نکاح مسنونہ میں تعاون

جب کو ئی بند ہ نکا ح کر لیتا ہے، تو اس کا نصف دین مکمل ہو جا تا ہے


August 23, 2024
فوٹو: فائل

اسلام میں نکاح کو ایک عظیم عبادت کی حیثیت حاصل ہے، جس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ نکاح سنتِ رسول ﷺ بھی ہے اور توالد و تناسل نیز نگاہ و شرم گاہ کی حفاظت کا ذریعہ بھی۔ انسانی طبیعت میں جو جنسی تقاضا و میلان فطری طور پر رکھا گیا ہے، اسے پورا کرنے کا واحد ذریعہ شریعت کی رُو سے نکاح ہی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:

''جب کو ئی بند ہ نکا ح کر لیتا ہے، تو اس کا نصف دین مکمل ہو جا تا ہے۔ پس! اسے باقی نصف دین کے متعلق خدا سے ڈرنا اور اس کا تقویٰ اختیار کرنا چاہیے۔'' (الترغیب)

حضرت علقمہؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے ساتھ چل رہا تھا، انہوں نے کہا: ہم حضرت نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو شخص نکاح کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ نکاح کرلے، اس لیے کہ وہ نگاہ کو نیچی کرتا ہے اور شرم گاہ کو زنا سے محفوظ رکھتا ہے، اور جس کو اس کی طاقت نہ ہو تو وہ روزے رکھے، اس لیے کہ روزہ شہوت کو توڑ دیتا ہے۔''

(بخاری ، مسلم)

باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ''تم میں سے جن (مَردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، ان کا بھی نکاح کراؤ، اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اﷲ اپنے فضل سے انھیں بے نیاز کردے گا، اور اﷲ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔'' (النور) مطلب یہ ہے کہ جو تم میں مجرد ہیں خواہ عورت، خواہ مرد، خواہ بیوہ، خواہ ناکتحذا، ان کا نکاح کر دو۔ لفظ ایا میں سب شامل ہیں، اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سے وہ شخص کہ جس کے دین اور خلق سے تم خوش ہو، نکاح کی درخواست کرے تو نکاح کر دو، ورنہ زمین پر بڑا فتنہ اور سخت فساد ہوگا۔ علماء کے نزدیک یہ امر مندوب و استحباب کے لیے ہے، بعض کہتے ہیں وجوب کے لیے فیصلہ یہ ہے کہ جہاں زنا میں مبتلا ہونے کا یقین ہو اور نکاح کرنے پر قادر بھی ہو تو نکاح کرنا واجب ہے، ورنہ مستحب ہے۔ نیز فرمایا گیا کہ اپنے غلام لونڈیوں میں سے بھی جن کو نیک دیکھو، ان کے بھی نکاح کردو۔ کیوں کہ نیک ہی نکاح اور خدمتِ مولیٰ کو ملحوظ رکھ سکتے ہیں، یا صالحین سے مراد وہ کہ جن کو نکاح کی صلاحیت ہو۔(تفسیرِ حقانی)

اس سے معلوم ہُوا نکاح کرنا حکمِ خدا اور رسول ﷺ کی تعمیل اور ثواب کا باعث ہے، اس لیے نکاح کروانا بھی یقیناً کارِ ثواب ہوگا۔

نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا ثواب کا کام ہے اور ان کے حوالے سے ضرورت مند کا نکاح کروانے کا باعثِ ثواب ہونا خصوصی طور پر معلوم ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے سماج کے بڑے بوڑھے اور اہلِ فہم و شعور اس طرف بہت متوجہ رہتے تھے، جس کا مشاہدہ پندرہ بیس سال قبل تک خُوب ہوتا تھا۔ اردو زبان میں اس قبیل سے ایک کہاوت بھی موجود ہے کہ چھان (چھپّر) کو ہاتھ لگانا بھی ثواب کا کام ہے، جس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی کی اولاد نکاح کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے نکاح میں جو بن پڑے، تعاون پیش کرے۔

ہمارے زمانے میں اس کی ضرورت شدید تر ہو گئی ہے، اور اس سے غفلت بھی۔ ضرورت بڑھنے کی وجہ تو یہ ہے کہ جب سے ''انفرادی خاندان'' کا تصور آیا ہے، اور لوگ خاندان و رشتے داروں سے کٹناشروع ہوئے ہیں، تب سے اچھا و مناسب رشتہ ملنا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہوگیا ہے۔ اوّل تو مناسب جوڑ نہیں ملتا، اور کوئی ملتا ہے تو اس کے مطالبات کی فہرست خاصی طویل ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ میریج بیورو اور نکاح کروانے والے دلال جیسی اصطلاحیں بھی عام ہوتی جا رہی ہیں، جنہیں مناسب جوڑ سے کہیں زیادہ جلد از جلد دلالی اینٹھنے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔

نکاح کروانے کی جانب لوگوں کی غفلت کی وجہ دنیوی زندگی میں انتہائی انہماک و مشغولی اور کسی حد تک خود غرضی ہے کہ کوئی کیوں کسی کی پریشانی اپنے سر لے۔ اس رجحان نے بہت سے ضرورت مند نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو نکاح جیسی عظیم نعمت سے محروم رکھا ہے، جس کا نتیجا فحاشی و حرام کاری کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ ایسے میں اصلاحِ معاشرہ کے نام پر محض جلسے جلوس کرنا کیسے سود مند ہو سکتا ہے ؟

طرّہ یہ کہ ان نوجوانوں سے لوگ یہ پوچھتے نہیں تھکتے کہ شادی کب کر رہے ہو؟ بریانی کب کھلا رہے ہو؟ جو کہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے یا کم از کم ایسے ارمان جگانے کے مترادف ہے، جن کو پُورا کرنا ان کے بس میں نہیں، اس لیے زیادتی ہے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے حج کے تعلق سے لکھا ہے: ''اکثر لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ حج کے بعد ہر مجلس میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، حالاں کہ جن پر حج فرض نہیں ہے اور ان کا جانا بھی جائز نہیں، اس وجہ سے کہ ان کی نہ مالی استطاعت ہے اور نہ مشقت پر صبر و تحمل ہو سکے گا، ان کے سامنے تشویق و ترغیب (شوق دلانے اور رغبت پیدا کرنے والے) قصّے اور مضامین بیان کرنا جائز نہیں کیوں کہ اس سے ان کو حج کا شوق پیدا ہوگا اور سامان ہے نہیں، نہ ظاہری، نہ باطنی، تو خواہ مخواہ وہ دقت اور پریشانی میں مبتلا ہوں گے، جس سے ناجائز امور کے ارتکاب کا بھی اندیشہ ہے، اس لیے ایسے لوگوں کے سامنے حج کی تشویق اور ترغیب کے مضامین بیان کرنا جائز نہیں۔'' (اغلاط العوام)

عرض یہ کرنا ہے کہ جب کسی کو نکاح کے اسباب و وسائل میسر ہی نہیں، تو بار بار اسے چھیڑنا چہ معنی؟ کیا آپ کو اس سے وحشت نہیں ہوتی کہ بار بار آپ کے اس ذکر کے باعث اس کے دل میں ارمان مچلنے لگیں اور اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلکنے لگے اور پھر وہ شہوت کے غلبے میں کسی ناجائز اور غلط طریقے کو اختیار کر لے؟

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اے امتِ محمدیہؐ! جس وقت تم میں سے کوئی مرد یا عورت زنا کرتا ہو، اس وقت اﷲ تعالیٰ سے بڑھ کر غیرت کسی کو نہیں آتی۔ اے امت محمدیہؐ! جو کچھ میں جانتا ہوں، تم بھی جان لو تو ہنسو تھوڑا اور روؤ زیادہ۔'' (بخاری ، مسلم)

حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ حضرت نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں،

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''ابنِ آدم کے جسم کے ہر جوڑ پر صبح ایک صدقہ واجب ہوتا ہے، پس ہر ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے۔ اسے نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے۔ اسے برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا صدقہ ہے۔ اپنی بیوی سے جماع کرنا صدقہ ہے۔'' صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! وہ تو اپنی شہوت پوری کرتا ہے، تو کیا یہ شہوت کی تکمیل اس کے لیے صدقہ ہوگی؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر وہ یہ شہوت غلط مقام میں پوری کرتا تو کیا گناہ گار نہ ہوتا ؟ '' (ابوداؤد)

اس آخری الذکر حدیث سے بھی نکاح کرنا اور کروانا دونوں کا کارِ ثواب ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کو کسی کے حالات سے پوری واقفیت ہے اور آپ اس کی فضیحت کے بہ جائے واقعی خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں، تو اسے مناسب جوڑ کی راہ نمائی کے ساتھ اسے نکاح کی ترغیب دیجیے، تو آپ کا یہ عمل ان شاء اﷲ ضرور بالضرور صدقۂ جاریہ ہوگا۔ کیوں کہ نیکی صرف وہی نہیں، جسے ہم اپنی سمجھ میں نیکی سمجھتے ہیں، بل کہ قرآن و احادیث میں جس خیر کا بھی صراحتاً یا اشارتاً ذکر آیا ہے، اسے انجام دینا، اس پر راہ نمائی کرنا اور اس میں تعاون پیش کرنا نیکی ہے، اور جسے کوئی نعمت میسر نہ ہو، اس کے سامنے بار بار محض اس کا ذکر کرنا، اس کا دل دکھانا ہے۔

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عنایت فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔