سمندر کے پانی سے لیتھیئم نکالنے کا نیا طریقہ کار وضع
سائنس دانوں کی جانب سے اس طریقے کو پائیدار اور ماحول دوست طریقہ قرار دیا جارہا ہے
امریکا میں سائنس دانوں نے سمندر کے پانی سے لیتھیئم نکالنے کے لیے کم لاگت کا طریقہ کار وضع کر لیا۔ سائنس دانوں کی جانب سے اس طریقے کو پائیدار طریقہ قرار دیا جارہا ہے۔
گزشتہ برسوں میں برقی گاریوں کے مقبول ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر لیتھیئم کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس دھات کی پیداوار 2021 کی مقدار پانچ لاکھ میٹرک ٹن سے بڑھ کر 2030 تک 40 لاکھ میٹرک ٹن تک بڑھ سکتی ہے۔
روایتی طور پر لیتھیئم کو چٹانوں سے نکالا جاتا ہے جو کہ ایک مہنگا اور توانائی کی کھپت والا عمل ہے اور اس میں زہریلے کیمیکلز کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔
کچھ عرصہ سے کان کن دھات کے حامل نمک کی جھیل کے پانی کو بھانپ سے اڑا کر لیتھیئم نکال رہے ہیں۔ یہ طریقہ بھی کافی مہنگا اور ماحول کے لیے نقصان دہ ہے۔ مزید برآں نمک کی جھیلوں کی دستیابی کا انحصار مخصوص موسمیاتی کیفیات پر ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ نمکین پانی سے لیتھیم نکالنے کے نئے طریقہ کار کی لاگت موجودہ طریقہ کار کے مقابلے میں 40 فیصد کم ہے۔
گزشتہ برسوں میں برقی گاریوں کے مقبول ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر لیتھیئم کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس دھات کی پیداوار 2021 کی مقدار پانچ لاکھ میٹرک ٹن سے بڑھ کر 2030 تک 40 لاکھ میٹرک ٹن تک بڑھ سکتی ہے۔
روایتی طور پر لیتھیئم کو چٹانوں سے نکالا جاتا ہے جو کہ ایک مہنگا اور توانائی کی کھپت والا عمل ہے اور اس میں زہریلے کیمیکلز کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔
کچھ عرصہ سے کان کن دھات کے حامل نمک کی جھیل کے پانی کو بھانپ سے اڑا کر لیتھیئم نکال رہے ہیں۔ یہ طریقہ بھی کافی مہنگا اور ماحول کے لیے نقصان دہ ہے۔ مزید برآں نمک کی جھیلوں کی دستیابی کا انحصار مخصوص موسمیاتی کیفیات پر ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ نمکین پانی سے لیتھیم نکالنے کے نئے طریقہ کار کی لاگت موجودہ طریقہ کار کے مقابلے میں 40 فیصد کم ہے۔