عورت کا مقام
قیام پاکستان سے قبل دہلی میں سید نواب علی کے پڑوس میں ایک انگریز بہادر کی کوٹھی تھی،
قیام پاکستان سے قبل دہلی میں سید نواب علی کے پڑوس میں ایک انگریز بہادر کی کوٹھی تھی، نواب صاحب اپنی عزت و شرافت کی وجہ سے خاصے مشہور تھے۔ ان کے ایک نوجوان نوکر کے عشق میں انگریز بہادر کی کم عمر صاحبزادی کب گرفتار ہوئی کسی کو علم نہیں، محبت کی پینگیں خاصی طویل ہوچکی تھیں اور اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب ایک رات انگریز بہادر خاصے غصے میں نواب صاحب کا دروازہ کھٹکھٹانے آئے، عام طور پر اس زمانے میں اتنی رات کو آج کل کی طرح نہ تو سیروتفریح کی جاتی تھی اور نہ ہی عزیز رشتے داروں کے یہاں دعوتیں منعقد ہوتی تھیں ۔
لہٰذا نواب صاحب خود دروازے پر پہنچے اور انگریز بہادر کو غصے میں لال پیلا دیکھ کر حیران رہ گئے، انگریز نے غصے سے کہا ''نواب صاحب آپ کا ڈیم فول نوکر میری بیٹی کو بھگا کر لے گیا کیا آپ کے یہاں (مسلمانوں کے یہاں سے مراد تھی) ایسا ہی ہوتا ہے؟'' یہ سن کر نواب صاحب کا سر شرم سے جھک گیا، انگریز تو دھمکیاں دیتا چلا گیا، لیکن انتہائی شریف النفس اور خاموش طبع نواب صاحب نے خود لکڑی کا بڑا سا لٹھ سنبھالا (لٹھ عام طور پر چوروں کو پکڑنے کے لیے برسوں پہلے بھی استعمال ہوتا تھا اور آج بھی ہوتا ہے) اور اپنے تمام نوکروں کے ساتھ اس نوجوان عاشق نوکر کی تلاش میں روانہ ہوگئے۔ نوکر اور انگریز لڑکی زیادہ دور نہ پہنچے تھے لہٰذا فوری گرفت میں آگئے۔
نواب صاحب اس انگریز کی بچی کو لے کر اس انگریز بہادر کے گھر گئے اور اس کی بیٹی اس کے حوالے کی اور کہا ''سنبھالیے اپنی بیٹی کو...ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا(مراد ہمارے یہاں بہن بیٹیوں کی بڑی عزت ہوتی ہے) وہ انگریز اس حادثے کے بعد جلد ہی اپنے دیس روانہ ہوگیا، لیکن سید نواب علی نے اپنے اسلامی تشخص پر چھینٹے اڑانے والے کو اپنی کم گفتگو کرنے کی عادت کے تحت انتہائی مختصر جواب دیا جو ہر لحاظ سے مکمل اور مدلل تھا۔
ایسا ہوسکتا تھا کہ نواب صاحب کے دل میں خیال ابھرتا کہ اس طرح ایک مسلمان میں اضافہ ہوجائے گا اگر وہ انگریز کم عمر لڑکی ان کے نوکر کے ساتھ شادی کرلے۔ ظاہر ہے شادی کے لیے اسے مسلمان ہونا پڑے گا اور اس طرح وہ ایک عیسائی کو اسلام کے دائرہ کار میں لاکر اوپر والے کی نظر میں سرخرو ہوسکتے ہیں لیکن انھوں نے ایسا نہ سوچا کیونکہ اس وقت ان کے ذہن میں اسلام میں عورت کے مقام پر بحث چل رہی تھی۔
تمام مذاہب سے زیادہ اسلام نے عورت کو بلند درجے پر فائز کیا ہے اور اس طرح سے اگر دیکھا جائے تو مرد پر عورت کی بھاری ذمے داری ڈالی ہے کہ اس کے حقوق کا مکمل خیال رکھا جائے اور اگر اسے اس کے مقام سے گرایا جائے گا تو پروردگار کی نظر میں اس کا مقام بھی کم ہوجائے گا۔ اسلام میں بیٹیوں کو اسی لیے رحمت کہا گیا ہے کیونکہ قبل ازاسلام عرب دورجاہلت میں اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کردیتے تھے، اور مغرب میں پہلے بھی اور آج بھی عورت کی حیثیت ٹشوپیپر کی سی ہے۔
یقینا محبت ایک خوبصورت جذبہ ہے لیکن اگر اس میں جذبات کی شدت آجائے تو یہ ایک وقتی ابال بھی بن جاتا ہے، جب کہ شادی ایک مکمل معاشی اور مذہبی اعتبار سے ایک ایسا مضبوط کنٹریکٹ ہے جسے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر سائن کیا جاتا ہے اور اس کے بعد محبت حقوق و فرائض کے خوبصورت پیرائے میں بدل جاتی ہے ۔دراصل یہی حقوق و فرائض تو اس محبت کے امین ہوتے ہیں، شادی کے بعد محبوب مجازی خدا بن جاتا ہے اس عاشقانہ دور سے نکل کر زندگی کی اصل حقیقت میں دھوپ اور چھاؤں کا بھی احساس ہوتا ہے۔ لہٰذا محض شادی کے کنٹریکٹ حاصل کرنے کے لیے مذہب کا قبول کرنا کبھی ایک جذباتی فیصلہ بھی بن جاتا ہے، جب کہ مذہب اسلام کا تعلق دل سے لے کر شعبہ زندگی کے تمام مدارج سے ہوتا ہے۔
یہ ایک مکمل پیکیج ہے جو انسان کو زندگی گزارنے کے تمام باسلیقہ اصول سکھاتا ہے، نواب صاحب کا واقعہ اسی اصل حقیقت سے متعلق ہے انگریزکی بیٹی نوکر کے ظاہری حسن سے متاثر ہوئی تھی یہ اس کی کم عمری کا بھی تقاضا تھا، میں نے کئی بار اس نقطے پر بھی سوچا تو پھر مجھے قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی میں اس حقیقت کی جھلک نظر آئی جب انھوں نے اپنی بیوی کے بالغ ہونے تک کا انتظار کیا یہ وہ عرصہ بھی تھا جب ایک کم عمر لڑکی نے پورے ہوش کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کیا اور اپنے بالغ ہونے کے بعد اپنے پورے ہوش و حواس میں مذہب اسلام قبول کیا اور قائد اعظم سے شادی کی تھی۔ یہ اسلام کی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہے کہ اس مذہب میں زور زبردستی کی گنجائش نہیں۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے لاہور میں ماڈل ٹاؤن جیسے پوش علاقے میں جو کچھ بھی ہوا انتہائی لرزہ خیز تھا۔ ایک پرسکون پرامن شہر جہاں عام لوگوں کو اپنی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے صبح سے رات گئے تک بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ وہیں ایک بڑے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس فورس نے اپنی جانب سے بہت بڑا اقدام کر ڈالا، ایسا پہلی بار نہیں ہوا، ایسا ہوتا رہا ہے لوگ پولیس کے ڈنڈوں اور لاتوں جوتوں سے پٹتے رہے ہیں یہ اس ملک کا دستور ہے ہماری قوم تو اب عادی ہوچکی ہے لیکن جس بڑے بینر تلے خواتین اس میدان میں اتریں اور پھر ان کے ساتھ جو سلوک ہوا کسی کی ماں جان سے گئی تو کسی کی بیٹی، لیکن جس انداز میں ہماری قوم کی مسلمان ماں بیٹیوں کے ساتھ سلوک ہوا کیا وہ اس کی حقدار تھیں؟
سید نواب علی ایک عام سے سادہ مسلمان تھے میں نے بچپن سے انھیں بہت کم بولتے دیکھا تھا وہ سر پر صرف نماز کے وقت ٹوپی پہنتے یا مسجد سے گھر آتے ہوئے پہنتے، پینٹ شرٹ پہنتے تھے یا شرٹ یا پائجامہ زیب تن کرتے جب بچپن میں میری والدہ مرحوم ان کے گھر سے آئیں تو وہ خود انھیں چھوڑنے آتے۔ سید نواب علی میرے نانا مرحوم تھے۔ بچپن سے یہ قصہ سنتی آئی ہوں لیکن ان کا یہ جملہ آج بہت شدت سے یاد آرہا ہے۔ ''ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا'' کاش ہم سب یہ سمجھ لیں اپنے اپنے مفاد سے بالاتر ہوکر۔
لہٰذا نواب صاحب خود دروازے پر پہنچے اور انگریز بہادر کو غصے میں لال پیلا دیکھ کر حیران رہ گئے، انگریز نے غصے سے کہا ''نواب صاحب آپ کا ڈیم فول نوکر میری بیٹی کو بھگا کر لے گیا کیا آپ کے یہاں (مسلمانوں کے یہاں سے مراد تھی) ایسا ہی ہوتا ہے؟'' یہ سن کر نواب صاحب کا سر شرم سے جھک گیا، انگریز تو دھمکیاں دیتا چلا گیا، لیکن انتہائی شریف النفس اور خاموش طبع نواب صاحب نے خود لکڑی کا بڑا سا لٹھ سنبھالا (لٹھ عام طور پر چوروں کو پکڑنے کے لیے برسوں پہلے بھی استعمال ہوتا تھا اور آج بھی ہوتا ہے) اور اپنے تمام نوکروں کے ساتھ اس نوجوان عاشق نوکر کی تلاش میں روانہ ہوگئے۔ نوکر اور انگریز لڑکی زیادہ دور نہ پہنچے تھے لہٰذا فوری گرفت میں آگئے۔
نواب صاحب اس انگریز کی بچی کو لے کر اس انگریز بہادر کے گھر گئے اور اس کی بیٹی اس کے حوالے کی اور کہا ''سنبھالیے اپنی بیٹی کو...ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا(مراد ہمارے یہاں بہن بیٹیوں کی بڑی عزت ہوتی ہے) وہ انگریز اس حادثے کے بعد جلد ہی اپنے دیس روانہ ہوگیا، لیکن سید نواب علی نے اپنے اسلامی تشخص پر چھینٹے اڑانے والے کو اپنی کم گفتگو کرنے کی عادت کے تحت انتہائی مختصر جواب دیا جو ہر لحاظ سے مکمل اور مدلل تھا۔
ایسا ہوسکتا تھا کہ نواب صاحب کے دل میں خیال ابھرتا کہ اس طرح ایک مسلمان میں اضافہ ہوجائے گا اگر وہ انگریز کم عمر لڑکی ان کے نوکر کے ساتھ شادی کرلے۔ ظاہر ہے شادی کے لیے اسے مسلمان ہونا پڑے گا اور اس طرح وہ ایک عیسائی کو اسلام کے دائرہ کار میں لاکر اوپر والے کی نظر میں سرخرو ہوسکتے ہیں لیکن انھوں نے ایسا نہ سوچا کیونکہ اس وقت ان کے ذہن میں اسلام میں عورت کے مقام پر بحث چل رہی تھی۔
تمام مذاہب سے زیادہ اسلام نے عورت کو بلند درجے پر فائز کیا ہے اور اس طرح سے اگر دیکھا جائے تو مرد پر عورت کی بھاری ذمے داری ڈالی ہے کہ اس کے حقوق کا مکمل خیال رکھا جائے اور اگر اسے اس کے مقام سے گرایا جائے گا تو پروردگار کی نظر میں اس کا مقام بھی کم ہوجائے گا۔ اسلام میں بیٹیوں کو اسی لیے رحمت کہا گیا ہے کیونکہ قبل ازاسلام عرب دورجاہلت میں اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کردیتے تھے، اور مغرب میں پہلے بھی اور آج بھی عورت کی حیثیت ٹشوپیپر کی سی ہے۔
یقینا محبت ایک خوبصورت جذبہ ہے لیکن اگر اس میں جذبات کی شدت آجائے تو یہ ایک وقتی ابال بھی بن جاتا ہے، جب کہ شادی ایک مکمل معاشی اور مذہبی اعتبار سے ایک ایسا مضبوط کنٹریکٹ ہے جسے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر سائن کیا جاتا ہے اور اس کے بعد محبت حقوق و فرائض کے خوبصورت پیرائے میں بدل جاتی ہے ۔دراصل یہی حقوق و فرائض تو اس محبت کے امین ہوتے ہیں، شادی کے بعد محبوب مجازی خدا بن جاتا ہے اس عاشقانہ دور سے نکل کر زندگی کی اصل حقیقت میں دھوپ اور چھاؤں کا بھی احساس ہوتا ہے۔ لہٰذا محض شادی کے کنٹریکٹ حاصل کرنے کے لیے مذہب کا قبول کرنا کبھی ایک جذباتی فیصلہ بھی بن جاتا ہے، جب کہ مذہب اسلام کا تعلق دل سے لے کر شعبہ زندگی کے تمام مدارج سے ہوتا ہے۔
یہ ایک مکمل پیکیج ہے جو انسان کو زندگی گزارنے کے تمام باسلیقہ اصول سکھاتا ہے، نواب صاحب کا واقعہ اسی اصل حقیقت سے متعلق ہے انگریزکی بیٹی نوکر کے ظاہری حسن سے متاثر ہوئی تھی یہ اس کی کم عمری کا بھی تقاضا تھا، میں نے کئی بار اس نقطے پر بھی سوچا تو پھر مجھے قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی میں اس حقیقت کی جھلک نظر آئی جب انھوں نے اپنی بیوی کے بالغ ہونے تک کا انتظار کیا یہ وہ عرصہ بھی تھا جب ایک کم عمر لڑکی نے پورے ہوش کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کیا اور اپنے بالغ ہونے کے بعد اپنے پورے ہوش و حواس میں مذہب اسلام قبول کیا اور قائد اعظم سے شادی کی تھی۔ یہ اسلام کی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہے کہ اس مذہب میں زور زبردستی کی گنجائش نہیں۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے لاہور میں ماڈل ٹاؤن جیسے پوش علاقے میں جو کچھ بھی ہوا انتہائی لرزہ خیز تھا۔ ایک پرسکون پرامن شہر جہاں عام لوگوں کو اپنی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے صبح سے رات گئے تک بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ وہیں ایک بڑے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس فورس نے اپنی جانب سے بہت بڑا اقدام کر ڈالا، ایسا پہلی بار نہیں ہوا، ایسا ہوتا رہا ہے لوگ پولیس کے ڈنڈوں اور لاتوں جوتوں سے پٹتے رہے ہیں یہ اس ملک کا دستور ہے ہماری قوم تو اب عادی ہوچکی ہے لیکن جس بڑے بینر تلے خواتین اس میدان میں اتریں اور پھر ان کے ساتھ جو سلوک ہوا کسی کی ماں جان سے گئی تو کسی کی بیٹی، لیکن جس انداز میں ہماری قوم کی مسلمان ماں بیٹیوں کے ساتھ سلوک ہوا کیا وہ اس کی حقدار تھیں؟
سید نواب علی ایک عام سے سادہ مسلمان تھے میں نے بچپن سے انھیں بہت کم بولتے دیکھا تھا وہ سر پر صرف نماز کے وقت ٹوپی پہنتے یا مسجد سے گھر آتے ہوئے پہنتے، پینٹ شرٹ پہنتے تھے یا شرٹ یا پائجامہ زیب تن کرتے جب بچپن میں میری والدہ مرحوم ان کے گھر سے آئیں تو وہ خود انھیں چھوڑنے آتے۔ سید نواب علی میرے نانا مرحوم تھے۔ بچپن سے یہ قصہ سنتی آئی ہوں لیکن ان کا یہ جملہ آج بہت شدت سے یاد آرہا ہے۔ ''ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا'' کاش ہم سب یہ سمجھ لیں اپنے اپنے مفاد سے بالاتر ہوکر۔