قومی ہیرو

ارشد ندیم نے ذاتی کارکردگی دکھا کر پاکستان کے قومی ہیرو کا اعزاز حاصل کیا ہے

m_saeedarain@hotmail.com

پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت کر پاکستان واپس آنے والے قومی ہیرو کی ملک بھر میں سیاست کرنے والی مذہبی جماعتوں اور تحریک انصاف کے سوا تمام سیاسی جماعتوں، سیاسی و سماجی رہنماؤں اور عوامی حلقوں نے وہ زبردست پذیرائی کی ہے جس کی مثال 1992 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ورلڈ کپ جیتنے پر واپسی میں بھی نہیں ملی تھی۔

صرف مذہبی اسکالر مولانا طارق جمیل نے ہی ارشد ندیم کو اپنے گھر عشائیے پر مدعو کیا اور انھیں پانچ لاکھ روپے ذاتی طور پر انعام بھی دیا جب کہ دیگر مذہبی شخصیات کی طرف سے قومی ہیرو کے خیرمقدم کا تو کوئی بیان بھی سامنے نہیں آیا۔ مایوسی کے اس دور میں گولڈ میڈل جیت کر ارشد ندیم نے قوم کو جو خوشی دی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس موقع پر تمام سیاسی اور سماجی جماعتیں ارشد ندیم کی کامیابی کو مثال بنا کر نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے ارشد ندیم کے لیے 15 کروڑ انعام اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی ارشد ندیم کو دس کروڑ کا چیک اور گاڑی دی ہے اور سندھ حکومت کی طرف سے بھی قومی ہیرو کے لیے خوش کن اعلانات ہوئے ہیں جس کے جواب میں وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ میں ارشد ندیم کو اپنی جیب سے انعام دوں گا ۔ کے پی حکومت کے پاس اپنے سوشل میڈیا ونگ کے لیے کام کرنے والے سیکڑوں کارکنوں کو فی کس پچیس ہزار روپے ماہانہ کئی سالوں سے دینے کے لیے تو فنڈ تھا مگر بانی پی ٹی آئی کے بعد قومی ہیرو ارشد ندیم کو انعام دینے کے لیے شاید کوئی فنڈ نہیں ہے، اس لیے کے پی حکومت نے اپنی طرف سے قومی ہیرو کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔

چالیس سال بعد دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے ارشد ندیم ملک کے وہ واحد ہیرو ہیں جن کی کوئی ٹیم نہیں تھی اور گولڈ میڈل جیتنا ان کی اپنی ذاتی صلاحیت اور کارکردگی تھی جس میں حکومت کا بھی زیادہ دخل نہیں تھا صرف شہباز شریف کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب ہوتے ہوئے پہلی بار پنجاب کی سطح پر کھیلوں کے جو مقابلے کرائے تھے۔

اس میں پنجاب کے علاقے میاں چنوں کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم کو اپنے جوہر دکھانے کا موقعہ ملا تھا جس کے بعد سرکاری طور پر ان کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کا آغاز ہوا تھا جس کا تعلق کسی بڑے شہر سے نہیں تھا مگر ارشد ندیم نے اپنی ذاتی حیثیت میں خود کو عالمی فورم پر منوانا شروع کیا تھا اور 1992 کے کرکٹ ٹیم کے کامیاب کپتان نے اپنی حکومت میں صرف اتنی اہمیت دی تھی کہ ارشد ندیم کو فنڈ ریزنگ کے لیے مدعو ضرور کیا تھا۔

ارشد ندیم نے ذاتی کارکردگی دکھا کر پاکستان کے قومی ہیرو کا اعزاز حاصل کیا ہے جب کہ اس سے قبل 1992 میں پاکستان نے کرکٹ کا جو ورلڈ کپ جیتا تھا وہ ٹیم کے کپتان عمران خان کی کوئی ذاتی کوشش نہیں تھی بلکہ پوری کرکٹ ٹیم کی بہترین کارکردگی تھی جس میں مشہور کھلاڑی شامل تھے اور سب کی مشترکہ محنت کے نتیجے میں پاکستان ورلڈ کپ جیت سکا تھا مگر جیت کا سارا کریڈٹ کپتان کو ملا تھا۔


حکومت میں 1992 کے بعد نواز شریف، بے نظیر بھٹو، جنرل پرویز مشرف کی طویل عرصے کی حکومتیں اقتدار میں آئی تھیں اور 2018 میں کرکٹ کے نامور کھلاڑی عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا تھا مگر اپنی حکومت میں انھوں نے ملک میں کھیلوں کے فروغ اور مختلف کھیلوں کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے سابقہ حکومتوں کی طرح کچھ نہیں کیا جس کی ان سے توقع تھی بلکہ انھوں نے ملک میں کرکٹ کی تباہی کو اہمیت دی اور کرکٹ کھلاڑیوں کی بنیادی سرپرستی ہی ختم اور کھلاڑیوں کو بے روزگار اور نئے ٹیلنٹ کا دروازہ ہی بند کر دیا تھا۔

کھلاڑی وزیر اعظم یہ چاہتا ہی نہیں تھا کہ نیا ٹیلنٹ سامنے آئے یا کرکٹ میں 1992 جیسی مضبوط ٹیم بن کر ان سے عالمی کپ کا اعزاز نہ چھین لے۔ وہ خود کو پہلی بار ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کا واحد کپتان رہنا چاہتے تھے، اس لیے انھوں نے ایسے لوگوں کو کرکٹ بورڈ کا سربراہ بنایا جن کی پالیسیوں نے کرکٹ تباہ کرا دی اور 32 سالوں میں پاکستان کرکٹ میں دنیا بھر میں ناکام رہا اور سابق کپتان کی ہیرو رہنے کی خواہش پوری ہوئی جس کے 32 سال بعد ملک کو ارشد ندیم جیسا قومی ہیرو ملا جس کی ملک بھر میں اتنی زیادہ پذیرائی ہو رہی ہے جس کی ملک میں ماضی کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔

تحریک انصاف نے جیولن کے عالمی مقابلے میں گولڈ میڈل جیتنے والے ارشد ندیم کی کامیابی کو ثانوی حیثیت دی کیونکہ ارشد ندیم کے 32 سال بعد قومی ہیرو بننے سے 1992 کے کرکٹ ہیرو جو پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین ہیں کی اپنی حیثیت متاثر ہوئی ہے۔ کرکٹ میں تو ملک کے ممتاز ترین کھلاڑی ہیرو رہے جنھوں نے عالمی سطح پر کامیابیاں دلائیں مگر جیولن میں پہلی بار پاکستان کو گولڈ میڈل ارشد ندیم نے اپنی ذاتی حیثیت میں دلایا جو ان کی کرکٹ ورلڈ کپ سے بڑی کامیابی ہے جو تحریک انصاف سے ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ ملک کو دوسرا قومی ہیرو مل گیا ہے ۔

1992 کے کرکٹ ہیرو نے فنڈ جمع کر کے شوکت خانم کینسر اسپتال بنایا جو ان کی ذاتی ملکیت ہے جسے اربوں روپے کے فنڈز ملے مگر عام آدمی وہاں اپنا علاج نہیں کرا سکتا۔ کرکٹ ورلڈ کپ کیش کرانے والے نے ملک کو انتہائی بری حکومت دی تھی جس سے وہ غیر مقبول ہوئے مگر اس کے بعد کی نااہل حکومت نے اپنی غلط پالیسی سے زیرو کو پھر ہیرو بنا دیا جس کی سزا ملک کی معیشت بھگت رہی ہے۔

تحریک انصاف جیولن کے عالمی ہیرو سے خوف زدہ ہے، اس لیے اپنے دور میں مال بنانے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ارشد ندیم کو ذاتی انعامات دیتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے کہ کہیں ان کا بانی چیئرمین ناراض نہ ہو جائے۔

ارشد ندیم نے پوری دنیا میں اولمپکس کا مقابلہ جیتنے کے بعد پاکستان کا نام روشن کر دیا اور یہ بتا دیا کہ اگر انسان اپنی محنت اور لگن سے کام کرے تو ایک نہ ایک دن وہ ضرور کامیاب ہو جاتا ہے ۔ ارشد ندیم جیسے کئی باصلاحیت کھلاڑی حکومت کی سپورٹ نہ ملنے کے سبب آگے نہیں بڑھ سکے' اگر حکومت پاکستانی کھلاڑیوں کی سپورٹ کرتی ہے تو پاکستان کا نام اسپورٹس میں پوری دنیا میں پہلی صف میں آ سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اسپورٹس کے زیادہ سے زیادہ مقابلے چھوٹے بڑے شہروں میں کرائے اور اسپورٹس پارک بنائے تاکہ زیادہ سے زیادہ کھلاڑی آگے آئیں ۔ہمارے چھوٹے شہروں اور دیہات میں نوجوانوں میں بہت صلاحیت ہے ۔ یہ نوجوان صحت مند اور محنتی بھی ہیں ذرا سی توجہ دی جائے تو یہ ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔
Load Next Story