پاکستان ایک نظر میں سوچ کا فرق

دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہمیں ابھی تک اپنے کوڑے کا مسئلہ حل نہیں کر سکے۔


دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہمیں ابھی تک اپنے کوڑے کا مسئلہ حل نہیں کر سکے۔

رات کے 12بجے تھے آج میری چھٹی تھی اور میں چھت پر لیٹا ہوا تارے گن رہا تھا ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ سکون محسوس کرتے ہوئے کہ اچانک باہر شور کی آواز سنائی دی اور یہ شور گالیوں ،دھمکیوں ، آہوں اور سسکیوں میں تبدیل ہو گیا اتنے پر سکون ماحول میں اچانک یہ طوفان آ گیا باہر جا کر دیکھا تو دو ہمسائے بشمول اپنے بھائیوں اور رشتے داروں کے ہمراہ ایک دوسرے پر حملہ آور تھے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کی بھی دھمکیاں دے رہے تھے۔

کچھ محلے داروں نے ہمت کرکے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا جس کی زد میں آکر وہ خود بھی زخمی ہو گئے ۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ لڑائی کی وجہ یہ تھی کہ مبینہ طورپر ہمسائے نے دوسرے کے گھر کے سامنے کوڑا ڈال دیا تھا۔ اس شورنے پر سکون ماحول کو تہہ بالا کر دیاتھا۔ تمام محلہ دار گھروں سے باہر آ گئے ۔

بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ہوائی فائرنگ کی آواز سنائی دینے لگی جس سے ا چانک بھگدڑ مچ گئی اور لوگ پولیس کو فون کرنے لگے ۔پولیس نے اتنی تیزی دکھائی کہ پورے 2گھنٹے بعد پہنچی اور لوگوں سے واقعہ کے بارے میں پوچھنے لگی۔ دونوں پارٹیوں کے ہمدرد ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے تھے اور آہستہ آہستہ بات صلح تک پہنچ گئی۔ ایک دوسرے کو قتل کی دھمکیاں دینے والے صلح پر آمادہ ہو گئے تھے۔ کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ اگر پولیس کیس بن گیا تو عمر نوح چاہیے انصاف لینے کے لیے۔

پانچ چھ گھنٹے کی اس کارروائی کے بعد پھر سونے کے لیے لیٹ گیا صبح فریش ہونے کے بعد جب اپنا لیپ ٹاپ چلایا اور خبریں پڑھنے لگا تو اس میں دو بڑی اہم خبریں میری نظر سے گزریں ایک خبر یہ تھی کہ اسرائیل میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کے مسئلے اور تنگ روڈ کی وجہ سے سائنس دان اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ گاڑیاں ہوا میں چلائی جائیں ۔اور اس سلسلے میں انہوں نے اس کے لیے باقاعدہ بجٹ کی منظور بھی دیدی ہے اور عنقریب وہ اس کی آزمائش بھی کرنے جار ہے ہیں ۔دوسری ایک ا ہم خبر یہ تھی کہ سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ایسی گاڑی بنائی ہے جس کو دماغ سے بذریعہ سینسر کنٹرول کیا جا ئے گا۔

یہ دونوں خبریں پڑھنے کے بعد میرا دماغ رات والے واقع کی طرف مڑ گیا اور میں سوچنے لگا کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہمیں ابھی تک اپنے کوڑے کا مسئلہ حل نہیں کر سکے۔ شاید اس کی وجہ سوچ اور ترجیحات میں فرق ہے۔ ہماری سوچ اور ترجیحات یہ ہوتی ہیں کہ کس طرح ہم اپنا کوڑا کسی کے دورازے کے آگے ڈالیں یا اپنی مصیبت کسی دوسرے کے گلے میں ڈال دیں۔ جبکہ ترقی یافتہ لوگوں کی سوچ اور ترجیحات یہ ہوتی ہیں کہ کس طرح لوگوں کے لیے کچھ ایسا کار آمد کام کر دیں جو آنے والی نسلوں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کردے اور ہم میں یہ سوچ اس وقت پیدا ہوگی جب لوگوں کو تعلیم اور شعور دیا جائے گا نہ کہ پیلی ٹیکسی اور قرضے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں