دیہی سندھ کا ایک تاریخی گاؤں… آخری حصہ
شروع کے دنوں میں ڈچ پادری گھوڑوں اور اونٹوں کی سواری پر زمینیں گھومنے جاتے اور گاؤں کی گلیوں میں پیدل چلتے،
KARACHI:
شروع کے دنوں میں ڈچ پادری گھوڑوں اور اونٹوں کی سواری پر زمینیں گھومنے جاتے اور گاؤں کی گلیوں میں پیدل چلتے، جب کہ بھینسوں اور گائے کا دودھ کسانوں میں بانٹا جاتا۔ فادر ٹوبیس کسی بھی غیر شخص کو گاؤں آنے نہیں دیتے تھے۔ 1941-42 میں جب حروں اور انگریزوں کی فوج کے درمیان یہ علاقہ میدان جنگ بنا رہا، متعدد گاؤں اور فصلوں کو آگ لگادی گئی، ریلیں پٹریوں سے اتاری گئیں، تو پادریوں نے سورج غروب ہونے کے بعد اپنے گاؤں والوں کو باہر نکلنے سے منع کردیا۔ ان کی زمینوں کی سرحدیں شمال میں لغاریوں کے گوٹھ، مغرب میں دیھ کھڈواری جنوب میں میان اور مشرق میں مٹھڑاؤ کینال تک جا ملتیں۔
اس باؤنڈری پر پولیس اور فو ج کا پہرا تھا، یہاں تک کہ پادری گوٹھ میں موجود جھاڑیوں والے ٹیلوں میں سرنگوں میں پادری رات گزارتے جب کہ اردگرد کے چھوٹے گاؤں کے مکینوں کو بھی حفاظت کی خاطر پادری گوٹھ میں ٹھہرایا گیا۔ گوٹھ میں مشنری کا تنخواہ یافتہ چوکیدار ماڑو مقرر کیا گیا، جو رات کو ایک ہاتھ میں لالٹین تو دوسرے ہاتھ میں لاٹھی اٹھا کر جاگتے رہو کی آوازیں دیتا رہتا۔ نرسوں کے انکار کے باوجود ڈسپینسری بند کرکے ان کو واپس کراچی بھیج دیا گیا۔ 1943ء میں تھرپارکر کے کلکٹر نے لیٹر بھیج کر پادریوں کو بھی گاؤں چھوڑنے کا مشورہ دیا، لیکن انھوں نے انکار کردیا۔
اس دوران فصلیں تباہ ہوگئیں، مال مویشی ادھر ادھر گھومتے رہے۔1944 میں انگریزوں نے مکھی کے باقی علاقے میں ریٹائرڈ فوجیوں کی کالونیاں بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح پادریوں نے بھی اپنا گاؤں شفٹ کرنا چاہا لیکن مشنری انچارج فادر ہرمس بیمار پڑگیا اور 15 فروری 1944 کو انتقال کرگئے، اس لیے یہ کام نہ ہوسکا۔ اس کے بعد پادری گارڈین آیا۔ دسمبر 1944 میں مشنری نے گاؤں کے لوگوں کا خرچہ اٹھانے سے انکار کردیا، تاہم ان کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے800 ایکڑ زمین ان میں بانٹ دی گئی۔ اس دوران نوجوان پادری برادر ہوم لیس آیا، جس نے گاؤں کو مثالی بنانے کے لیے منصوبہ بندی کی۔ اس دورن پاکستان وجود میں آیا۔
سال1947-48 گاؤں کے لیے اہم رہے، جب اس وقت کے ڈچ پادری فادر فلیس، جو انجینئر بھی تھے، نے شاندار گنبد والا چرچ، پادریوں کی رہائش گاہ، ڈسپینسری اور نرسوں کی رہائش گاہ بہترین آرکیٹیکچر کی شکل میں پکے بنوائے۔ یہ وہ وقت تھا جب آس پاس کے علاقوں میں پکی بلڈنگ تک موجود نہ تھی۔ اس خوبصورت چرچ کو دیکھنے کے لیے دور دور سے سیاح آتے، سندھی فلم شہید کا ایک سین بھی وہیں شوٹ کیا گیا۔ اس چرچ کو بنانے والا مستری شکارپور کا برکت موریانی تھا، جو سانگھڑ میں پکی بلڈنگیں بنانے کا ماہر تھا، پادری نے بھی انعام کے طور پر اسے ولایتی گھڑی دی۔ آج بھی پورے سانگھڑ کے علاقے میں اس کی بنی ہوئی شاندار عمارتیں کھڑی ہیں۔
اس برکت مستری کی وجہ سے گوٹھ کے کئی لوگ رازے بن گئے، جن کی اولاد آج پورے ملک میں تعمیرات میں حصہ لے رہی ہے۔ 1953 میں پادریوں کی رہائش گاہ کے سامنے چھوٹے بڑے پودے درخت، پہلی بار الائچی اور کالی مرچ کے پودے بھی لگائے گئے، جنھیں دیکھنے کئی لوگ یہاں آتے۔ آج یہ باب ولایتی گوروں کے نہ ہونے کی وجہ سے ویران ہوچکا ہے۔ 1956 میں کنسنٹریشن کیمپوں سے حر آزاد ہوئے تو رونقیں واپس لوٹ آئیں، نرسیں کراچی سے واپس آگئیں، زنانہ بیماریوں کی یہ ماہر نہ صرف گاؤں بلکہ آس پاس کے علاقوں سے آئے ہوئےغریب لوگوں کا مفت علاج کرتیں۔
مالٹا سے تعلق رکھنے والی نرس مدر ایوالڈا سماجی خدمات کا ایک لازوال اور لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ یاد رہنے والا کردار ہے، وہ بغیر کسی مذہبی یا سماجی فرق کے کوئی بھی امیر ہو یا غریب، میلے کپڑوں یا ننگے پاؤں والا، عورت ہو یا مرد، دن ہو یا رات ہمیشہ مسکرا کر پیار بھرے لہجے میں مخاطب ہوتیں، مفت علاج تو کرتیں لیکن اگر کسی مریض کو ضرورت ہوتی تو خرچہ بھی دیتیں یا سانگھڑ سے علاج کراتیں۔
1950-60 میں برادر ہوم لیس نے چکنی مٹی سے تعمیرات کرنے والے اوڈ قبیلے کے لوگوں سے منصوبہ بندی کے تحت گھر، گلیاں اور راستے بنوائے، جو ایک دوسرے سے چوک پر ملتے، جہاں کریانہ، درزی، لوہار اور ترکھان کی دکانیں ہوتی تھیں، ڈرینیج سسٹم بھی متعارف کروایا۔ گاؤں کو پینے کے پانی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے کنواں کھدوایا، جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔ یہ پادری مشنری کی زمینوں کا حساب کتاب اپنے پاس رکھتے، زرعی اجناس بھی خریدتے۔ انتہائی شفیق طبیعت کے یہ انسان عید کے موقعے پر مسلم ہوں یا عیسائی، کسی آنے والے غریب کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔
80 کی دہائی میں لاہور بدلی ہوئی، تو ہزاروں روپے کے قرضے سب کو معاف کر کے چلے گئے۔ اسی دوران ایک اور محبوب شخصیت ڈچ پادری روپٹ آئے، جن کی کوششوں سے پہلی بار اس علاقے میں بجلی آئی، پکے روڈ بنے، کمیونٹی ہال تعمیر کیا گیا۔ 1975 میں پہلی بار بیٹری پر چلنے والا ٹی وی آیا، تو شام کے وقت مختلف گاؤں سے کئی لوگ دیکھنے آتے۔ جب 4 اپریل1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، تو گوٹھ کے کچھ لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا، جواب میں آس پاس سے آنے والے لوگوں نے انھیں اچھی خاصی پھینٹی لگائی، جس کے بعد یہ میلہ بھی ختم ہوگیا۔
پادری گوٹھ میں قائم پرائمری اسکول اور 1960 میں سانگھڑ شہر میں مشنری خاتون فاطمہ ہائی اسکول سے کئی پڑھے لکھے فارغ ہوکر نوکریوں پر لگ گئے۔ آج پادری گوٹھ کے لوگ ہیلتھ، ایجوکیشن، پولیس، انکم ٹیکس، سول ایوی ایشن وغیرہ سے لے کر دیگر ہنر اور محنت مزدوری تک ہر جگہ موجود ہیں۔ آج کل جو فیمینزم کا راگ الاپا جا رہا ہے، یہ ماحول کئی سال پہلے گوٹھ میں موجود تھا، جہاں لڑکیاں بڑی تعداد میں نرسیں، ٹیچرز اور پولیس آفیسرز کراچی سے لے کر لندن تک موجود ہیں۔
اندازہ لگائیے کہ960-70 میں جب پورے علاقے میں مسلمان بڑی نوکریوں پر نہیں تھے، تب بھی اس گوٹھ کے سیموئل جیمس تحصیلدار، خوشی محمد ایجوکیشن آفیسر، عنایت برونو آڈٹ آفیسر، ریفائیل جیمس ڈائریکٹر آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس تھے۔ آج بھی ان کی رشتے داریاں کراچی سے لے کر پنجاب تک پھیلی ہوئی ہیں، جب کرسمس آتا ہے، کئی حسین اور خوبصورت چہرے یہاں عید منانے آتے ہیں۔ کرسمس اور ایسٹر کے تہواروں کے موقعے پر آپ کو گاؤں میں اظہار کی آزادی، روشن خیالی، عورت کی آزادی، سیاسی اور سماجی شعور اور خوبصورتی آنکھوں میں بھائے گی۔ آج جب این جی اوز ملک کی ترقی میں سرگرم ہیں تو پادری گوٹھ کی کاریتاس بھی کسی سے کم نہیں۔
آج بھی اس گوٹھ کے لڑکے لڑکیاں پینٹ شرٹ اور جینز پہن کر گلیوں میں ٹہلتے ہیں، پاپ میوزک سنتے ہیں، جدید کھیل کھیلتے ہیں، اب یہاں کے لوگ سات سمندر پار برطانیہ، کینیڈا، جرمنی اور امریکا پہنچ چکے ہیں، مقامی حکومتوں میں بھی ان کا حصہ موجود ہے، تو کئی ہنرمند ہاتھ بھی لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ اب تو گیس بھی آچکا ہے، پادری گوٹھ کی رنگینیاں اور روشنیاں اور بھی بڑھ گئی ہیں۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے محسوس کریں گے جیسے یہ دیہات نہیں بڑے شہر کا کوئی پوش علاقہ ہے۔ کاش ہمارے وڈیرے اور سیاستدان بھی اس سے کچھ سبق سیکھ لیں۔