''زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے''۔
یہ جملہ یقیناً ہر پاکستانی کے کانوں میں ہر سال اس وقت ضرور گونجتا ہے جب بھی مون سون آتا ہے اور ساتھ میں اس بات کا اضافہ بھی ہوجاتا ہے کہ ''جب زیادہ پانی آتا ہے تو زیادہ نقصان بھی ہوتا ہے اور زیادہ جانیں بھی جاتی ہیں''۔
مگر مجال ہو کہ کسی ایک عہدیدار کے کان پر جوں تک رینگی ہو اور اس نے ان قدرتی آفات سے متعلق کوئی حکمت عملی قبل از وقت تیار کی ہو۔
تاریخ گواہ رہی ہے جب سڑکوں پر اتنا پانی جمع ہوجائے کہ کوئی شخص آدھا آسانی سے ڈوب سکتا ہے یا وہاں کشتی باآسانی چل سکتی ہے تب ہی ہمارے یہ ''محنتی'' عہدیداران بڑے بڑے بوٹ پہن کر سڑکوں پر دکھائی دیے ہیں اور وہ بھی محض کچھ دیر کےلیے۔
ہر سال مون سون میں ملک میں اربوں کا نقصان ہوتا ہے، کئی سو قیمتی جانیں جاتی ہیں، سیلاب بھی آتے ہیں اور کچھ بستیوں کو زندگی بھر کی جمع پونجی سمیت کئی خوابوں کو بہا لے جاتے ہیں اور کبھی یہ انسان بھی ان ہی بے رحم موجوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ البتہ ایک ادارہ ضرور قائم ہے جس کا کام تو قدرتی آفات سے نمٹنا ہے مگر وہ ہر سال اتنا ضرور بتادیتا ہے کہ ملک میں مون سون بارشوں سے اتنے افراد ہلاک، اتنے زخمی اور اتنے ارب کانقصان ہوا ہے اور یہ ہمارا سرکاری ادارہ ہے ''نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی'' یعنی این ڈی ایم اے۔ جس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں یکم جولائی سے 18 اگست تک 189 افراد ہلاک اور بیسیوں زخمی ہیں۔ کئی بستیاں بہہ گئیں، کئی چھتیں گرگئیں، کرنٹ لگنے سے بھی ہلاکتیں ہوئیں اور یہ سب پھر ایک کاغذ پر لکھ کر قوم کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے۔
نقصان تو نقصان، ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے کہ ہم پانی جیسی انمول نعمت کا کتنا ضیاع کرتے ہیں۔ پاکستان بلاشبہ وہ ملک ہے جہاں اگر موجودہ وسائل استعمال کیے جائیں تو ہمیں ترقی پذیر سے ترقی یافتہ کی فہرست میں شامل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اسی طرح پاکستان بہترین آبی وسائل رکھتا ہے لیکن وافر مقدار میں پانی دستیاب ہونے کے باوجود قیام پاکستان سے اب تک کسی حکومت نے بھی پانی کے شعبہ میں اصلاحات اور آبی ذخائر میں اضافے کو اپنی ترجیح بنایا ہی نہیں، جبکہ ملکی آبادی اور ان کی ضروریات میں تو اضافہ ہوتا رہا لیکن آبی ذخائر میں توسیع نہ ہوسکی۔
2019 میں عالمی بینک کی جانب سے شائع رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں جی ڈی پی کا 4 فیصد یا تقریباً 12 ارب روپے سالانہ پانی، نکاسی، سیلاب اور خشک سالی پر خرچ ہورہے ہیں۔
آب پاشی کا شعبہ ملک کی مجموعی پیداوار میں سالانہ 22 ارب ڈالر تک حصہ ڈالتا ہے جبکہ اہم ترین 4 فصلیں، گندم، چاول، کپاس اور گنا جو 80 فیصد پانی کا استعمال کرتی ہیں، ان سے جی ڈی پی کا 5 فیصد حصہ پیدا ہوتا ہے جو 14 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ پاکستان کے نظام آب پاشی کا شمار دنیا کے بڑے نیٹ ورکس میں ہوتا ہے جو کہ 45 ملین ایکڑ رقبے پر محیط زرعی اراضی کو سیراب کرتا ہے۔ یہ نظام بنیادی طور پر تین بڑے ذخائر منگلا، تربیلا اور چشمہ پر مشتمل ہے جبکہ 19 بیراج، 12 انٹر ریور لنک کینالز، 45 انڈیپینڈنٹ ایریگیشن کینالز اور 143 درمیانے ڈیمز ہیں۔
مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کےلیے ابھی تک کوئی خاطر خواہ پالیسیاں یا اقدامات نہیں کیے گئے، اور اس غفلت اور موسمیاتی تغیر کے نتیجے میں گزشتہ برسوں کے دوران شدید نوعیت کے 21 سیلابوں کی تباہی کی وجہ سے پاکستان کو مجموعی طور پر 37 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
چھ لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر قیامت ڈھانے والے یہ سیلاب گیارہ ہزار 572 افراد کو نگل چکے ہیں جبکہ ایک لاکھ 88 ہزار 531 دیہات زیرآب آنے وجہ سے بڑی تعداد میں زرعی فصلیں اور مکانات تباہی سے دوچار ہوئے، جبکہ 2010 کے سیلاب کو پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب قرار دیا جاتا ہے، جس نے 20 ملین لوگوں کو متاثر کیا تھا۔ نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان میں پانی کے شعبے میں ملک کے موجودہ انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو اور آبی وسائل میں توسیع کےلیے قابل عمل منصوبہ پیش کیا گیا تھا، لیکن بدقسمتی سے اس پر کوئی عمل نہیں ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ جولائی تا ستمبر مون سون سیزن میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ملک کے بیشتر علاقوں میں سیلاب کے خطرات منڈلانے لگتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بارشوں کی تباہی سے بچا کیسے جائے؟
اگر شہروں میں مون سون کی بارشوں کے پانی کو محفوظ کرکے دوبارہ استعمال کرنے کےلیے زیر زمین واٹر اسٹوریج تعمیر کرنے کےلیے منصوبے بنائے جائیں تو یقیناً پانی کے ضیاع کو روکا جاسکتا ہے۔ اس سے مون سون کے سیزن میں نہ تو بارشی پانی سڑکوں پر کھڑا ہوگا اور نہ ہی سڑکیں بارش کا پانی کھڑا ہونے سے توڑ پھوڑ کا شکار ہوں گی۔ اس سے ٹریفک میں روانی بھی برقرار رکھی جاسکتی ہے اور حادثات سے بچنا بھی ممکن ہوسکے گا۔
سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پارکوں کی آبیاری کے لیے انڈر گراؤنڈ واٹر استعمال نہیں کرنا پڑے گا بلکہ یہی ذخیرہ کردہ بارشی پانی پارکوں میں آبپاشی کےلیے استعمال ہوگا، اس طرح ٹیوب چلانے کےلیے استعمال کی جانے والی بجلی کی بھی بچت ہوگی۔ اگر ایسے منصوبے بنائے جائیں تو عالمی ادارے فراخدلی سے مدد کرنے کو بھی تیار ہوں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے منصوبوں پر کام کیا جائے تاکہ بارش کے پانی کو ضائع ہونے سے روکنے کے ساتھ اس کا مفید استعمال ہوسکے۔ یہ سب یقیناً ممکن ہے اگر قوم اور حکمران مل کر سوچیں تو!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔