چرنا آئی لینڈ کے گہرے پانی میں معدومیت سے دوچار وہیل شارک کا دلکش مشاہدہ

کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈائیورز نے اس منفرد منظر کو واٹر پروف کیمرے کی آنکھ سےمحفوظ کیا اور ہاتھ بھی لگایا


آفتاب خان August 20, 2024
فوٹو اسکرین گریپ

گہرے پانی میں تیراکی کا شوق رکھنے والے کراچی کے ڈائیورز نے سندھ و بلوچستان کے سنگم پر واقع چرنا آئی لینڈ کے گہرے پانی میں معدومیت سے دوچاروہیل شارک کا دلکش مشاہدہ کیا۔

ڈائیورز نے اس منفرد منظر کو نہ صرف واٹر پروف کیمرے کی آنکھ سےمحفوظ کیا بلکہ دوران فلمبندی بھاری بھرکم وہیل شارک کے جسم اور دم کو چھوا۔ مقامی ماہی گیروہیل شارک کوجسم پرمخصوص سفید دھبوں کی وجہ سے ٹائیگرشارک بھی کہتے ہیں۔

ڈبلیو ڈبیلو ایف کے تیکنیکی مشیر معظم خان کے مطابق وہیل شارک دنیا کی سب سے بڑی مچھلی تصور کی جاتی ہے، جس کوسندھی میں اندھی مانگر اور بلوچی میں باران کہا جاتا ہے، ماضی میں وہیل شارک پاکستان کےسمندروں میں کثرت سے پائی جاتی تھی مگر سمندرمیں ماہی گیری کے لیے لاتعداد لانچوں کی موجودگی اور نئےآلات کی ایجاد سمیت بےدریغ شکار، کئی متفرق وجوہات کی بنا پرعالمی سطح پرخطرے سےدوچارہوئی۔

ان کا کہنا ہےکہ سن 1970میں اس نسل کی مچھلی کا باقاعدہ شکارعام تھا، جس کے لیے ایک مخصوص قسم کا ہتھیار ہارپون استعمال کیا جاتا تھا،جوکہ بیک وقت آہنی تیزدھار نیزہ نما آلے اور رسی پر مشتمل ہوتا تھا، جودورسے نشانہ تاک کرپھینکا جاتا تھا، جس کے نتیجے میں وہیل شارک شکارہوجاتی تھی۔

معظم خان کے مطابق چرنا آئی لینڈ کےقریب ایک باقاعدہ علاقہ ہے جوامپورٹنٹ شارک اینڈ ریزایریا(آئی ایس آراے )کےنام سےجانا جاتاہے، یہ علاقہ چرنا کے شمال سے اوڑماڑہ کےساحلوں تک پھیلا ہواہے، اس علاقےمیں شارک کی مادہ بچے دیتی ہے جبکہ عموما وہیل شارک دھوپ سینکنے کے لیے سمندر کی سطح پر ابھر کر بھی آتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 15 سال قبل ڈبیلو ڈبیلو ایف نے وہیل شارک کے تحفظ کے لیے ماہی گیروں کی تربیت کاعمل شروع کیا، گزشتہ 8 برسوں کے دوران 140 کےلگ بھگ وہیل شارک کے مشاہدے اور انھیں جالوں سےآزاد کیا جاچکا ہے، اسی تسلسل کے نتیجے میں ڈبیلوڈبیلو ایف کی کوششوں سے سن 2016میں سندھ وبلوچستان حکومتوں نے وہیل شارک کے شکار پر پابندی عائد کی۔

تیکنیکی مشیر ڈبیلو ڈبیلوایف معظم علی خان کے مطابق وہیل شارک کے دانت نہیں ہوتے البتہ یہ خطرے کی صورت میں اپنی دم سے حملہ آور ہوتی ہے،اسی وجہ سے شوقیہ تیراک ہرصورت اس کے قریب جانے یا چھونےسے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں