سچی پیش گوئیاں حصہ اول

بس پروردگار جس کو بھی چاہے یہ صلاحیت دے سکتا ہے کہ وہ مستقبل میں جھانک لے


Raees Fatima August 23, 2024
[email protected]

اس وقت میرے سامنے جو کتاب ہے اس کا نام ہے '' سچی پیش گوئیاں'' اور اس کے خالق ہیں حضرت نعمت اللہ شاہ ولی۔ اس کتاب میں حضرت کی تین سو پیش گوئیاں شامل ہیں جو فارسی اشعارکی صورت میں ہیں۔ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی دراصل ان کے اشعار کی تعداد تقریباً ڈھائی سے تین ہزار ہے اور یہ اکیس برس میں لکھے گئے لیکن ان کے تمام اشعار دستیاب نہیں۔ اگر وہ بھی مل جاتے تو آنے والے زمانے کی بہتر تصویر ہمیں مل جاتی لیکن شاید اس میں بھی قدرت کی کوئی حکمت ہوگی۔ ان کا ایک شعر یوں ہے:

آگہی شد نعمت اللہ شاہ از اسرار غیب

گفتہ او بر مہر و ماہ بے گماں پیدا شود

اس کا ترجمہ یوں ہے کہ نعمت اللہ شاہ ولی غیب کے رازوں سے واقف ہوا۔ اس نے جو کچھ کہہ دیا وہ زمانے میں یقینا ظاہر ہوگا۔ بزرگ نے یہ نہیں کہا کہ انھیں غیب کا علم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ غیب کے رازوں سے آگاہ ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسرارکا جو لامحدود خزانہ موجود ہے اس میں سے کچھ انھیں بھی عطا کردیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے ولی کا معاملہ ہے کہ یہ رازکس طرح بتائے گئے، اللہ کے ولی بہت بڑا مقام رکھتے ہیں۔ ان کے اور باری تعالیٰ کے درمیان جو بھی معاملات ہیں وہ ہم گنہگاروں کی سمجھ بوجھ سے بالاتر ہیں۔ نعمت اللہ شاہ ولی فرماتے ہیں کہ انھوں نے جو کچھ کہا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔ ظاہر ہے اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں آگاہ کیا گیا ہے تو یہ قدرت کے بھید ہیں جس پر اس نے اپنی بزرگ ہستی کے لیے پردہ ہٹا دیا ہے، اگلا شعر بھی اسی نوعیت کا ہے:

نہ وردے بخود نمے گویم

بلکہ ازسرِ یار مے بینم

''یعنی یہ جو وارداتیں ہیں، انھیں میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ میں مولا کریم کے رازوں کو دیکھتا ہوں۔''

دنیا میں اور بھی لوگ ایسے گزرے ہیں جنھوں نے مستقبل کی پیش گوئیاں کی ہیں۔ اس معاملے میں ناسٹرڈیمس کی پیش گوئیاں بھی مشہور ہیں۔ ان کی ایک پیش گوئی کو سبھی پورا ہوتا دیکھ چکے ہیں یعنی وہ تھی 9/11 کے حوالے سے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ '' فضا میں دو آہنی پرندے ٹکرائیں گے'' سب نے دیکھا کہ دو آہنی پرندوں سے ان کی مراد کیا تھی۔ اسی طرح نابینا خاتون بابا وانگا کی کئی پیش گوئیاں سچ ثابت ہو چکی ہیں۔ 900 برس قبل نعمت اللہ شاہ ولی کی بہت سی پیش گوئیاں سچ ثابت ہو چکی ہیں اور کیا خبر کہ آیندہ جو پیش گوئیاں انھوں نے کی ہیں وہ بھی پوری ہو جائیں۔ انھوں نے دجال کی آمد، حضرت عیسیٰؑ کا دوبارہ نزول اور امام مہدی کے ظہور کی پیش گوئیاں بھی کی ہیں۔

غیب کا علم خدا کو ہے، لیکن پروردگار ہی اپنے کچھ خاص بندوں کو طاقت اور کشف عطا کرتا ہے جن سے وہ مستقبل کی پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں ہندو جوتشی بھی کرتے ہیں۔ وہ جب جنم پتری بناتے ہیں تو پیدائش سے لے کر موت تک میں آنے والے سبھی واقعات درج ہوتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ ہاتھ کی لکیروں سے مستقبل کا بتانے کا دعویٰ کرتے ہیں، میرے والد کو بھی میوزک اور ادب کے علاوہ ہاتھ دیکھنے کا شوق بھی تھا، انھوں نے ڈھیروں کتابیں پڑھی تھیں جس کا ہاتھ دیکھ کر بھی کچھ بتاتے وہ درست ثابت ہوتا۔

اسی طرح دیوان سنگھ مفتون نے اپنی کتاب ''ناقابل فراموش'' میں ایک واقعہ درج کیا ہے کہ وہ جب جوتشی کے پاس پہنچے تو اس نے ان کی تاریخ پیدائش دیکھ کر ماضی کے جو واقعات بتائے وہ سو فیصد درست تھے۔ پھر مستقبل کے حوالے سے جو باتیں بتائیں وہ بھی سچ ثابت ہوئیں۔ اسی طرح علم نجوم ہے جس سے انسانوں کی قسمت کا پتا چلتا ہے۔ بس پروردگار جس کو بھی چاہے یہ صلاحیت دے سکتا ہے کہ وہ مستقبل میں جھانک لے۔ ذیل میں ہم نعمت اللہ شاہ ولی کی صرف ان پیش گوئیوں کا ذکر کریں گے جو پوری ہو چکی ہیں۔ پہلے ان کے وہ اشعار دیکھیے جن میں انھوں نے:

نعمت اللہ نشستہ درکنجے

ہمہ را در کنار مے بینم

نعمت اللہ ایک کونے میں بیٹھا ہوا ہے، اور وہ ایک کنارے سے سب کچھ دیکھ رہا ہے۔

ایک شعر میں پہلی جنگ عظیم کی خبر دی ہے۔ یہ جنگ 1914 سے 1918 تک لڑی گئی جب کہ شاہ ولی اللہ نے اس کی خبر پونے آٹھ سو سال قبل دے دی تھی۔

تا چہار سال جنگے افتد بہ بر غربی

فاتح الف گردد بر جیم فاسقانہ

یعنی مغرب یا یورپی ممالک چار سال کے لیے ایک جنگ لڑیں گے۔ الف یعنی انگلینڈ، جیم یعنی جرمنی پر بڑے فاسقانہ انداز میں فتح حاصل کرے گا۔ دنیا نے دیکھا کہ پہلی جنگ عظیم میں ایک طرف متحدہ فوج تھی جو فرانس، برطانیہ، امریکا، اٹلی، جاپان اور روس پر مبنی تھی اور دوسری طرف جرمنی، آسٹریا، ہنگری، بلغاریہ اور ترکی تھے۔ اس جنگ میں متحدہ فوج کو فتح حاصل ہوئی تھی جب کہ جرمنی اور اس کے ساتھی شکست سے دوچار ہوئے تھے۔ شعر کے پہلے مصرعے میں الف یعنی انگلینڈ اور دوسرے مصرعے میں جیم یعنی جرمنی کی طرف اشارہ ہے۔ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ انگلینڈ متحدہ فوج کی قیادت کر رہا تھا اور جیم یعنی جرمنی مخالف گروپ کی قیادت کر رہا تھا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد دوسری جنگ عظیم چھڑگئی، دراصل دونوں فریقوں نے اپنے دل میں بغض و عناد رکھا ہوا تھا، اس عناد نے پھر ایک بار دنیا کا امن تہہ و بالا کر دیا اور تباہی و بربادی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ شعر دیکھیے:

اظہار صلح باشد لیکن پنہاں کنند ساماں

جیم و الف مکرر رو در، مبارزانہ

یعنی ظاہری طور پر تو ایسا لگے گا کہ دونوں خاموش ہیں لیکن جیم (جرمنی) اور الف (انگلینڈ) دوبارہ جنگ کی تیاریوں میں مصروف رہیں گے۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد دوسری جنگ عظیم بالکل اسی طرح لڑی گئی جس طرح بزرگ نے فرمایا تھا۔

پس سال بست و یکم آغاز جنگ دوئم

مہلک ترین اول باشد یا جارحانہ

یعنی اکیس برس بعد دوسری جنگ عظیم شروع ہو جائے گی، یہ پہلی جنگ عظیم سے بھی زیادہ خطرناک ہوگی اور پھر ٹھیک اکیس برس بعد دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی۔ جیساکہ بزرگ نے صدیوں پہلے فرمایا تھا۔ پہلی جنگ عظیم 1914 میں شروع ہوئی اور 1918 کو ختم ہوئی جب کہ دوسری جنگ عظیم 1939 کو شروع ہوئی اور 1945 تک جاری رہی۔ نعمت اللہ شاہ ولی نے دوسری جنگ عظیم کو مہلک ترین قرار دیا۔ دوسری جنگ عظیم میں سات کروڑ لوگ مارے گئے جب کہ پہلی جنگ عظیم میں تقریباً ایک کروڑ ساٹھ لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں