ظالمانہ حکمرانی کا خاتمہ

بنگلہ دیش میں جو کچھ بھی ہوا ہے، اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں ہے

S_afarooqi@yahoo.com

اگست کا مہینہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے لیے مخصوص اہمیت کا حامل ہے، یہی وہ مہینہ تھا جس کی 14 تاریخ کو ہمارا وطن عزیز معرض وجود میں آیا تھا اور یہی وہ مہینہ ہے جس کی پانچ تاریخ کو بنگلہ دیش کے خالق شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد کی پندرہ سالہ ظالمانہ حکمرانی کا خاتمہ ہوا ہے ؎

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

بنگلہ دیش میں جو کچھ بھی ہوا ہے، اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ حیرانی تو اس بات پر ہے کہ اس میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ ظالم حکمرانوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ حسینہ واجد خوش قسمت تھی کہ وہ اپنی جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔

ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں

ناؤ کاغذ کی سدا چلتی نہیں


بنگلہ دیش میں بہت عرصہ سے لاوا پک رہا تھا اور آتش فشاں بہت دیر کے بعد پھٹا۔ بنگلہ دیش کا واقعہ اُن حکمرانوں کے لیے ایک سبق ہے جن کے دور میں عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہوجاتا ہے اور جنھیں پانی سر سے اونچا ہونے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک کی رٹ جو لگائی جا رہی تھی حقیقت یہ تھی کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ:

دارا رہا، نہ جم، نہ سکندر سا بادشاہ

تخت زمیں پہ سیکڑوں آئے، چلے گئے

ہونا یہ چاہیے تھا کہ حسینہ واجد اپنے باپ کے انجام سے کوئی سبق حاصل کرتی لیکن اقتدار کے نشے میں اس کی سوچ یک طرفہ ہوگئی اور اس کے اردگرد جمع چاپلوسوں نے اسے کچھ اور سوچنے نہیں دیا۔ حکومت کی سوچ اور پالیسیاں اپنے عوام کو بُری طرح ڈس رہی تھیں۔ بنگلہ دیش کے عوام کو اس سے نجات حاصل کر کے بہت سکون ملا ہے اور اُن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ شیخ حسینہ نے اپنے پندرہ سالہ دورِ حکمرانی میں بے بس عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے تھے اور ان کا جینا حرام کر رکھا تھا۔تاریخ کے جھروکے سے جھانک کر دیکھیں تو ہمیں وہ دن یاد آتے ہیں جب موجودہ بنگلہ دیش وطن عزیز پاکستان کا بازو تھا اور مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔

یہ وہی مشرقی پاکستان تھا جہاں پاکستان بنانے والی جماعت مسلم لیگ کا جنم ہوا تھا۔ پاکستان کے لیے ہمارے بنگالی بھائیوں نے بڑی قربانیاں دی تھیں اورکلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اے کے فضل الحق کا تعلق بنگال ہی سے تھا جن کی زیر صدارت قیام پاکستان کی تاریخ ساز قرارداد منظور ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) کے عظیم قائدین خواجہ ناظم الدین اور حُسین شہید سہروردی کا کردار بھی کچھ کم نہیں ہے۔قیام پاکستان کے بعد خواجہ ناظم الدین اور حُسین شہید سہروردی نے بحیثیت وزیر اعظم نہایت اہم کردار ادا کیا۔ شاید بہت سے لوگوں کو اس بات کا علم نہ ہوکہ چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا آئیڈیا سہروردی نے ہی پیش کیا تھا۔اس کے علاوہ شاید بہت سے لوگوں کو یہ بھی نہ معلوم ہوکہ ریڈیو پاکستان کی بیرونی نشریات کے شعبے سے میتالی سروس کے نام سے جو پروگرام پیش کیا جاتا تھا، اس کا مقصد بنگلہ دیش کے سامعین کے ساتھ پاکستان کے خیر سگالی کے جذبات کو فروغ دینا تھا۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے بنگلہ دیش کے واقعے کے بعد جس دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔ڈھاکا میں انڈین کلچر سینٹر پر بنگلہ دیشیوں کے دھاوا بولنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کے شہری بھارت کے ساتھ تعلقات کو پسند نہیں کرتے۔ بھارت کے پانچ صوبوں کی سرحدیں بنگلہ دیش سے ملتی ہیں۔

گزشتہ پچاس سالہ عرصے میں بھارت نے بنگلہ دیش میں کافی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے علاوہ نہ صرف سیاسی بلکہ ثقافتی سطح پر بھارت کے بنگلہ دیش کے ساتھ رابطے ہیں، تاہم فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات کیا رخ اختیارکریں گے، جہاں تک بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا تعلق ہے تو اس کی نوعیت وقت گزرنے کے ساتھ ہی معلوم ہو سکے گی۔بنگلہ دیش میں طلبا کی قوت نے حسینہ کا دھڑن تختہ کردیا۔ ملک میں ایک طوفان برپا ہوگیا جس کے بعد طلبا کی حمایت سے وہاں ایک عبوری سیٹ اَپ معرضِ وجود میں آیا ہے۔
Load Next Story