مدارس دینیہ نعمت خداوندی

مدارس کا آغاز مسجد نبوی سے ملحقہ درسگاہ صفہ کے چبوترے سے ہوتا ہے


[email protected]

ہر معاشرے کی اپنی اپنی ضروریات ہوا کرتی ہیں، ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختلف افراد اور ادارے خدمات سرانجام دیتے ہیں صحت کے شعبے میں ڈاکٹرز اور اسپتال طبی ضروریات پوری کرتے ہیں، تعلیم کے شعبے میں اساتذہ اور تعلیمی ادارے تعلیمی ضروریات پوری کرتے ہیں، انتظامیہ ملک کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے خدمات انجام دیتی ہیں، سیکیورٹی فورسز امن وامان کو برقرار رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں، انصاف کے حصول کے لیے وکلاء اور عدالتیں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، اسی طرح دیگر شعبے اور ان سے وابستہ افراد معاشرے کے لیے خدمات انجام دیتے ہیں۔ جس طرح عصری علوم کے ادارے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں ایک مسلم معاشرے میں مذہبی تعلیم، خدمات اور ضروریات پورا کرنے کے دینی مدارس ضروری ہیں اور شکر الحمدللہ پاکستان میں دینی مدارس یہ کام بہترین انداز میں کر رہے ہیں۔

مدارس کی خدمات کا احاطہ صرف مذہبی ضروریات سے نہیں ہوتا بلکہ روحانی، اخروی، دینی، مذہبی، شرعی اور معاشرتی ضروریات پوری کرنے کے لیے معاشرے کو آئمہ وخطباء، مفتیان کرام اور علماء کرام کی ضرورت پیش آتی ہے۔ پہلے پہل اس ضرورت کا اسلامی ریاستیں اور حکومتیں اہتمام کیا کرتی تھیں، اور ان مدارس سے علماء کرام اور مفتیان کرام کے علاوہ ماہرین تعلیم، ریاضی دان اور شعبہ طب کے ماہرین کے علاوہ ہر میدان کے شہسوار نکلتے تھے مگر حکومتوں کی عدم توجہی اور لاتعلقی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے مدارس صرف دینی تعلیم تک محدود ہوگئے، علمائے کرام اور اہل خیرحضرات نے رضا کارانہ طور پر یہ ذمے داری اٹھائی اور اسے کماحقہ احسن انداز میں نبھاکر بھی دکھایا۔ اس وقت مسلم ممالک میں اقدار و روایات جس قدر بھی موجود ہیں بالخصوص ہمارے اس خطے میں کہیں کام کے اور کہیں نام کے جو مسلمان موجود ہیں بقول قدرت اللہ شہاب"انھی مدارس کے دم قدم سے ہیں"۔

مدارس کا آغاز مسجد نبوی سے ملحقہ درسگاہ صفہ کے چبوترے سے ہوتا ہے پھر تاریخ کے ہر دور میں ہمیں مختلف درسگاہیں اور دینی تعلیمی ادارے دکھائی دیتے ہیں اور وہاں کسب فیض کرنے والوں کے کردار و خدمات سے پوری تاریخ جگمگ جگمگ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ بلاشبہ برصغیر پاک و ہند میں اسلام تاجروں کے روپ میں آنے والے عربوں کے ذریعے آیا، اسے پھیلایا اولیاء کرام نے اور مدارس نے دین اسلام کو بچے بچے کے دل و دماغ میں اتارا۔ برصغیر پاک و ہند میں ملا نظام الدین نے دینی مدارس کے نصاب و نظام کو باضابطہ منظم کرنے کی فکر سب سے پہلے پیش کی، اسی لیے مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب درس نظامی کے نام سے معروف ہے۔

یوں تو برصغیر میں کئی دینی مدارس خدمات انجام دے رہے تھے جن کا فیض آج بھی پوری دنیا میں نظر آتا ہے لیکن قیام پاکستان کے بعد بہت سے نامی گرامی علمائے کرام نے اس نوزائیدہ اسلامی ریاست میں علم کی شمعیں روشن کرنا شروع کیں۔ ان کبائر علماء میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ نے نانک واڑہ، کراچی میں دارالعلوم کراچی، مولانا عبدالحقؒ نے اکوڑہ خٹک میں دارلعلوم حقانیہ، مفتی محمد حسن امرتسریؒ نے نیلا گنبد لاہور میں جامعہ اشرفیہ، مولانا خیر محمد جالندھریؒ نے ملتان میں خیر المدارس، مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی باباجیؒ نے صوابی میں دارالعلوم عربیہ مظہر العلوم ڈاگئی اورمولانا یوسف بنوری ؒنے جامعہ بنوری ٹاؤن کی بنیاد کراچی میںرکھی۔ اسی طرح ملک کے طول و عرض میں مدارس کا جال بچھتا چلا گیا۔

اس وقت پاکستان کے طول و ارض میں تیس ہزار سے زائد مدارس اپنی مدد آپ کے تحت ملک میں شرح خواندگی بڑھانے کے لیے لازوال کردار ادا کررہے ہیں، ان مدارس کی سرپرستی کبھی کسی حکومت نے نہیں کی، نہ کبھی کسی مدرسے نے حکومت سے کوئی فنڈ لیا، الٹا حکومتوں کی جانب سے ان کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، کبھی ان پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کی کوشش کی جاتی ہے، کبھی رجسٹریشن کی آڑ میں انھیں دباؤ میں لانے کے لیے پر تولے جاتے ہیں، مگر یہ مدارس ہر آندھی و طوفان کا مقابلہ کرتے آئے ہیں اور کررہے ہیں اور نامساعد حالات میں بھی جادئہ علم و عرفاں بانٹ رہے ہیں اور انشاء اللہ قیامت کی صبح تک اسی طرح بانٹتے رہیں گے، کئی طالع آزما آئے آج ان کا نام نشان بھی باقی نہیں، مگر مدارس آج بھی قائم ودائم ہیں۔ ان مدارس سے نکلنے والے لاکھوں آئمہ و خطباء اور مدرسین و علماء معاشرے کا سب سے پر امن طبقہ ہوتا ہے، انھوں نے کبھی کم تنخواہ کا رونا رویا، نہ کبھی اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں بازاروں میں نکل کر جلاؤ گھیراؤ کیا۔ قانون کا سب سے زیادہ احترام کرنے والا یہی طبقہ ہے جو مدارس دینیہ سے جڑا ہے۔

دوسری جانب آپ عصری تعلیم کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جائزہ لیں، یہ ادارے ریاست کی سرپرستی میں چلتے ہیں، ریاست انھیں چلانے کے لیے ہر سال اربوں روپے کا خطیر بجٹ دیتی ہے، قوم بھوک اور افلاس کا شکار ہوتی ہے لیکن اپنا پیٹ کاٹ کر ان تعلیمی اداروں کے لیے خطیر رقم فراہم کرتی ہے لیکن آج تک ہم ان اداروں کو لارڈ میکالے کے نظام سے نجات نہیں دلا سکے۔ اسی لیے جہاں یہ ادارے ہماری نسلوں کو ذہنی غلام بنا رہے ہیں وہاں بے شمار برائیوں سے روشناس کرا رہے ہیں، ایسی کوئی معاشرتی برائی نہیں جس سے ان اداروں میں زیر تعلیم طلبا طالبات واقف نہ ہوں۔

ناچ گانے، منشیات کے استعمال اور فروخت سے لے کر ایسی کون سی برائی ہے جس میں ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچے محفوظ ہیں؟ یہ ادارے منشیات ہیروئن، چرس، آئس، شراب جیسے نشوں کی لعنت سے محفوظ نہیں، بے شمار واقعات ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ طلبا و طالبات اپنے اصل یعنی دین کی دولت سے دور ہوتے ہیں اور فریسٹریشن کا شکار ہوجاتے ہیں، یہی بچے جب فارغ التحصیل ہوکر ملازمت کے عدم حصول یا زندگی کے کسی بھی امتحان میں ناکام رہتے ہیں تو وہ خود کشی جیسے حرام فعل سے بھی گریز نہیں کرتے۔ آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں عصری تعلیم کے حامل لوگوں میں خود کشی کا رجحان بہت زیادہ ہے اس کے مقابلے میں مدارس کی ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ میں کبھی نشے اور خود کشی جیسے واقعات سننے کو بھی نہیں ملیں گے۔ کوئی عالم دین بے روزگاری کے خلاف احتجاج کرتا نظر نہیں آیا۔

حقیقت یہ ہے کہ لارڈ میکالے نے مسلمانوں کی نئی نسل کو ذہنی لحاظ سے انگریز کا غلام بنانے اور نوآبادیاتی فرنگی نظام کے کل پرزوں کی شکل میں ڈھالنے اور دین بیزاری کے لیے جس نظامِ تعلیم کی بنیاد رکھی تھی ہمارے عصری تعلیم کے ادارے اسی میں ڈوبے ہوئے ہیں، اس کے مقابلے میں دینی مدارس ایک مستحکم اور ناقابل شکست متوازی نظام تعلیم کی حیثیت اختیار کر گئے اور اس طرح فرنگی تعلیم و ثقافت سے محفوظ رہنے کی خواہش رکھنے والے غیور مسلمانوں کو ایک مضبوط نظریاتی اور تہذیبی حصار میسر آگیا۔

جدید عقل پرستی کی بنیاد پر دینی عقائد و روایات سے انحراف، انکارِ ختم نبوت، انکارِ حدیث اور اس قسم کے دیگر اعتقادی اور مذہبی فتنوں نے سر اٹھایا تو یہ دینی مدارس پوری قوت کے ساتھ ان کے سامنے صف آرا ہوگئے اور ملت اسلامیہ کی راسخ الاعتقادی کا تحفظ کیا۔ فرنگی تہذیب اور یورپی ثقافت کی طوفانی یلغار کا سامنا کرتے ہوئے دینی مسلم ثقافت کو ایک حد تک بچانے اور بطور نمونہ باقی رکھنے میں ان مدارس نے کامیابی حاصل کی۔ قرآن و سنت کے علوم، عربی زبان اور دینی لٹریچر کو نہ صرف زمانہ کی دستبرد سے بچا کر رکھا بلکہ ملک میں ان علوم کے حاملین کی ایک بڑی تعداد پیدا کر کے اگلی نسلوں تک انھیں من و عن پہنچانے کا اہتمام کیا۔ پھر بھی تنقید مدارس پر؟ اصلاح کی ضرورت مدارس کو نہیں لارڈ میکالے کے دیے ہوئے نظام میں جکڑے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو ہے۔ حکومت ان پر توجہ دے۔

جہاں تک مدارس کی بات ہے تو ان ہی مدارس کے بارے میں مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے کہا تھا "ان مدارس کواپنی حالت پر رہنے دو اگر یہ مدارس اور اس کی ٹوٹی چٹائیوں پربیٹھ کر پڑھنے والے درویش نہ رہے، تو یادرکھنا تمہارا وہی حال ہوگاجو میں اندلس اورغرناطہ میں مسلمانوں کادیکھ کرآیا ہوں''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔