دنیا بھر سے غلطی ہوگئی

ارے صاحب چھوڑیے نا، لڑکے ہیں، اب آپ پھانسی کی سزا دیں گے کیا!


Rizwan Tahir Mubeen July 07, 2014
ارے صاحب چھوڑیے نا، لڑکے ہیں، اب آپ پھانسی کی سزا دیں گے کیا!. فوٹو فائل

''تم نے گالی کیوں دی؟''

طالب علم کے منہ سے مغلظات سن کر استاد کا پارہ چڑھ گیا۔

''سر غلطی سے نکل گئی!'' طالب علم نے صفائی پیش کی تو استاد نے کہا ''تم گالیاں دیتے ہو، تب ہی غلطی سے بھی نکلی نا۔۔۔!''

حقیقت ہے کہ غصہ اور خوشی اور غمی کی جذباتی کیفیات میں بے خیالی اور بے دھیانی میں ہونے والی بہت سی چیزیں ہمارے باطن کا پتا دے جاتی ہیں۔ چاہے اسے غلطی کہہ کر بعد میں معافی تلافی کر لیں، مگر کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح ہماری اصلیت واضح ہو جاتی ہے، کیوں کہ یہی غلطیاں بتلاتی ہیں کہ ہمارے دماغ میں کیا کچھ ہے۔ ہماری ذہنی سطح کیا ہے اور ہماری قابلیت کے جامے میں کتنی جہالت ہے!

ایسا ہی کچھ تپاس پال نامی بھارتی رکن پارلیمان نے کیا۔ انہوں نے کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کے خلاف بیانات داغتے ہوئے ان کی خواتین کی عصمت دری کی باقاعدہ دھمکی دے ڈالی۔ گھٹیا پن پر مبنی ان کی یہ گفتگو منظر عام پرآئی، تو تپاس پال نے پہلے تو اس بیان کی صحت سے ہی انکار کیا، مگر پھر لوگوں کے دبائو کے تحت انہیں اس کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگنا پڑی۔ بقول تپاس پال کے ''میرے پاس معذرت کے لیے الفاظ نہیں، لیکن جو کچھ ہوا وہ سنگین غلطی تھی اور آئندہ ایسا نہیں ہوگا!''

سیاست میں بے قابو بھاشنوں کے بعد معافی مانگ لینے کا چلن کوئی نیا نہیں، لیکن یہ بیانات دراصل جذبات کے اس بہاؤ کا نتیجہ ہوتے ہیں، جو کسی بھی شخصیت کی اندروی پرتوں کو کھول کر رکھ دیتا ہے۔ پھر سارے بھرم تیل ہو جاتے ہیں، شرافت ٹھکانے لگتی ہے اور معاشرے کے پس ماندہ اور گھٹیا پیمانے عیاں ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ایک تپاس پال پر ہی کیا قیاس، ہم اس کلیے کو اپنے ہاں کے بھی ہر سیاسی مداری کے بیان پر رکھ کر دیکھ سکتے ہیں، چاہے اس نے پھر بیان واپس لینے کا ناٹک ہی کیوں نہ رچایا ہو!

بھارتی سماج میں بنت حوّا کی حیثیت کیا ہے؟ تپاس پال کا بیان تو ایک چاول ہے، جو باقی دیگ کا پتا دیتا ہے۔ حکمراں طبقے میں خواتین کے مقام پتا چلنے کی یہ واحد مثال نہیں۔ یوپی کے وزیراعلی اکھلیش یادو بھی خواتین کی عصمت دری کے واقعے پر شان بے نیازی سے کہتے ہیں کہ گوگل پر جاکر تلاش کرو، باقی جگہوں پر بھی یہ واقعات ہو رہے ہیں۔ اکھلیش یادو کے والد اور تین بار یوپی کے وزیر اعلی رہنے والے ملائم سنگھ یادو نے بھی ہٹ دھرمی سے خواتین کی عصمت دری کے خلاف سخت قوانین کی مخالفت کی تھی کہ ''ارے صاحب چھوڑیے نا، لڑکے ہیں، اب آپ پھانسی کی سزا دیں گے کیا!''

معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں عورت کو ابھی تک مکمل انسان تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ تاریک دور کی طرح آج بھی پیدایش کے پل ہی اسے فنا کے گھاٹ اتارنے کی خواہش پوری کی جاتی ہے۔ اسی لیے ہندوستان میں قبل ازوقت پیدایش جاننے پر پابندی عاید کی جا چکی ہے۔ ٹھہریے، اگر آپ حب الوطنی کے تحت گردن اکڑا رہے ہیں، کہ ہم ایسے نہیں ہیں، تو اپنے گریبان میں بھی جھانکتے جائیے۔ ہم اپنی بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے ہیں، مگر ہمارا جبر اور ظلم اسے زندگی بھر کی موت سے ہم کنار کرتا ہے۔ یہاں میں اپنے منتخب ایوان بالا (سینیٹ) کے اس معزز رکن کے بیان کی بھی بات نہیں کروں گا، جس نے ایوان کے اجلاس میں دیدہ دلیری سے عورتوں کو زندہ درگور کرنے کو اپنی روایت قرار دیا تھا۔ اور نہ ہی میں یہاں محض ایک الزام کے بعد زندگی سے محروم کر دی جانے والی لڑکیوں کا ماتم کروں گا۔ اور نہ ہی میں ان ننھی کلیوں کا نوحہ کہوں گا، جس کی پیدایش پر اس کی ناک پر ململ کے کپڑے میں خاک رکھ دی جاتی ہے، تاکہ خاموشی سے اس ننھی پری کے جیون کی ڈور ٹوٹ جائے!

یہاں موضوع بحث صرف وہ لوگ ہیں، جو نام نہاد تہذیب یافتہ سماج میں بستے ہیں، اور خود کو بہت اعلا و ارفع گردانتے ہیں، مگر بات جب خواتین کی آتی ہے، تو وہ ذرا رعایت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ کیا صرف بنت حوا کو زندہ درگور کرنا، پنچایت کے حکم پر یا تپاس پال کی طرح علی الاعلان عصمت دری کی دھمکی دینا ہی جہالت ہوتی ہے۔ میری نظر میں تو جہیز لینے والا لڑکا بھی کسی طرح تپاس پال سے کم نہیں، جو صنف نازک کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

کیا کہا آپ نے؟ آپ بہت ہی روشن دماغ اور روشن خیال ہیں! اچھا یہ بتائیے، دوسروں کو گالیاں کون سی دیتے ہیں۔ اپنی گالیوں میں کسے مطعون کرتے ہیں؟؟ کچھ آئی سمجھ؟

بس پھر بھارتی رکن پارلیمان تپاس پال نے بھی تو کچھ ایسا ہی کیا۔ پھر کیا فرق رہ گیا اُن کے اور ہمارے بیچ؟۔

میں نے تپاس پال کی گھٹیا ذہنیت کی مذمت کرنا تھی، مگر اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو اب میرا قلم بھی گنگ ہوگیا۔ ہو سکے تو کچھ سوچیے گا ضرور!



نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں