اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت
انسان حلال مال اہل و عیال پر خرچ کرتا رہے لیکن اس میں بھی اعتدال اور میانہ روی شامل رہے تو اس کا یہ عمل صدقہ ہے
حضرت ابو مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
''جو مسلمان اپنے اہل و عیال پر کچھ خرچ کرتا ہے اور اسے ثواب کا کام سمجھتا ہے تو اس کا یہ خرچ کرنا اس کے لیے صدقہ ہے۔'' (متفق علیہ)
اﷲ رب العزت نے انسان کو عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور پھر زندگی گزارنے کا ایسا سلیقہ اور ایسے آداب سکھائے کہ انسان کی زندگی کا ہر مرحلہ عبادت بن جائے۔ انسان جب مل جل کر زندگی گزارتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے اپنی بیوی بچوں کے لیے رہائش، کھانا، لباس اور دیگر ضروریات زندگی کا بھی انتظام کرنا ہے' اﷲ تعالیٰ نے اس عمل کو بھی نیکی اور صدقہ شمار فرمایا۔ یہاں تک کہ صحیح مسلم کی ایک روایت جو حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ہے اس میں ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ ایک دینار وہ جو کہ تم اﷲ کے راستے میں خرچ کرو اور ایک دینار وہ جسے تم غلام آزاد کرنے میں خرچ کرو، ایک دینار وہ جو تم کسی مسکین کو خیرات کرو اور ایک وہ دینار جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو تو ان سب دیناروں میں سے اجر و ثواب کے اعتبار سے زیادہ بڑا دینار وہ ہے جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو۔
یہاں لفظ صدقہ کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ قرآن و سنت میں لفظ صدقہ، زکوٰۃ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور خیرات کے لیے بھی اور عام نیکی کے معنی میں بھی، چناں چہ صدقہ سے مراد اگر زکوٰۃ یا خیرات ہو تو ایسا مال خاص مستحق افراد کو دینے کی ہدایت دی گئی ہے، سورۂ توبہ میں اﷲ تعالیٰ نے آٹھ صارف بیان فرمائے ہیں لیکن یہاں اس حدیث میں اہل و عیال پر خرچ کرنے کو جو صدقہ کہا گیا ہے اس سے مراد عام نیکی کا کام ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق اہل و عیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے تو پھر ایک اور ارشاد نبویؐ بھی ذہن میں رہنا چاہیے۔
مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ صرف پاکیزہ اور حلال چیز کو قبول فرماتا ہے۔''
لہٰذا انسان اگر حلال مال سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے تو یہ صدقہ شمار ہوگا، اس لیے کہ صرف وہی صدقہ قبول ہوتا ہے جو حلال مال سے ہو۔
صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق رسول اﷲ ﷺ نے صدقہ کے آداب کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ صدقہ کا مال اس انداز سے دو کہ تم خود فقیر اور مفلس نہ بن جاؤ بل کہ کچھ غناء، باقی رہے۔ یعنی اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کے بہ قدر مال و اسباب رکھ لو اس کے بعد جو کچھ بچ رہے اسے خدا کے نام پر خیرات کر دو اور پھر خیرات کرنے میں یہ بھی بات پیش نظر رہے کہ صدقہ کا مال پہلے ان لوگوں کو دو جن کی ضروریات زندگی تمہاری ذات سے وابستہ ہیں۔
اہل و عیال کی ضروریات کہاں تک پورا کرنا نیکی ہے اس کے لیے قرآن حکیم سے ایک اصول تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مفہوم: ''کھاؤ پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو۔'' انسان کے پاس جس قدر آمدنی کے وسائل ہوں ان کے ذریعہ حلال مال کما کر اہل و عیال پر خرچ کرتا رہے لیکن اس خرچ میں بھی اعتدال اور میانہ روی شامل رہے۔
سورۃ الفرقان میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے اوصاف بیان فرماتے ہوئے یہ خوبی بھی بیان فرمائی: مفہوم: ''اور رحمن کے بندے وہ ہیں کہ جب وہ خرچ کریں تو نہ فضول خرچی کریں اور نہ تنگی کریں۔ بل کہ ان کا خرچ اس کے درمیان اعتدال کے ساتھ ہوتا ہے۔''
اس سے انسان کو ایک طرف تو سکون ملے گا اور دوسری طرف بیوی بچوں کے اندر قناعت پسندی پیدا ہوگی جو آئندہ چل کر اولاد کی تربیت کا حصہ بن جاتی ہے کہ وہ اولاد خود بھی فضول خرچی سے بچتی ہے۔ لہٰذا انسان اپنے اہل و عیال کے لیے رہائش میں خرچ کرے، ان کے کھانے، پینے، لباس کے لیے خرچ کرے اور پھر اﷲ توفیق دے تو ان کے لیے آسائش بھی مہیا کرے یعنی گھریلو سہولیات کا انتظام کرے جس سے زندگی آرام و راحت سے گزرے اور اسلام نے جائز حد تک زیب و زینت اختیار کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔ اس لیے اہل و عیال پر شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے آرائش کی مد میں بھی خرچ کر سکتا ہے۔ ال غرض انسان اپنے اہل و عیال کی رہائش، آسائش اور آرائش پر تو خرچ کر سکتا ہے لیکن ایک چیز سے اسلام نے قطعی طور پر روکا ہے اور وہ ہے نمائش اور دکھاوا، دوسروں کے اہل و عیال پر اپنے اہل و عیال کی امارت اور اپنی دولت ظاہر کرنا۔ قرآن و سنت میں اس سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔
دور جدید میں نمود و نمائش ایک ایسی بیماری جس کی خاطر انسان حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر دولت کے حصول میں سرگرداں ہے اور اس تپتے سراب زدہ صحرا کا کوئی کنارہ نہیں ہے جس کا نتیجہ بے سکونی اور جرائم کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
فلاں کے بچے ایسے کپڑے پہنتے ہیں میں اپنے بچوں کو اس سے بڑھ کر پہناؤں گا، فلاں کے اہل و عیال کے پاس ایسی سواری، میں اس سے عمدہ سواری لاؤں گا۔ یہ دوڑ نہ ختم ہونے والی ریس ہے اس لیے اسلام نے ہمیں قناعت، صبر اور شُکر کی تعلیم دی۔ بس انسان حلال مال کمانے کی فکر کرے اور اہل و عیال پر فضول خرچی اور نمائش کے جذبہ سے پاک ہو کر خرچ کرے اور ہر وقت اہل و عیال کے اندر اخلاقی اوصاف پیدا کرنے کی فکر رکھے، بیوی بچوں پر خرچ کرنے کے دوران اگر بے جا فرمائشیں کرنے کا جذبہ نظر آنے لگے تو انہیں اپنے سے کم تر افراد کا سامنا کرائے اور پھر اﷲ کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دے۔
رسول اکرم ﷺ نے اپنی اولاد کو بالکل اس طرح تعلیم دی۔ دربار نبوی ﷺ میں چند غلام آئے آپؐ کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی طرف سے گزارش آئی کہ ایک غلام کام کاج کرنے کے لیے عطا فرما دیں، اس لیے کہ کام کرتے کرتے ہاتھوں پر نشان اور پانی کا مشکیزہ لادنے سے کندھوں پر نشان پڑ گئے ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
اے بیٹی فاطمہ! کیا میں تمہیں غلام اور یہ دنیا اور جو کچھ اس دنیا میں ہے اس سے بہتر چیز نہ دوں؟ عرض کیا: ضرور۔ فرمایا: جب تم بستر پر لیٹا کرو تو 33 بار سبحان اﷲ، 33 بار الحمدﷲ اور 34 بار اﷲ اکبر کہہ لیا کرو۔
غور فرمائیے! بیٹی نے ملازم کام کرنے کے لیے مانگا لیکن جواب میں باپ نے مشقانہ انداز میں کتنی عمدہ تربیت فرمائی۔ اہل و عیال پر خرچ کرنے کے بعد ان کو جتلانا نہیں چاہیے۔ اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: مفہوم: ''اے ایمان والو! تم اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر ضایع نہ کرو۔''
اہل و عیال پر خرچ کرنے کے دوران یہ بات بھی معاشرہ میں سامنے آتی ہے کہ لوگ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں، ابوداؤد میں حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کی روایت میں رسول اکرم ﷺ نے اس شخص کے لیے جنّت کی بشارت دی ہے جو اپنی بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دیتا ہے۔ لہٰذا انسان معاشرہ میں رہتے ہوئے اپنے اہل و عیال پر خرچ تو کرتا ہی ہے لیکن اگر یہ خرچ قرآن و سنّت کی ان تعلیمات کے ساتھ ثواب سمجھ کر کیا جائے تو یہی اجر و ثواب کا باعث ہوگا۔ اور سورۂ فرقان میں اﷲ تعالیٰ نے جو دعا سکھائی ہے وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے خوب مانگے۔ مفہوم: ''اے اﷲ! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقین کا راہ نما بنا دے۔''
''جو مسلمان اپنے اہل و عیال پر کچھ خرچ کرتا ہے اور اسے ثواب کا کام سمجھتا ہے تو اس کا یہ خرچ کرنا اس کے لیے صدقہ ہے۔'' (متفق علیہ)
اﷲ رب العزت نے انسان کو عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور پھر زندگی گزارنے کا ایسا سلیقہ اور ایسے آداب سکھائے کہ انسان کی زندگی کا ہر مرحلہ عبادت بن جائے۔ انسان جب مل جل کر زندگی گزارتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے اپنی بیوی بچوں کے لیے رہائش، کھانا، لباس اور دیگر ضروریات زندگی کا بھی انتظام کرنا ہے' اﷲ تعالیٰ نے اس عمل کو بھی نیکی اور صدقہ شمار فرمایا۔ یہاں تک کہ صحیح مسلم کی ایک روایت جو حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ہے اس میں ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ ایک دینار وہ جو کہ تم اﷲ کے راستے میں خرچ کرو اور ایک دینار وہ جسے تم غلام آزاد کرنے میں خرچ کرو، ایک دینار وہ جو تم کسی مسکین کو خیرات کرو اور ایک وہ دینار جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو تو ان سب دیناروں میں سے اجر و ثواب کے اعتبار سے زیادہ بڑا دینار وہ ہے جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو۔
یہاں لفظ صدقہ کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ قرآن و سنت میں لفظ صدقہ، زکوٰۃ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور خیرات کے لیے بھی اور عام نیکی کے معنی میں بھی، چناں چہ صدقہ سے مراد اگر زکوٰۃ یا خیرات ہو تو ایسا مال خاص مستحق افراد کو دینے کی ہدایت دی گئی ہے، سورۂ توبہ میں اﷲ تعالیٰ نے آٹھ صارف بیان فرمائے ہیں لیکن یہاں اس حدیث میں اہل و عیال پر خرچ کرنے کو جو صدقہ کہا گیا ہے اس سے مراد عام نیکی کا کام ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق اہل و عیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے تو پھر ایک اور ارشاد نبویؐ بھی ذہن میں رہنا چاہیے۔
مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ صرف پاکیزہ اور حلال چیز کو قبول فرماتا ہے۔''
لہٰذا انسان اگر حلال مال سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے تو یہ صدقہ شمار ہوگا، اس لیے کہ صرف وہی صدقہ قبول ہوتا ہے جو حلال مال سے ہو۔
صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق رسول اﷲ ﷺ نے صدقہ کے آداب کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ صدقہ کا مال اس انداز سے دو کہ تم خود فقیر اور مفلس نہ بن جاؤ بل کہ کچھ غناء، باقی رہے۔ یعنی اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کے بہ قدر مال و اسباب رکھ لو اس کے بعد جو کچھ بچ رہے اسے خدا کے نام پر خیرات کر دو اور پھر خیرات کرنے میں یہ بھی بات پیش نظر رہے کہ صدقہ کا مال پہلے ان لوگوں کو دو جن کی ضروریات زندگی تمہاری ذات سے وابستہ ہیں۔
اہل و عیال کی ضروریات کہاں تک پورا کرنا نیکی ہے اس کے لیے قرآن حکیم سے ایک اصول تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مفہوم: ''کھاؤ پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو۔'' انسان کے پاس جس قدر آمدنی کے وسائل ہوں ان کے ذریعہ حلال مال کما کر اہل و عیال پر خرچ کرتا رہے لیکن اس خرچ میں بھی اعتدال اور میانہ روی شامل رہے۔
سورۃ الفرقان میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے اوصاف بیان فرماتے ہوئے یہ خوبی بھی بیان فرمائی: مفہوم: ''اور رحمن کے بندے وہ ہیں کہ جب وہ خرچ کریں تو نہ فضول خرچی کریں اور نہ تنگی کریں۔ بل کہ ان کا خرچ اس کے درمیان اعتدال کے ساتھ ہوتا ہے۔''
اس سے انسان کو ایک طرف تو سکون ملے گا اور دوسری طرف بیوی بچوں کے اندر قناعت پسندی پیدا ہوگی جو آئندہ چل کر اولاد کی تربیت کا حصہ بن جاتی ہے کہ وہ اولاد خود بھی فضول خرچی سے بچتی ہے۔ لہٰذا انسان اپنے اہل و عیال کے لیے رہائش میں خرچ کرے، ان کے کھانے، پینے، لباس کے لیے خرچ کرے اور پھر اﷲ توفیق دے تو ان کے لیے آسائش بھی مہیا کرے یعنی گھریلو سہولیات کا انتظام کرے جس سے زندگی آرام و راحت سے گزرے اور اسلام نے جائز حد تک زیب و زینت اختیار کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔ اس لیے اہل و عیال پر شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے آرائش کی مد میں بھی خرچ کر سکتا ہے۔ ال غرض انسان اپنے اہل و عیال کی رہائش، آسائش اور آرائش پر تو خرچ کر سکتا ہے لیکن ایک چیز سے اسلام نے قطعی طور پر روکا ہے اور وہ ہے نمائش اور دکھاوا، دوسروں کے اہل و عیال پر اپنے اہل و عیال کی امارت اور اپنی دولت ظاہر کرنا۔ قرآن و سنت میں اس سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔
دور جدید میں نمود و نمائش ایک ایسی بیماری جس کی خاطر انسان حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر دولت کے حصول میں سرگرداں ہے اور اس تپتے سراب زدہ صحرا کا کوئی کنارہ نہیں ہے جس کا نتیجہ بے سکونی اور جرائم کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
فلاں کے بچے ایسے کپڑے پہنتے ہیں میں اپنے بچوں کو اس سے بڑھ کر پہناؤں گا، فلاں کے اہل و عیال کے پاس ایسی سواری، میں اس سے عمدہ سواری لاؤں گا۔ یہ دوڑ نہ ختم ہونے والی ریس ہے اس لیے اسلام نے ہمیں قناعت، صبر اور شُکر کی تعلیم دی۔ بس انسان حلال مال کمانے کی فکر کرے اور اہل و عیال پر فضول خرچی اور نمائش کے جذبہ سے پاک ہو کر خرچ کرے اور ہر وقت اہل و عیال کے اندر اخلاقی اوصاف پیدا کرنے کی فکر رکھے، بیوی بچوں پر خرچ کرنے کے دوران اگر بے جا فرمائشیں کرنے کا جذبہ نظر آنے لگے تو انہیں اپنے سے کم تر افراد کا سامنا کرائے اور پھر اﷲ کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دے۔
رسول اکرم ﷺ نے اپنی اولاد کو بالکل اس طرح تعلیم دی۔ دربار نبوی ﷺ میں چند غلام آئے آپؐ کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی طرف سے گزارش آئی کہ ایک غلام کام کاج کرنے کے لیے عطا فرما دیں، اس لیے کہ کام کرتے کرتے ہاتھوں پر نشان اور پانی کا مشکیزہ لادنے سے کندھوں پر نشان پڑ گئے ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
اے بیٹی فاطمہ! کیا میں تمہیں غلام اور یہ دنیا اور جو کچھ اس دنیا میں ہے اس سے بہتر چیز نہ دوں؟ عرض کیا: ضرور۔ فرمایا: جب تم بستر پر لیٹا کرو تو 33 بار سبحان اﷲ، 33 بار الحمدﷲ اور 34 بار اﷲ اکبر کہہ لیا کرو۔
غور فرمائیے! بیٹی نے ملازم کام کرنے کے لیے مانگا لیکن جواب میں باپ نے مشقانہ انداز میں کتنی عمدہ تربیت فرمائی۔ اہل و عیال پر خرچ کرنے کے بعد ان کو جتلانا نہیں چاہیے۔ اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: مفہوم: ''اے ایمان والو! تم اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر ضایع نہ کرو۔''
اہل و عیال پر خرچ کرنے کے دوران یہ بات بھی معاشرہ میں سامنے آتی ہے کہ لوگ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں، ابوداؤد میں حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کی روایت میں رسول اکرم ﷺ نے اس شخص کے لیے جنّت کی بشارت دی ہے جو اپنی بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دیتا ہے۔ لہٰذا انسان معاشرہ میں رہتے ہوئے اپنے اہل و عیال پر خرچ تو کرتا ہی ہے لیکن اگر یہ خرچ قرآن و سنّت کی ان تعلیمات کے ساتھ ثواب سمجھ کر کیا جائے تو یہی اجر و ثواب کا باعث ہوگا۔ اور سورۂ فرقان میں اﷲ تعالیٰ نے جو دعا سکھائی ہے وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے خوب مانگے۔ مفہوم: ''اے اﷲ! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقین کا راہ نما بنا دے۔''