معاشی آزادی کے اہداف اور اسمگلنگ کا خاتمہ

سرحد سے غیر قانونی طور پر کچھ اشیاء کی اسمگلنگ کا سلسلہ آج بھی جاری ہے

(فوٹو: فائل)

پاکستان کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے، جو پاکستان کے ڈیفالٹ کا بیانیہ بنا رہے تھے وہ آج کہاں ہیں؟ پاکستان کا سب سے بڑا اور قیمتی سرمایہ ہمارے نوجوان ہیں، ہم کسی صورت اسے ضایع نہیں ہونے دیں گے، ان خیالات کا اظہار آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے قومی یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دوسری جانب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ اسمگلنگ کے ناسور کے ملک سے مکمل خاتمے کے لیے تمام ادارے اپنی کوششیں تیز کریں، اسمگلنگ میں ملوث افراد کو پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے۔

یہ بات پوری قوم اور بالخصوص نوجوانوں کے لیے باعث اطمینان ہے کہ ملک میں معاشی بہتری کی جانب سفر شروع ہوچکا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ نے یوتھ کنونشن سے خطاب میں جن صائب خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ نہ صرف قابل ستائش ہیں، بلکہ قوم کے نوجوانوں کے لیے درست سمت کے تعین میں مدد فراہم کریں گے۔ آرمی چیف اور تمام عسکری قیادت ملک کی حفاظت اور معیشت کی بہتری کے لیے پوری مستعدی اور تندہی کے ساتھ اپنی کوششوں میں مگن ہے۔

سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو لوگوں کو جسمانی موجودگی کے بغیر فاصلاتی بات چیت کا موقع فراہم کرتا ہے اور آج دنیا میں روزمرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے۔ جیسا کہ مارشل میک لوہان نے بجا طور پر کہا ہے کہ '' دنیا ایک عالمی گاؤں ہے'' اور بلاشبہ، حالیہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں اب 4.70 بلین لوگ یعنی 59 فیصد آبادی سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے سوشل میڈیا کو شرپسند عناصر نے اپنے مذموم مقاصد اور نئی نسل کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ جعلی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نئے ضوابط اور پالیسیاں نافذ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اس میں الگورتھم کی شفافیت، مواد پر چیکس اور غلط معلومات پھیلانے والے افراد یا گروہوں کے خلاف تادیبی اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔پاکستان کے دیوالیہ ہونے اور سری لنکا بننے کا جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے قوم میں مایوسی پھیلانے کی کوششیں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہیں، بعض گروہ نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے اور قوم خوشحال ہو اس لیے نت نئے طریقوں کے ذریعے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے اور ریاست کو کمزور ثابت کرنے کی مذموم کوششیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس جھوٹے الزامات، گمراہ کن پروپیگنڈے اور توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

ایسے لوگوں نے نہ کسی سیاسی مخالف کو چھوڑا جس کی پگڑی نہ اچھالی ہو اور اس کو برے القابات سے نہ پکارا ہو اور بے بنیاد الزامات نہ لگائے ہوں۔ ان لوگوں نے ملکی اداروں کے وقار اور عزت کا بھی لحاظ نہیں رکھا حتیٰ کہ ان شہدا کے مرتبے اور احترام کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا جنھوں نے اس ملک و قوم کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کی عظیم قربانیاں دی ہیں۔ ان کا مقصد ملکی سالمیت کو کمزور کرنا اور عوام میں بدگمانی پیدا کرنا ہے، ان لوگوں کو اس مقصد میں کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوسکے گی۔

معیشت کے ساتھ ساتھ ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتحال میں بھی بہتری کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ ملک کے اندر دہشت گردی روکنے کے لیے موثر اقدامات کی وجہ سے اب صورتحال وہ بالکل نہیں جوکچھ عرصہ پہلے تھی۔ ریاست اپنے بے گناہ شہریوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کو بھی نشان عبرت بنایا جا رہا ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ افغانستان اب بھی دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے جن کے ٹھکانوں کا افغان عبوری حکومت کو علم بھی ہے۔ پاکستان نے متعدد بار نہ صرف افغان حکومت کو یاد دلایا ہے کہ انھوں نے پاکستان کی طرف سے دہشت گردوں اور ان کے وہاں محفوظ ٹھکانوں سے آگاہی پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ افغان حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہی دہشت گرد گروپس مستقبل میں خود افغانستان کے لیے مشکلات اور شدید خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ دوست ممالک کی جانب سے بھاری سرمایہ کاری کا پاکستانی صنعتوں کو بہت فائدہ ہوگا اور ملک میں بے روزگاری کے خاتمے میں مدد ملنے سے غربت میں کمی واقع ہونا شروع ہوگی۔ کاروبار کا رُکا ہوا پہیہ چلنا شروع ہوگا۔


اکنامک ریوائیول پلان کے عنوان سے تیار کردہ قومی حکمتِ عملی کا مقصد پاکستان کو در پیش موجودہ معاشی مسائل اور بحرانوں سے نجات دلانا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اس منصوبے کے تحت زراعت، لائیو اسٹاک، معدنیات، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی اور زرعی پیداوار جیسے شعبوں میں پاکستان کی اصل صلاحیت سے استفادہ کیا جائے گا۔ ان شعبوں کے ذریعے پاکستان کی مقامی پیداواری صلاحیت اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری بڑھائی جائے گی۔

پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں، ہمیں صرف معیشت کو لاحق سیاسی خطرات پر قابو پانا ہے اور یہ ہماری ضرورت بھی ہے جو ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے ہمیں ترقی کی طرف گامزن کرسکتی ہے۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کو ایک ایسا وزیراعظم ملا ہے جو پچھلے کئی برس سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اقتصادی ترقی کے حصول کے لیے میثاقِ معیشت کی دعوت دے رہا ہے اور اپنی سیاست پر ریاست کو ترجیح دے کر ملک کو معاشی قوت بنانے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔

اسی ضمن میں وزیراعظم نے گزشتہ روز ایک اجلاس میں اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات کی ہدایات جاری کی ہے۔ سرحد سے غیر قانونی طور پر کچھ اشیاء کی اسمگلنگ کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہمسایہ ملک ایران اور افغانستان کی سرحد سے بڑے پیمانے پر خام تیل، اشیائے خورونوش، الیکٹرانکس اور گاڑیاں غیر قانونی طریقے سے ملک میں لائی جا رہی ہیں، اسمگل ہونے والی اشیاء میں سرفہرست گاڑیاں ہیں۔ ملک کے دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اسمگل شدہ جاپانی گاڑیوں کا کاروبار ہر گزرتے دن کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔

جاپان سمیت مختلف ممالک سے پہلے یہ گاڑیاں دبئی پورٹ لائی جاتی ہیں جہاں ڈیلر ان گاڑیوں کو کنٹینر میں کچھ اس طرح لوڈ کرتے ہیں کہ کئی گاڑیوں کے 3 سے 4 حصے کیے جاتے ہیں کئی گاڑیوں کی چھتیں کاٹی جاتی ہیں جب کہ کئی ثابت طریقے سے کنٹینر میں لوڈ کی جاتی ہیں جو مختلف ذرائع سے افغانستان پہنچائی جاتی ہیں۔ ماضی میں جب پاک افغان سرحد پر باڑ نہیں لگائی گئی تھی تب یہ گاڑیاں توبہ اچکزئی اور چمن کے خفیہ پہاڑی راستوں سے پاکستان لائی جاتی تھیں اور پاک افغان سرحدی شہر چمن میں ایک بڑی مارکیٹ میں ان گاڑیوں کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، تاہم اب چمن سے منسلک سرحد پر باڑ لگ جانے کی وجہ سے یہ کابلی گاڑیاں اب نوشکی کے علاقے کرد جنگل کے چور راستوں سے پاکستان لائی جاتی ہیں اور کرد جنگل میں ان گاڑیوں کی بڑی مارکیٹ لگتی ہے۔مقامی افراد جنھیں لغڑی کہا جاتا ہے وہ ضمانت پر ان گاڑیوں کو ایک مخصوص رقم کے عوض کوئٹہ پہنچاتے ہیں جہاں سے پھر ان گاڑیوں کو ملک کے دیگر حصوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

علاقہ سرحد سے جتنا دور ہوگا لغڑی اتنی ہی رقم وصول کرتا ہے۔ ملک میں آئے روزگاڑیوں پر اضافی ٹیکسز عائد کیے جارہے ہیں جس کے سبب 650 سے لیکر 1000 سی سی گاڑیاں 25 سے 30 لاکھ روپے میں دستیاب ہوتی ہیں، وہیں یہ کابلی گاڑی 6 سے 7 لاکھ میں بآسانی مل جاتی ہے۔ ایسے میں 60 سے 70 فیصد کم قیمت پر جاپانی گاڑی میسر ہوتی ہے جو جیب پر ہلکی اور عام شہری کی ضرورت پوری کر دیتی ہے،کیونکہ کسی بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص 25 سے 30 لاکھ کی گاڑی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا ایسے میں یہ گاڑی انھیں سستی سواری مہیا کرتی ہے، اگر حکومت گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی لے آئے تو ہم کسٹم پیڈ گاڑیاں خریدیں گے۔

ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ہر 10 میں سے 2 گاڑیاں نان کسٹم پیڈ ہیں۔ یہ کابلی گاڑیاں جہاں ٹریفک میں اضافے کا باعث بنتی ہیں وہیں رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے مقاصد میں بھی استعمال ہوتی ہیں، ایسے میں حکومت کو کابلی گاڑیوں کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان سرحد کے ساتھ 6 ممالک کے بارڈر لگتے ہیں۔

ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان، چین اور ایران شامل ہیں۔ افغانستان میں ترک، تاجک اور ازبک بھی رہتے ہیں یہ لوگ باقی ملکوں میں تو پاسپورٹ لے کر داخل ہوتے ہیں، ان ممالک میں داخل ہونے کے لیے ویزہ سسٹم ہے، لیکن ان لوگوں نے پاکستان کو ایک سافٹ بارڈر رکھا ہوا ہے ۔

موجودہ حکومت نے مختصر وقت میں ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے غیر مقبول فیصلے کیے ہیں اور پارٹی سیاست کی قربانی دے کر ملک کو بچایا ہے جس کی انھیں سیاسی طور پر قیمت تو ادا کرنا پڑی مگر پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا حالانکہ پچھلی حکومت کے پیدا کردہ معاشی بحران نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا تھا۔ سیاسی جماعتوں کو آج اس بات کا اعادہ کرنا ہوگا کہ حقیقی سیاسی قیادت الیکشن پر نہیں بلکہ آنیوالے مستقبل پر نظر رکھتی ہے اور ہمیں قومی مفاد کو ذاتی انا، ضد اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ نہیں چڑھنے دینا چاہیے کیونکہ معاشی آزادی کا ہدف حاصل کیے بغیر حقیقی آزادی کا تصور ناممکن ہے۔
Load Next Story