مزاح

سید صاحب اس قدرخوش خوراک تھے،کہ دوپہر کو گوشت کے ساتھ ’’روٹی‘‘ کھاتے تھے

barq@email.com

علامہ عبدالستار عاصم کا ادارہ قلم فاؤنڈیشن ایک شتر مرغ کی طرح مہینے میں ایک''انڈہ'' دیتا ہے لیکن وہ ایک ''انڈہ'' کافی بڑا اور قیمتی ہوتا ہے اب کے اس نے جو قیمتی اور کنگ سائز کا انڈہ دیا ہے اس کا نام ہے ''مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف،سید ضمیر جعفری''۔ اب یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی اس''مرغی'' کے اندر کوئی نہ کوئی انڈہ''ٹوٹ'' بھی جاتا ہے جیسا کہ ہمارے حصے کا ایک انڈہ اس کے اندر کہیں ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔لیکن جو بھی انڈے نکل آتے ہیں وہ کمال کے ہوتے ہیں۔جیسا کہ زیرنظر انڈہ''مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف'' ہے اور کیوں نہ ہو کہ معروف لیکھاری جبار مرزا نے اس پر تیس سال لگائے ہیں۔

کتاب کا نام ''مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف'' پہلی نظر میں کچھ کھٹک ساجاتا ہے اور کچھ ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے پھولوں کا ہیڈکوارٹر یا پھلوں کا سپہ سالار کہا ہو۔یا مرچوں کا مربہ یا دریاوں کا سراب یا پھلوں کا کاڑا یا موم کے پتھر یا پانی کا درخت یا شہنائی کا ڈھول یا طوطیوں کا نقارخانہ۔لیکن بعد میں جب کرنل زیڈ اے سلہری کا میجر ضمیرجعفری کو سیلوٹ کا ذکر آجاتا ہے،تو کتاب کی وجہ تسمیہ بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔واقعہ یوں ہے کہ جب میجر ضمیرجعفری پہلی بار اپنے سینئر کرنل سلہری کو رپورٹ دینے گئے تو کرنل سلہری نے اٹھ کر سلیوٹ کیا۔

اس پر ضمیرجعفری نے کہا سر آپ کرنل ہیں اور میں میجر۔ سلیوٹ مجھے آپ کو کرنا چاہیے اس پر کرنل سلہری نے کہا کہ میں نے یہ سلیوٹ ''میجر'' کو نہیں کیا ہے بلکہ ضمیر جعفری کو کیا ہے جو مزاح نگاروں کے کمانڈر انچیف ہیں۔کتاب کو پڑھ کر ہمیں خیال آیا کہ دوست یو تو جبار مرزا جیسا ہو بلکہ امیتابھ بچن کا ایک پرانا مکالمہ بھی یاد آیا کہ مونچھیں ہوں تو نٹورلال جیسی ہوں ورنہ نہ ہوں۔جبارمرزا کے لیے امیرحمزہ خان شنواری کا ایک پشتو شعر بھی کہہ سکتے ہیں۔ہندی دھرم میں ایک پرانی رسم تھی جو اب نہیں ہے کہ بیوی کو بھی اپنے شوہر کی ''چتا'' پر بٹھا کر جلایا جاتا تھا بلکہ وہ خود بھی خوشی خوشی چتا پر بیٹھ کر بھسم ہوجاتی تھی۔ حمزہ شنواری نے اس پر ایک شعر کہا تھا کہ جلتی ہوئی شمع پر تو پروانے نثار ہوتے رہتے ہیں لیکن مردہ اور بجھی ہوئی ''شمع'' پر نثار ہونا کوئی ہندو عورت سے سیکھے۔

مجھے مت روکو مجھے یار کے ساتھ جانے دو

میں ہوں پروانہ مجھے شمع پہ مٹ جانے دو


جبارمرزا نے بھی مرحوم سید ضمیرجعفری کی زندگی کے لمحے لمحے کو دوبارہ زندہ کرنے میں تیس سال لگائے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ اس کا مادی فائدہ بھی کوئی نہ ہو صرف محبت ہی محبت،عقیدت ہی عقیدت اور پروانگی ہی پروانگی ہو۔ضمیر جعفری کو ہم نے دیکھا بھی ہے اور سنا بھی ہے اور پڑھا بھی ہے۔لیکن پھر بھی یہ کتاب ان کے بارے میں بہت کچھ ایسا بتاتی ہے جو پہلے نہیں بتایا گیا مثلاً ہمیں اور بہت سارے لوگوں کو یہ تو پتہ ہے کہ وہ ایک اچھے شاعر تھے اور مزاح کے تو واقعی کمانڈر انچیف تھے۔لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ ایک اچھے معمار بھی تھے اور ان کی بے مثل تعمیر کا نام''اسلام آباد'' ہے اسلام آباد کی تعمیر میں وہ ابتدا سے تکمیل تک شامل تھے۔اس شہر بے مثال کی تعمیر میں وہ تجویز سے لے کر تکمیل تک سرگرم رہے۔لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ وہ خود ہمیشہ ''خانہ بدوش'' رہے

رند جو مجھ کو سمجھتے ہیں انھیں ہوش نہیں

میکدہ ساز ہوں میں میکدہ فروش نہیں

جبارمرزا لکھتے ہیں''گھر بدلنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہوا کرتا تھا فوجی تو وہ تھے ہی سول میں بھی آئے تو رسی ان کے بستر کے نیچے رکھی ہوتی رہتی کہ پتہ نہیں کب شفٹ ہونا پڑے چناں چہ کہیں شفٹ ہوتے تو سامان باندھنا،ریڑھے پر رکھنا،نئے گھر جانا سامان کھلوانا اور انھیں کونے کھدروں میں لگانا میرے ذمے ہوتا۔گویا میں ان کا ''شفٹنگ چیف تھا''خانہ بدوشی کے علاوہ جبارمرزا نے ضمیرجعفری کے دو اور مشاغل کا بھی ذکر کیا ہے،کھانا اور لوگوں میں خوبیاں تلاش کرنا۔ لکھتے ہیں،کھانے کے اتنے شوقین تھے کہ ایک بار ''کھانا'' کھانے گئے اور''مار'' کھا کر آگئے چونکہ لوگوں کے بارے میں ہمیشہ''خوش گمانی اور خوش بیانی سے کام لیتے تھے۔

اس لیے بتایا کہ اس مار کا خوشگوار پہلو یہ ہے کہ ان لوگوں نے کھانا کھلا کے مارا تھا۔یہ مار ان کو زمانہ طالب علمی میں کھانا پڑی تھی کہ مخالف یونین نے اپنے حریفوں کی حمایت کرنے سے باز رکھنے کے لیے کھانے پر بلایا اور کھانے کے ساتھ مار بھی کھلائی۔ سید صاحب اس قدرخوش خوراک تھے،کہ دوپہر کو گوشت کے ساتھ ''روٹی'' کھاتے تھے اور شام کو روٹی کے ساتھ گوشت۔ویسے اس سلسلے میں ہمارے علامہ بریانی کچھ بڑھ کر ہیں وہ صبح ناشتے میں روٹی کے ساتھ گوشت کھاتے ہیں دوپہر کو گوشت کے ساتھ روٹی اور شام یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے تناول فرماتے ہیں۔ بہرحال ''مزاح کے کمانڈرانچیف'' جبارمرزا اور علامہ عبدالستار عاصم اور قلم فاونڈیشن کی تازہ ترین دیوانگی ہے اور اچھی دیوانگی ہے۔
Load Next Story