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بھارتی حکومت کے جنگجو تو غور کرنے کی زحمت نہیں کر سکتے لیکن ہمیں حیرت ہے کہ کیا بھارت کا دانشور، بھارت کا مفکر، بھارت کا فلسفی، بھارت کا ادیب، بھارت کا شاعر، بھارت کا فنکار، بھارت کی سول سوسائٹی سب کو سانپ سونگھ گیا ہے؟
میڈیا میں آنیوالے اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی 36 لاکھ سے زیادہ ناریاں جسم فروشی پر مجبور ہیں، بھارت کے لاکھوں غریب کسان قرضوں کی ادائیگی نہ کر پانے کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہیں، بھارت کے لاکھوں انسان غذا نہ ملنے اور علاج کی سہولتوں سے محرومی کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہے ہیں، حاملہ عورتیں مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ سے زچگی کے دوران موت کا شکار ہو رہی ہیں، بھارت میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنیوالوں کی تعداد 40 فیصد سے بڑھ کر 54 فیصد ہوگئی ہے۔
اس ننگے بھوکے بھارت کو مہان بھارت بنانے کے دعویدار ایسے گھٹیا اور خطرناک فیصلے کر رہے ہیں جو بھارت اس خطے اور ساری دنیا میں ان ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت میں اضافے کا سبب بنیں گے، جس کا واحد مقصد ہر بہانے انسانوں کا قتل ہے اور اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہتھیار بنانیوالے بھی غریب طبقات سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ ہتھیار استعمال کرنیوالوں کا تعلق بھی غریب طبقات ہی سے ہوتا ہے اور ہتھیاروں سے مارے جانے والے بھی غریب ہی ہوتے ہیں۔ کیا اس کلچر اور اس کے مہیب اثرات پر غور کرنے اور حکمرانوں کی ناک میں نکیل ڈالنے والا کوئی نہیں؟
مغربی ملک جس منڈی کی معیشت میں زندہ ہیں اس کی پہلی ترجیح منافع اور صرف منافع ہے، بھارت نے مالکانہ حقوق کے ساتھ مغرب کو اسلحے کے کارخانے قائم کرنے کی جو پیش کش کی ہے وہ مغربی ملکوں کے لیے اس قدر پرکشش اور منافع بخش ہے کہ وہ اس پیشکش سے فائدہ اٹھانے میں ذرا سی دیر نہیں کریں گے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس وغیرہ کے اعلیٰ سطح کے اہلکار بھارت پہنچ رہے ہیں اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ مغربی اسلحے کی صنعت کے مالکان بلاتاخیر اس پیشکش سے فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن اہل خرد کے ذہنوں میں صرف ایک سوال ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کا تیار کردہ اسلحے کا یہ انبار کہاں استعمال ہو گا؟ کس پر استعمال ہو گا؟
بی جے پی بھارت کو مہابھارت بنانے کے جس ایجنڈے پر کام کر رہی ہے غیر ملکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو مالکانہ حقوق کے ساتھ بھارت میں اسلحے کے کارخانے لگانے کی پیشکش اسی خطرناک ایجنڈے کا حصہ ہے۔ دنیا میں جو عالمی جنگیں لڑی جا چکی ہیں اور جن میں کروڑوں انسان مارے گئے اس میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا کردار رہا ہے اور دور حاضر میں جو جنگیں لڑی جا رہی ہیں ان میں بھی ہتھیار خواہ وہ روایتی ہوں یا جدید ترین بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ عراق اور افغانستان کی حالیہ جنگوں میں جو لاکھوں انسان مارے گئے ان انسانوں کو نہ تیر تلوار سے مارا گیا، نہ نیزوں اور بلموں سے مارا گیا، یہ لاکھوں انسان جدید ترین ہتھیاروں ہی سے قتل کیے گئے۔
جنوبی ایشیا دنیا کا ایک پسماندہ ترین خطہ ہے، اس خطے کے ملکوں خصوصاً ہندوستان اور پاکستان جن علاقائی تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں، اس کی وجہ سے یہ ملک ہتھیاروں کی ایک ایسی دوڑ میں شامل ہیں جو ان غریب ملکوں کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ کھاتی جا رہی ہے۔ دنیا میں ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے خلاف تحریکیں چل رہی ہیں، اس تناظر میں نریندر مودی حکومت یہ بدترین فیصلہ اس خطے کو ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے ایسے مرکز میں بدل دے گا جس کے خطرناک مضمرات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
پتھر کے دور کے انسان نے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے شکار کرنے کے لیے پتھر کے ہتھیار بنائے تھے اس وحشی اور غیر مہذب انسان نے پتھر کے ہتھیار انسانوں کو قتل کرنے کے لیے نہیں بنائے تھے، لیکن پھر بھی وہ غیر مہذب اور وحشی کہلایا۔ آج کا مہذب انسان انسانوں کے قتل عام کے لیے جو جدید ترین ہتھیار بنا رہا ہے کیا اس کا یہ عمل مہذبانہ ہے یا وحشیانہ؟
میں ان ملکوں کو کیا نام دوں جو ہتھیاروں کے آرڈر کے حصول کے لیے اسلحے کی نمائش منعقد کرتے ہیں۔ ایک ناخواندہ اور جاہل انسان بھی اس بدنما حقیقت سے واقف ہے کہ ہتھیار خواہ وہ ایک معمولی ٹی ٹی کی شکل میں ہو یا F-16 یا F-17 کی شکل میں یا ایٹم بموں کی شکل میں یہ سب انسانوں کو قتل کرنے کے لیے ہی بنائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص دانستہ یا نادانستہ کسی کو قتل کر دیتا ہے تو وہ قاتل کہلاتا ہے اور عدالت اسے سزائے موت دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاکھوں انسانوں کو مختلف حیلوں، مختلف بہانوں سے قتل کرنے کا سامان فراہم کرنیوالوں کو کیا نام دیا جانا چاہیے اور ان مجرموں کو کیا سزا دی جانی چاہیے؟
جنگیں خواہ وہ بیسویں صدی کی عالمی جنگیں ہوں یا اکیسویں صدی کی عراق افغانستان کی جنگیں، یہ ساری جنگیں ہتھیاروں سے لڑی گئیں اور کروڑوں معصوم انسان ان کا ایندھن بن گئے، جنگوں میں بین الاقوامی معاہدوں اور اخلاقی ضابطوں کے خلاف ورزی کرنیوالوں کو جنگی مجرم قرار دے کر انھیں کڑی سزائیں ہی نہیں دی جاتیں بلکہ ان جنگی مجرموں کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے لیکن یہ جنگی مجرم جن ہتھیاروں کے استعمال سے جنگی اخلاقیات کی خلاف ورزی کرتے ہیں یہ ہتھیار وہی مہذب انسان تیار کرتے ہیں جن کا واحد مقصد بے تحاشا منافع کا حصول ہوتا ہے۔ جو اسلحے کی صنعت کے مالک ہوتے ہیں اور اسلحے کی تجارت سے اربوں کھربوں ڈالر کماتے ہیں۔
بھارت کو پاکستان سے یہ شکایت ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا اڈہ بنا ہوا ہے، بھارت برسوں سے ممبئی حملوں کے مجرموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے، دہشت گرد جن کا تعلق خودکش حملوں سے ہو یا ممبئی حملوں سے ہتھیاروں کے ذریعے ہی یہ قابل نفرت جرم کرتے ہیں۔ کیا بھارتی حکومت یہ مطالبہ نہیں کر سکتی کہ ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت پر ہی پابندی لگا دی جائے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ حکومتیں خواہ کسی بھی ملک کی ہوں عموماً ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں جو کسی عوام دشمن مسئلے کی گہرائی اور گیرائی میں جانے کی زحمت نہیں کرتے بلکہ جنگوں اور اس کے متعلقات کے فیصلے تنگ نظری تعصب کی بنیاد پر کرتے ہیں یہی وہ المیہ ہے جو دنیا میں جنگوں اور قتل و غارت گری کو جنم دیتا ہے۔ہتھیار کے بغیر جنگوں کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
بھارت کے موجودہ حکمران ایک گاؤ ماتا (گائے) کی ہتیا (ہلاکت)کو قومی جرم مانتے ہیں اور اس کا ارتکاب کرنیوالوں کو خون میں نہلا دیتے ہیں، یہی حکومت ملک میں اسلحے کی صنعت لگانے والے غیر ملکیوں کو مالکانہ حق دینے کے لیے تیار ہے۔ اگر غیر ملکی اسلحہ ساز اس فراخدلانہ پیش کش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جدید اسلحے کے کارخانے کھولتے ہیں تو ان کارخانوں میں تیار ہونیوالے جدید ہتھیاروں کے انبار کیا گاندھی جی کے اہنسا کے فلسفے کے کام آئیں گے یا دنیا بھر میں جنگوں، انسانوں کے قتل میں کام آئیں گے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بھارتی حکومت کے جنگجو تو غور کرنے کی زحمت نہیں کر سکتے لیکن ہمیں حیرت ہے کہ کیا بھارت کا دانشور، بھارت کا مفکر، بھارت کا فلسفی، بھارت کا ادیب، بھارت کا شاعر، بھارت کا فنکار، بھارت کی سول سوسائٹی سب کو سانپ سونگھ گیا ہے؟
میڈیا میں آنیوالے اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی 36 لاکھ سے زیادہ ناریاں جسم فروشی پر مجبور ہیں، بھارت کے لاکھوں غریب کسان قرضوں کی ادائیگی نہ کر پانے کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہیں، بھارت کے لاکھوں انسان غذا نہ ملنے اور علاج کی سہولتوں سے محرومی کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہے ہیں، حاملہ عورتیں مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ سے زچگی کے دوران موت کا شکار ہو رہی ہیں، بھارت میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنیوالوں کی تعداد 40 فیصد سے بڑھ کر 54 فیصد ہوگئی ہے۔
اس ننگے بھوکے بھارت کو مہان بھارت بنانے کے دعویدار ایسے گھٹیا اور خطرناک فیصلے کر رہے ہیں جو بھارت اس خطے اور ساری دنیا میں ان ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت میں اضافے کا سبب بنیں گے، جس کا واحد مقصد ہر بہانے انسانوں کا قتل ہے اور اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہتھیار بنانیوالے بھی غریب طبقات سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ ہتھیار استعمال کرنیوالوں کا تعلق بھی غریب طبقات ہی سے ہوتا ہے اور ہتھیاروں سے مارے جانے والے بھی غریب ہی ہوتے ہیں۔ کیا اس کلچر اور اس کے مہیب اثرات پر غور کرنے اور حکمرانوں کی ناک میں نکیل ڈالنے والا کوئی نہیں؟
مغربی ملک جس منڈی کی معیشت میں زندہ ہیں اس کی پہلی ترجیح منافع اور صرف منافع ہے، بھارت نے مالکانہ حقوق کے ساتھ مغرب کو اسلحے کے کارخانے قائم کرنے کی جو پیش کش کی ہے وہ مغربی ملکوں کے لیے اس قدر پرکشش اور منافع بخش ہے کہ وہ اس پیشکش سے فائدہ اٹھانے میں ذرا سی دیر نہیں کریں گے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس وغیرہ کے اعلیٰ سطح کے اہلکار بھارت پہنچ رہے ہیں اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ مغربی اسلحے کی صنعت کے مالکان بلاتاخیر اس پیشکش سے فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن اہل خرد کے ذہنوں میں صرف ایک سوال ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کا تیار کردہ اسلحے کا یہ انبار کہاں استعمال ہو گا؟ کس پر استعمال ہو گا؟