نایاب نسل کے جانوروں کا تھرمل ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد سے پتہ لگانے کا آغاز
تھرمل ٹیکنالوجی جانوروں کے جسم سے خارج ہونے والی حرارت سے ان کا پتہ لگاتی ہے
پنجاب میں نایاب نسل کے کالے ہرن اور تلور کا جدید تھرمل ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد سے پتہ لگانے کا آغاز کیا گیا ہے، ماہرین کے مطابق نایاب کالے ہرن اور تلور دونوں ہی اپنی بقا کے خطرات سے دوچار ہیں۔
وزیراعلٰی پنجاب نے سینئر وزیر مریم اورنگزیب کی تجویز پر تھرمل ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کی ہدایت کی تھی، مریم اورنگزیب نے بتایا کہ جدید ماہرین کی مدد سے صوبہ پنجاب کے محکمہ جنگلی حیات نے تھرمل ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شروع کردیا ہے۔
تھرمل ٹیکنالوجی جانوروں کے جسم سے خارج ہونے والی حرارت سے ان کا پتہ لگاتی ہے، پنجاب وائلڈ لائف اینڈ پارکس ڈیپارٹمنٹ نے ابتدائی تصاویر حاصل کر لی ہیں اور آزمائشی آرٹی فیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کی مدد سے کالے ہرن کی تصاویر بھی حاصل کی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تمام جنگلی حیات کا سروے ہورہا ہے تاکہ ان کی تعداد، رہائش کے مقامات اور تحفظ کے لیے ضروری ڈیٹا حاصل ہوسکے، تھرمل ٹیکنالوجی اور اے آئی کے استعمال سے بقا کے خطرے سے دوچار جنگلی حیات کا تحفظ ممکن ہوسکے گا۔
گرین پاکستان پروگرام وائلڈلائف کے پراجیکٹ ڈائریکٹر مدثرحسن نے بتایا کہ تھرمل ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال اس وقت آسٹریلیا میں کیا جارہا ہے جبکہ ہمسایہ ملک انڈیا میں یہ ٹیکنالوجی صرف ٹائیگرز کے سروے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
وزیراعلٰی پنجاب نے سینئر وزیر مریم اورنگزیب کی تجویز پر تھرمل ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کی ہدایت کی تھی، مریم اورنگزیب نے بتایا کہ جدید ماہرین کی مدد سے صوبہ پنجاب کے محکمہ جنگلی حیات نے تھرمل ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شروع کردیا ہے۔
تھرمل ٹیکنالوجی جانوروں کے جسم سے خارج ہونے والی حرارت سے ان کا پتہ لگاتی ہے، پنجاب وائلڈ لائف اینڈ پارکس ڈیپارٹمنٹ نے ابتدائی تصاویر حاصل کر لی ہیں اور آزمائشی آرٹی فیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کی مدد سے کالے ہرن کی تصاویر بھی حاصل کی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تمام جنگلی حیات کا سروے ہورہا ہے تاکہ ان کی تعداد، رہائش کے مقامات اور تحفظ کے لیے ضروری ڈیٹا حاصل ہوسکے، تھرمل ٹیکنالوجی اور اے آئی کے استعمال سے بقا کے خطرے سے دوچار جنگلی حیات کا تحفظ ممکن ہوسکے گا۔
گرین پاکستان پروگرام وائلڈلائف کے پراجیکٹ ڈائریکٹر مدثرحسن نے بتایا کہ تھرمل ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال اس وقت آسٹریلیا میں کیا جارہا ہے جبکہ ہمسایہ ملک انڈیا میں یہ ٹیکنالوجی صرف ٹائیگرز کے سروے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔