طالبان نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نمائندے کو ملک میں داخل ہونے سے روکدیا
رچرڈ بینیٹ کو افغانستان کے بارے میں متعصبانہ اور منفی پروپیگنڈا کرنے کی وجہ سے ویزہ جاری نہیں کیا، ترجمان طالبان
طالبان نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا جائزہ لینے کے لیے مقرر کردہ خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کو افغانستان میں داخل ہونے سے روک دیا۔
افغانستان کے نیوز چینل طلوع کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نگراں ادارے پر پروپیگنڈا پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے بتایا کہ رچرڈ بینیٹ کے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ترجمان طالبان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کو افغانستان میں پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے تفویض کیا گیا تھا اور وہ بہت چھوٹے چھوٹے مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے۔
خیال رہے کہ ترجمان طالبان اس سے قبل یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ طالبان اسلامی قانون اور مقامی رسم و رواج کی اپنی تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں اور اس معاملے پر کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔
ادھر طالبان حکومت کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے رائٹرز کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ افغانستان کا سفری ویزا حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
عبدالقہار بلخی نے مزید کہا کہ رچرڈ بینیٹ سے اپنے کام کے دوران پیشہ ورانہ مہارت پر عمل کرنے کی بار بار درخواست کی گئی لیکن انھوں نے ہمیشہ افغانستان اور افغان عوام کے بارے میں تعصب سے بھری رپورٹیں مرتب کیں۔
رائٹرز کے بقول اس معاملے پر فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے کوئی جواب نہیں دیا جب کہ کوششوں کے باوجود رچرڈ بینیٹ سے فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا۔
خیال رہے کہ رچرڈ بینیٹ کو 2022 میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے مقرر کیا تھا۔
رچرڈ بینیٹ جو اس وقت افغانستان سے باہر مقیم ہیں لیکن صورتحال کی تحقیق کے لیے کئی بار افغانستان جا چکے ہیں، نے متعدد بار کہا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ طالبان کا سلوک انسانیت کے خلاف جرائم کے ذمرے میں آتا ہے۔
یاد رہے کہ طالبان کے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے تاحال کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے جب کہ امریکا سمیت متعدد مغربی ممالک اسے خواتین کو حقوق کی فراہمی سے مشروط کیا ہے۔
افغانستان میں تاحال 12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے سے روکا جاتا ہے۔ خواتین کی ملامتوں، پارکوں میں جانے اور محرم کے بغیر سفر پر پابندی ہے جب کہ بیوٹی پارلر اور جمز بند کرادیئے گئے ہیں۔
ان حالات کے باعث تاحال افغانستان کے مرکزی بینک کے اثاثے بھی منجمد ہیں اور طالبان کے بہت سے اعلیٰ عہدیدار اقوام متحدہ کی سفری پابندیوں کے تابع ہیں جن کے لیے انہیں دوسرے ممالک میں داخلے کے لیے استثنیٰ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ طالبان سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ بین الاقوامی نقطہ نظر تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جون میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام اور 25 ممالک کے سفیروں نے قطر میں طالبان سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں افغان خواتین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو اجلاس میں شامل نہ کرنے پر انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
واضح رہے کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کا مشن کابل سے کام کرتا ہے اور انسانی حقوق کے امور کی نگرانی اور رپورٹنگ کرتا ہے۔
افغانستان کے نیوز چینل طلوع کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نگراں ادارے پر پروپیگنڈا پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے بتایا کہ رچرڈ بینیٹ کے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ترجمان طالبان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کو افغانستان میں پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے تفویض کیا گیا تھا اور وہ بہت چھوٹے چھوٹے مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے۔
خیال رہے کہ ترجمان طالبان اس سے قبل یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ طالبان اسلامی قانون اور مقامی رسم و رواج کی اپنی تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں اور اس معاملے پر کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔
ادھر طالبان حکومت کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے رائٹرز کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ افغانستان کا سفری ویزا حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
عبدالقہار بلخی نے مزید کہا کہ رچرڈ بینیٹ سے اپنے کام کے دوران پیشہ ورانہ مہارت پر عمل کرنے کی بار بار درخواست کی گئی لیکن انھوں نے ہمیشہ افغانستان اور افغان عوام کے بارے میں تعصب سے بھری رپورٹیں مرتب کیں۔
رائٹرز کے بقول اس معاملے پر فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے کوئی جواب نہیں دیا جب کہ کوششوں کے باوجود رچرڈ بینیٹ سے فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا۔
خیال رہے کہ رچرڈ بینیٹ کو 2022 میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے مقرر کیا تھا۔
رچرڈ بینیٹ جو اس وقت افغانستان سے باہر مقیم ہیں لیکن صورتحال کی تحقیق کے لیے کئی بار افغانستان جا چکے ہیں، نے متعدد بار کہا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ طالبان کا سلوک انسانیت کے خلاف جرائم کے ذمرے میں آتا ہے۔
یاد رہے کہ طالبان کے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے تاحال کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے جب کہ امریکا سمیت متعدد مغربی ممالک اسے خواتین کو حقوق کی فراہمی سے مشروط کیا ہے۔
افغانستان میں تاحال 12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے سے روکا جاتا ہے۔ خواتین کی ملامتوں، پارکوں میں جانے اور محرم کے بغیر سفر پر پابندی ہے جب کہ بیوٹی پارلر اور جمز بند کرادیئے گئے ہیں۔
ان حالات کے باعث تاحال افغانستان کے مرکزی بینک کے اثاثے بھی منجمد ہیں اور طالبان کے بہت سے اعلیٰ عہدیدار اقوام متحدہ کی سفری پابندیوں کے تابع ہیں جن کے لیے انہیں دوسرے ممالک میں داخلے کے لیے استثنیٰ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ طالبان سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ بین الاقوامی نقطہ نظر تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جون میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام اور 25 ممالک کے سفیروں نے قطر میں طالبان سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں افغان خواتین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو اجلاس میں شامل نہ کرنے پر انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
واضح رہے کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کا مشن کابل سے کام کرتا ہے اور انسانی حقوق کے امور کی نگرانی اور رپورٹنگ کرتا ہے۔