پاکستان بنگلہ دیش نہیں

پاکستان کی اپوزیشن نے پی ٹی آئی حکومت کی فسطائیت و جبر کے باوجود فوجی املاک پر حملے نہیں کیے


Muhammad Saeed Arain August 23, 2024
[email protected]

15 سال سے زنانہ آمریت کے شکار بنگلہ دیش سے متاثر پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور جمہوریت کے نام پر پونے چار سال شخصی آمریت مسلط رکھنے والے ایک سال سے قید عمران خان پاکستان میں بھی بنگلہ دیش ماڈل قائم کرکے اپنے مخالفین کو سختی سے کچل کر اپنی حکومت کے 5 سال مکمل کرنے کے بعد مزید اقتدار چاہتے تھے۔ انھوں نے گزشتہ دنوں شیخ مجیب الرحمن کی حمایت میں اپنے سوشل میڈیا ونگ کے ذریعے قوم سے ایک سوال پوچھا تھا ۔

2011 سے بالاتروں کی اندرونی حمایت حاصل کر کے پی ٹی آئی کی حمایت بڑھا کر وہ 2013 میں کوشش کے باوجود الیکشن نہ جیت سکے تھے مگر اکثریت نہ ہونے کے باعث دو دیگر پارٹیوں جماعت اسلامی اور آفتاب شیرپاؤ کی حمایت سے کے پی میں اپنی حکومت بنا لی تھی جس کے بعد دس سال سے اب بھی کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، جس کے وزیر اعلیٰ بڑھکیں مار رہے ہیں اور 5 اگست کے جلسے میں دھمکی دے چکے ہیں کہ خان کی رہائی نہ ہوئی تو ملک میں دما دم مست قلندر ہوگا اور میں اپنے کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ کر کے ڈی چوک پر جلسہ کروں گا اور کوئی مجھے روک سکتا ہے نہ جلسے کی این او سی منسوخ کرسکے گا۔ خوف کے بت توڑ دیے ہیں اور ہم حقیقی آزادی تک اپنے اسیر قائد کے ساتھ ہیں۔

پی ٹی آئی کے رہنما تسلیم کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں اپوزیشن پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے اور وہاں کے گھٹن زدہ ماحول میں انقلاب تو آنا ہی تھا اور وہاں کی وزیر اعظم ڈکٹیٹر بن چکی تھیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کے حالات میں سمجھنے کے لیے بڑا سبق ہے جہاں طلبا نے تحریک کا آغازکیا اور خود کو طاقتور سمجھنے والی حسینہ واجد کو فوری طور اقتدار چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ لوگ سمجھتے نہیں۔ وہاں کے حالات سے حکومت اور اپوزیشن کو سبق سیکھنا چاہیے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ بنگلہ دیش کی صورت حال سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک مضبوط اپوزیشن کسی بھی حکومت کی گارنٹی ہوتی ہے ملک میں آمرانہ سوچ نہیں چل سکتی۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ بانی بنگلہ دیش کی آمر بیٹی حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو چن چن کر پھانسیاں دیں اور اپنے لوگوں پر ہر قسم کا ظلم روا رکھا اور وہ مکمل آمر بن چکی تھیں جنھوں نے فوج کی مدد سے الیکشن جیتے اور ملک پر بدترین آمریت مسلط رکھی جس کی وجہ سے وہاں کے عوام عوامی لیگ کے خلاف اس حد تک ہو گئے کہ انھوں نے حسینہ واجد کے فرار کے بعد ان کے والد شیخ مجیب جو بنگلہ دیش کے بانی تھے کو بھی نہیں بخشا۔ ان کا مجسمہ تباہ کر دیا۔ عوامی لیگ کے رہنما کا ہوٹل، اندرا گاندھی کلچرل سینٹر نذر آتش کر دیا اور بھارتی سفارت خانے کی طرف جانے کی کوشش کی مگر فوج نے انھیں وہاں جانے نہیں دیا۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے حالات میں واضح فرق ہے۔ بنگلہ دیش کی طرح پاکستان میں سوا دو سال سے قائم پی ٹی آئی کے مخالف جماعتوں کی حکومت نے اپنے کسی مخالف کو پھانسی نہیں دی۔ بانی پی ٹی آئی اپنے جرائم کے باعث ایک سال سے قید ہیں جہاں جیل میں انھیں شاہانہ سہولتیں میسر ہیں جو خود انھوں نے اپنی حکومت میں نہیں دی تھیں بلکہ اپنے تمام سیاسی مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرا کر انھیں سخت اذیت سے دوچار رکھا تھا اور وہ خود نیٹ کے ذریعے ان کی مشکلات دیکھ کر نہ صرف لطف اندوز ہوتے تھے بلکہ انھیں قانونی سہولیات بھی لینے نہیں دی تھیں جب کہ اب وہ خود جیل میں من پسند کھانے کھا رہے ہیں۔ سرکاری مشین پر ورزش کرتے ہیں اور وسیع قید خانے میں رہ رہے ہیں اور حکومت سے اے سی، فریج، اخبار اور دوسری سہولتیں مانگتے ہیں اور الٹا غلط الزام لگاتے ہیں کہ وہ ڈیتھ سیل میں قید ہیں جب کہ ان کے الزامات کے برعکس انھیں سہولتیں میسر ہیں۔

پاکستان بنگلہ دیش سے مختلف ہے جہاں کبھی بھی ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے کہ عوام اپنے بانی کی بے حرمتی کریں یا ان کا کوئی مجسمہ یا یادگار کو تباہ کریں۔ بانی پاکستان کا احترام 76 سالوں سے نہ صرف برقرار ہے بلکہ ملک بھر سے کراچی آنے والے لوگ مزار قائد پر احترام سے آتے اور وہاں فاتحہ خوانی کرکے اپنے قائد سے محبت کا ثبوت دیتے ہیں۔ پاکستان کی کسی جمہوری حکومت میں اپنے کسی ایک مخالف کو پھانسی نہیں دی گئی۔ 1977 کے بعد کسی حکومت نے اتنی بڑی تعداد میں اپنے سیاسی مخالفین کو گرفتار نہیں کرایا جتنے عمران خان کی حکومت میں گرفتار کیے گئے تھے۔

پاکستان کی اپوزیشن نے پی ٹی آئی حکومت کی فسطائیت و جبر کے باوجود فوجی املاک پر حملے نہیں کیے۔ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم اور سالوں سے قید خالدہ ضیا نے نہ کبھی فوج کے خلاف بیان دیے نہ فوجی املاک پر 9 مئی کی طرح اپنے کارکنوں سیاحتجاج کرایا نہ حملے کرائے نہ عمران خان کی طرح دہائیاں دیں کہ مجھے ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے جو سراسر جھوٹ ہے۔

عمران خان نے حسینہ واجد سے دو ہاتھ آگے بڑھ کر حکومت کے سابق صدر، تین بار کے وزیر اعظم، سابق وزیروں اور اپنے تمام سیاسی مخالفین پر نیب کے ذریعے جھوٹے مقدمات بنوائے اور خود جج بن کر انھیں بغیر ثبوت چور، ڈاکو قرار دے کر بدنام کیا جو اب اقتدار میں ہیں۔ عمران خان نے اپنے دور میں اپوزیشن پر مظالم کی انتہا کر رکھی تھی جو اب انھیں یاد نہیں اور اب کہہ رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں جو ہوا اس کی بڑی وجہ ظلم ہے۔ موجودہ حکومت عمران خان پر ظلم کیا کرتی وہ تو انھیں جیل میں وہ سہولتیں دے رہی ہے جو انھیں نہیں ملی تھیں۔ پاکستان کا بنگلہ دیش کے حالات سے کوئی موازنہ ہے ہی نہیں نہ یہاں اپوزیشن پر حسینہ واجد جیسے مظالم کرائے گئے بلکہ پی ٹی آئی رہنما حکومت پر دھاڑنے میں مصروف ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔