آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
پروفیسر زکریا ساجد کا تعلق پنجاب کے شہر انبالہ کے گاؤں روپ نگر سے تھا
ہندوستان میں باقاعدہ اخبارات کی اشاعت شروع ہوئی تو زبان پر عبور رکھنے والے، تاریخ اور معیشت کے بارے میں معلومات رکھنے والے نوجوان شعبہ صحافت کی طرف متوجہ ہوئے۔ یونی ورسٹیوں سے ڈگری یافتہ وہ نوجوان بھی صحافت کے شعبے میں آئے جو ہندوستان کو انگریز سرکار سے چھٹکارا دلانے کا عزم رکھتے تھے، یوں شاعر، ادیب اور بہترین مقررین بھی اخبارات میں ملازمت کرنے لگے، مگر صحافت کے شعبے میں داخلہ کے لیے صحافت کی تعلیم کا تصور نہیں تھا۔
سب سے پہلے پنجاب یونیورسٹی میں صحافت کا ڈپلومہ شروع ہوا۔ 50 کی دہائی میں حکومت نے صحافت کے شعبہ کی تنظیمِ نو کے لیے پریس کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن نے پنجاب یونیورسٹی اورکراچی یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے قیام کی سفارش کی تھی، یوں پہلے پنجاب یونیورسٹی میں اور پھرکراچی یونیورسٹی میں صحافت کے شعبے قائم ہوئے۔ پروفیسر عبدالسلام خورشید نے پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت قائم کیا، کراچی یونیورسٹی میں اس شعبہ کی بنیاد پڑی۔ ڈاکٹر محمود حسین اور پروفیسر شریف المجاہد کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے بانی ارکان میں شامل تھے۔
پروفیسر زکریا ساجد کا تعلق پنجاب کے شہر انبالہ کے گاؤں روپ نگر سے تھا۔ ان کے علاقے میں مسلمانوں میں صرف مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا رواج تھا۔ ساجد صاحب عموماً یہ ذکر کرتے تھے کہ جب انھوں نے پانچویں جماعت میں اچھے نمبر حاصل کیے تو ایک استاد نے ان کے والد کو مشورہ دیا کہ یہ بچہ ذہین ہے اس کو جدید تعلیم دلوائی جائے۔ ساجد صاحب ساری زندگی اپنے والد کے شکر گزار رہے کہ ان کے والد نے انھیں جدید تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی ۔
وہ اپنے ایک ہندو استاد کا بھی ذکر کرتے تھے جنھوں نے بغیر کسی معاوضے کے انھیں عربی اور فارسی کی تعلیم دی۔ یہ ہندو استاد دیا بھی اپنے ساتھ لے کر آتے تھے۔ ذکریا ساجد نے میٹرک کرنے کے بعد اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ لیا اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں کام کرنے لگے۔ جب آل انڈیا مسلم لیگ نے ہندوستان کے بٹوارہ اور نئے وطن کے قیام کا فیصلہ کیا تو پھر برطانوی حکومت نے 1946 میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ یہ انتخابات جداگانہ بنیادوں پر ہوئے اور مخصوص افراد کو ووٹ کا حق دیا تو قائد اعظم لاہور آئے اور انھوں نے مسلم لیگ کی قیادت کو ہدایت کی کہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں مسلمانوں کو پاکستان کے حق میں تیارکرنے کے لیے طالب علموں کو بھیجا جائے۔
زکریا ساجد ان نوجوان میں شامل تھے جنھوں نے مسلم لیگ کے رہنماؤں کی ہدایت پر سابقہ متحدہ پنجاب کے دور دراز علاقوں میں جا کر مسلمانوں کو نئے وطن کی حمایت کے لیے تیار کیا۔ ساجد صاحب نے پہلے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی سند حاصل کی اور پھر صحافت میں ڈپلومہ کیا۔ وہ بعد میں امریکا گئے اور صحافت میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
ان کے اساتذہ میں ابلاغیات کے بین الاقوامی ماہر Wilbur Schramm بھی شامل تھے۔ زکریا ساجد کے ساتھیوں میں مجید نظامی اور سرتاج عزیز وغیرہ شامل تھے، انھوں نے پہلی ملازمت نوائے وقت لاہور میں کی۔ اس وقت حمید نظامی زندہ تھے اور نوائے وقت کے ایڈیٹر تھے۔ زکریا ساجد نائٹ ڈیسک میں کرنے کرتے تھے۔ ان کے ساتھیوں میں معروف صحافی فرہاد زیدی بھی شامل تھے۔ زکریا ساجد اس زمانے میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس میں متحرک ہوئے اور سیکریٹری جنرل کا انتخاب بھی لڑا۔
کراچی یونیورسٹی میں جب شعبہ صحافت قائم ہوا تو اس وقت کے ڈین فیکلٹی آف آرٹس ڈاکٹر محمود حسین اس شعبے کے نگراں بنائے گئے۔ پروفیسر شریف المجاہد شعبہ کے پہلے چیئرپرسن نامزد ہوئے، پروفیسر ڈاکٹر انعام الرحمن اور پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد بھی شعبہ میں آگئے۔ پروفیسر شریف المجاہد ایک مخصوص طبیعت کے مالک تھے۔ ان کا اصل موضوع تحریک پاکستان تھا۔
انگریزی اخبارات اور رسائل میں ان کی خوبصورت انگریزی میں آرٹیکلز شایع ہوتے تھے۔ شریف المجاہد نئے لوگوں کی تلاش میں رہتے تھے، یوں وہ پروفیسر زکریا ساجد کو شعبہ میں لے آئے۔ شعبہ صحافت کے تینوں اساتذہ روایتی استاد تھے اور طالب علموں کو ان کی ''حد'' میں رکھنے کے فلسفہ پر یقین رکھتے تھے مگر پروفیسر زکریا ساجد ایک غیر روایتی قسم کے استاد تھے، وہ شعبہ میں تعلیم حاصل کرنے والے ہر طالب علم کی سرپرستی اپنے فرائض کا حصہ سمجھتے تھے، یوں پروفیسر زکریا ساجد ہر سال آنے والے طلبہ میں مقبول ہوتے تھے۔ ساجد صاحب کے ذہن میں کوئی مذہبی، نسلی، نظریاتی یا صنفی تفریق کا تصور نہیں تھا۔
ان کی صاحبزادی نے اپنی یاد داشتوں کو کھنگالتے ہوئے بتایا تھا کہ 60کی دہائی کے آخری حصے میں بنگالی رہنما مولانا بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی خاصی مقبول تھی۔ زکریا ساجد اپنے دوست شعبہ تاریخ عمومی کے استاد پروفیسر عبدالرحمن کے ساتھ مولانا بھاشانی کے جلسوں میں باقاعدگی سے جاتے تھے۔
70 کی دہائی اور 80 کی دہائی میں وہ کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں مقیم تھے اور یونیورسٹی سے آئی آئی چندریگر روڈ جانا جہاں بیشتر اخبارات کے دفاتر تھے خاصا مشکل کام تھا۔ اس زمانہ میں رکشہ ٹیکسی کا حصول خاصا مشکل تھا مگر ساجد صاحب اپنے طالب علموں کے لیے اخبارات کے دفاتر جاتے اورکوشش کرتے تھے کہ کسی نہ کسی طالب علم کے لیے روزگار کا بندوبست ہوجائے۔
ساجد صاحب کو ان طالب علموں میں خاص طور پر خصوصی دلچسپی ہوتی تھی جو طلبہ سیاست میں متحرک ہوتے تھے، وہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی تفریق کے قائل نہیں تھے۔ راقم الحروف بائیں بازو کی طلبہ تنظیم پروگریسو اسٹوڈنٹس فرنٹ کا کارکن تھا۔ 1979 اور 1980 میں کراچی یونیورسٹی میں طالب علموں کے کارکنوں میں خون ریز تصادم ہوئے اور کئی طالب علم جاں بحق ہوئے۔ ایک طالب علم اکرم قائم خانی کو کیمپس میں ایک جیپ جلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ساجد صاحب نے جماعت اسلامی کے ترجمان اخبار اور روزنامہ جسارت میں اداریے تحریرکرنے والے شعبہ کے استاد پروفیسر متین الرحمن سے کہا کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کریں اور اکرم کو مشکل سے نجات دلائیں۔ پھر سلام اﷲ ٹیپو نے پی آئی اے کا جہاز اغواء کرلیا۔
اکرم قائم خانی اور پروگریسو فرنٹ کے دو اور کارکن جانِ عالم اور خلیل قریشی کو بھی اغواء کرنے والے افراد کے مطالبے پر دمشق بھیج دیا گیا۔ پولیس اور سی آئی ڈی والوں نے پروگریسو فرنٹ کے کارکنوں کی چھان بین شرو ع کردی۔ سی آئی ڈی کے ایک افسر نے راقم کی فائل لے کر شعبے سے رابطہ کیا۔ زکریا ساجد اس صورتحال میں پریشان تو ہوئے مگر انھوں نے اس فائل کو نہ صرف واپس کیا بلکہ مجھے پیغام بھجوایا کہ میں کسی وقت ان سے ملوں۔ میں ایک رات ساجد صاحب کے گھر پہنچ گیا۔
انھوں نے مجھے سخت احتیاط کی ہدایت کی۔ جب میں وفاقی اردو یونیورسٹی سے ریٹائر ہو رہا تھا تو اس وقت کے وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کا حصہ تھا۔ وائس چانسلر نے یہ دھمکی دی تھی کہ وہ میرے واجبات ضبط کرلیں گے ۔ ساجد صاحب کو اس با ت کا علم ہوا تو وہ پریشان ہوئے، انھوں نے ڈاکٹر طاہر مسعود کو ہدایت دی کہ اس وقت کے صدرِ پاکستان ممنون حسین کے پریس سیکریٹری فاروق عادل سے رابطہ کریں تاکہ مجھے وائس چانسلرکے غیض و غضب سے بچایا جاسکے مگر یہ مسئلہ وائس چانسلر کی برطرفی کی بناء پر حل ہوا۔ پروفیسر زکریا ساجد نے ہمیشہ کراچی یونیورسٹی کی ٹیچرز سوسائٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لیا، وہ ہمیشہ شعبہ فلسفہ کے استاد اور بائیں بازو کے دانشور ڈاکٹر ظفر عارف کے ہم رکاب رہے۔ ساجد صاحب کا اخباری صنعت کے تمام اہم ستون احترام کرتے ہیں۔
جب وہ کراچی یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئے تو انھیں پریس انسٹی ٹیوٹ کا پہلا ڈائریکٹر مقررکیا گیا۔ ساجد صاحب نے حتی الامکان کوشش کی کہ پریس انسٹی ٹیوٹ ایک حقیقی ادارہ کی شکل اختیار کر پائے مگر مالکان کی بے حسی اور برسر اقتدار حکومتوں کے ناموافق رویے کی بناء پر ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوسکی۔ ساجد صاحب نے سندھ یونیورسٹی جامشورو میں شعبہ کے قیام میں بہت دلچسپی لی۔ وہ مسلسل کئی برسوں تک سندھ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغِ عامہ کا دورہ کرتے رہے۔ ساجد صاحب دراصل اس روایتی استاد کے ادارے کا تسلسل تھے۔ ایسا استاد جو اپنے شاگردوں کی زندگی پھر رہنمائی کرے اور ان کے کیریئر کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دورکرنے کے لیے کوشش کرے۔ ساجد صاحب جیسے استاد اب ناپید ہیں۔ علامہ اقبال کا یہ شعر استادِ محترم کی نذر ہے۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھرکی نگہبانی کرے