پاکستان 1947 سے لے کر فارم 47 کے زمانے تک مسلسل بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ یہ سلسلہ رکا نہیں اور ملک میں آج بھی ایک بحرانی کیفیت موجود ہے لیکن اس مرتبہ حالات نے یہ نیا رخ ضرور اختیار کیا کہ پاکستان کو سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی تکلیف دہ معاشی صورتحال نے بھی گھیر رکھا ہے۔
گزشتہ کئی برس سے جاری معاشی بدحالی کی شدت میں فی الحال کسی قسم کی کمی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ مہنگائی، نت نئے ٹیکسوں کے نفاذ، پہلے سے موجود ٹیکسوں کی شرح میں کئی گنا اضافے اور سب سے بڑھ کر بجلی کے بھاری بلوں کی ادائیگی نے ہر کسی کو پریشان کر رکھا ہے۔ اضطراب اور افراتفری کے اس ماحول میں بہت سے لوگ اب تمام مسائل کا حل کسی انقلاب میں تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
انقلاب کے تصور سے ہی کچھ لوگوں کو اتنا عشق ہوچکا ہے کہ اگر لاطینی امریکا کے کسی ملک، ترکی، لیبیا، عراق، ایران، افغانستان سمیت دنیا کے جس حصے یا خطے میں بھی کوئی بڑی تبدیلی آجائے، ہمارے لوگ اپنے ہاں اس تصوراتی انقلاب کی راہیں تکنا شروع کردیتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے خلاف حالیہ کامیاب عوامی انقلاب نے ہمارے یہاں بہت سے لوگوں کے دل میں انقلابی خواہش کو اور زیادہ بڑھاوا دے دیا ہے۔
سوشل میڈیا انقلابی مباحثوں سے بھرا پڑا ہے مگر زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو پاکستان میں دور دور تک کسی انقلاب کے آثار نظر نہیں آتے، البتہ قومی سطح پر ایک انتشار ضرور موجود ہے جو خدا جانے کب تک برقرار رہے گا۔ اس وقت موجود انتشار اور اس کے درمیان انقلاب کی خواہشات آپس میں اس طرح خلط ملط ہوچکی ہیں کہ انہوں نے معاشرے میں عجیب سا کنفیوژن پیدا کردیا ہے۔ لوگوں میں کسی بڑی تبدیلی کی خواہش ضرور موجود ہے مگر اس کےلیے جو مطلوبہ لوازمات ہونے چاہئیں وہ دستیاب نہیں، نہ ہی عوام وہ فراہم کرنے کو آمادہ نظر آتے ہیں۔ جب تک عوام کی غالب اکثریت کسی کام کےلیے آمادہ نہ ہو تو پھر کہاں کی تبدیلی اور کیسا انقلاب؟
معاشرے میں قول و فعل کا تضاد عام ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہی سمجھا جائے گا کہ ہم اپنے حکمرانوں کو تو اسلام کے اولین دور کے متقی اور پرہیز گار حاکموں کی طرح بہت ہی ایماندار اور نیک دیکھنا چاہتے ہیں لیکن نچلی عوامی سطح تک خود رمضان جیسے متبرک مہینے میں ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی سے باز آنا تو درکنار اسے برا تک محسوس نہیں کرتے۔ حالیہ چند برسوں کے دوران قومی سیاست میں عام لوگوں کو کئی بار دھوکادہی اور سیاسی مکروفریب کا سامنا کرنا پڑا۔ اس عرصے میں بکثرت دو نمبر انقلابی پروڈکٹ بھی عوام کے سامنے آتی رہیں جس کے بعد عام شہری بھی سیاسی نوسر بازوں سے بہت زیادہ چوکنا ہوگئے ہیں۔ وہ سیاسی رہنماؤں کو ان کی تجویز کردہ تبدیلی کا ذریعہ بننے کا آسرا ضرور دیتے ہیں لیکن جب آزمائش کا وقت آتا ہے وہ میدان عمل میں نکلنے کے بجائے گھروں میں بیٹھ کر صرف سوشل میڈیا پر جدوجہد کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ ممکن ہے وہ اپنے لیے یہ طریقہ زیادہ سہل اورمحفوظ سمجھتے ہوں۔
عام پاکستانیوں کے سامنے ایسے کئی انقلابیوں کی مثالیں موجود ہیں جو سادہ لوح عوام کو انقلاب کی نوید سناتے رہے، شدید گرم اور سرد موسم میں ان کے پیروکاروں کو کڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ موقع غنیمت پاکر اچانک انقلاب کو راستے میں ہی لاوارث چھوڑ کر امریکا اور کینیڈا جابسے اور اس وقت وہاں بڑی پُرآسائش زندگی بسر کررہے ہیں۔
تاریخ اور عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بہت سے سیانوں سے جب پاکستان میں انقلاب کے امکان کی بابت دریافت کیا جائے تو وہ کسی ماہر طبیب کی طرح جو صرف علامات کی بنیاد پر ہی آدھے مرض کی باآسانی تشخیص کرلیتا ہے، الٹا یہ سوال پوچھنا شروع کردیتے ہیں کہ کیا شہر اور دیہاتوں میں لوگوں نے ہوشربا گرانی کے اس دور میں 90 روپے کی دودھ پتی چائے کا ایک کپ پینا ترک کردیا یا اس میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے؟ کیا ڈھائی پونے تین سو روپے فی لیٹر پٹرول ہونے کے باوجود سڑکوں پر ٹریفک کی آمد و رفت میں کوئی کمی واقع ہوئی؟ غریب سے غریب بستیوں میں نت نئی فوڈ اسٹریٹ کے قیام کا سلسلہ بند ہوگیا؟ کراچی جیسے بڑے شہر میں جو انقلابی تحریکوں میں قائدانہ کردار ادا کرتا رہا ہے، کیا وہاں سیلانی اور چھیپا کے مفت دسترخوان بند ہوئے یا شہر کے مزارات پر زردے اور بریانی کی دیگوں کا لنگر اسی طرح جاری و ساری ہے؟
جس ملک میں کبھی پیلی ٹیکسیوں، کبھی لیپ ٹاپ، کبھی سولر سسٹم اور کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسی اسکیمیں چل رہی ہوں اور نوجوانوں کو سرکاری محکموں میں ہزاروں بھرتیوں کا آسرا دیا جارہا ہو، وہاں نوجوان کسی انقلاب کے بارے میں سوچیں گے یا اپنی ذات کی فکر کریں گے؟
بلاشبہ مہنگائی پاکستان کا بہت سنگین اور تکلیف دہ مسئلہ ہے لیکن مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اب لوگوں نے اس کا سامنا کرنے کےلیے جائز اور ناجائز دونوں طریقے اپنانے شروع کردیے ہیں۔ جو سرکاری اہلکار پہلے جس شرح سے رشوت لیتا تھا مہنگائی کے تناسب سے اس نے اس میں اضافہ کردیا ہے، اسی طرح غریب اور متوسط طبقے کے لوگ زیادہ محنت کرکے، گھر کے زیادہ سے زیادہ افراد کو روزی کمانے پر لگاکر مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ روتے پیٹتے ہی سہی سب کا گزارا کسی نہ کسی طور پر چل رہا ہے۔ جب تک گزارے والا معاملہ چل رہا ہے اور بات اس سے آگے نہیں بڑھتی، اس وقت تک یہ توقع کرنا کہ لوگ تبدیلی کےلیے سڑکوں پر آجائیں گے شاید حقیقت پسندانہ سوچ نہ ہو۔
کئی سیاسی جماعتیں حالیہ دنوں میں خالصتاً عوامی ایشوز پر عوام کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کررہی ہیں جن میں خاص طور پر جماعت اسلامی کا مہنگائی اور بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف موجودہ احتجاجی دھرنا بھی شامل ہے۔ اس سے قبل بھی وہ لوگوں کو دعوت دیتی رہی ہے کہ وہ عوامی مسائل پر گھروں سے باہر نکلیں لیکن لوگ اس بڑی تعداد میں سڑکوں پر نہیں نکلے جو تعداد کسی بڑی تبدیلی کےلیے لازمی ہوتی ہے۔ ایسے میں انقلاب کی باتیں محض سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔