ادارہ ترقیات کراچی میں غیرقانونی بھرتیوں کا بڑا اسکینڈل سامنے آگیا، مبینہ جعلی اور مشکوک بھرتیوں کے الزام میں53 ملازمین کی تنخواہیں بند کردی گئیں اور ڈپٹی سیکرٹری و پروگرام آفیسر آئی ٹی سمیت5 افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
وزیر بلدیات کی ہدایت پر ڈی جی کے ڈی اے نے 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیدی ہے، جس کے بعد غیرقانونی بھرتیوں میں ملوث بڑے افسران کے بے نقاب ہونے کا امکان ہے۔
انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق ادارہ ترقیات کراچی میں مبینہ جعلسازی سے کی گئی غیر قانونی بھرتیوں کا بڑ اسکینڈل منظر عام پر آگیا ہے جس میں امکان کیا جارہا ہے کہ سیکڑوں افراد کو مبینہ جعلسازی سے کے ڈی اے میں بھرتی کیا گیا ہے۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ کے ڈی اے کے جعلساز افسران نے مبینہ لاکھوں روپے نذرانوں کے عوض اپنے رشتے داروں اور اپنے آبائی گاؤں کے لوگوں کو بھی کے ڈی اے میں بھرتی کرالیا ہے جس میں اہم کردار اور پورے کھیل کا ماسٹر مائنڈ محکمہ فنانس کے ایک سابق اعلیٰ افسر کو قرار دیا جارہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ آئی ٹی،محکمہ فنانس اور سیکرٹریٹ کے افسران کا مشترکہ کھیل بے نقاب ہونے پر ادارے میں زبردست کھلبلی مچ گئی ہے اور مذکورہ افسران اپنے اپنے بھرتی کرائے گئے لاڈلوں کو بچانے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔
کے ڈی اے کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر قانونی بھرتی کیے گئے ملازمین کوایم آر نمبر میں کی گئی جعلسازی سے پکڑا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈی جی کے ڈی اے سید شجاعت حسین نے غیر قانونی بھرتیوں پر کسی قسم کے دباؤ میں آنے سے انکار کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں 53 مشکوک بھرتی شدہ ملازمین کی تنخواہیں بند کرنے کا حکم دیدیا ہے جبکہ غیر قانونی بھرتیوں میں ملوث ہونے کے امکانات پر 5 افسران کو معطل کیا گیا ہے جس میں ڈپٹی سیکرٹری ظفر عباسی ،پروگرام آفیسر انفارمیشن ٹیکنالوجی نور احمد، اکاؤنٹ آفیسر پولی کلینک فنانس اینڈ اکاؤنٹس محمد جمیل،اسٹینو گرافر بل کلرک شکیل احمد اور سینئر آڈٹ آفیسر فنانس محمد یوسف شامل ہیں۔
جن ملازمین کی تنخواہیں بند کی گئی ہیں ان میں صنوبر اقبال کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ، خضراافضل لائنز ایریا پروجیکٹ، عبدلواسع صدیقی گلزار ہجری محکمہ انجینئرنگ، پی اینڈ یو ڈی ڈیپارٹمنٹ کی حنا علیم، صائمہ عادل، سید عباد انور رضوی، ماہ ریب عمران، اویس وہاب، دلدار احمد،اے پی سی لینڈ کے کامران علی، لائنز ایریا پروجیکٹ کے عتی الرحمن، ری سیٹلمنٹ کے جمیل احمد، ملیر بند کے عظیم خالد شامل ہیں۔
ان کے علاوہ نیو اسکیم لینڈ کے محمد رضی،لینڈ اینڈ اسٹیٹ کے محمد سرفراز اسلم،لائنز ایریا پروجیکٹ کے اللہ بخش،قصبہ ٹاؤن شپ کے کائنات جاوید، پبلک ہاؤسنگ کے عادل مجید، لانڈھی ٹاؤن شپ لینڈ کے عبداللہ قریشی، وی اینڈ آر لینڈ کے عبدالواسع صدیقی، جوہر ڈویژن محکمہ انجینئرنگ کے حمزہ شفیع،ریکوری ڈیپارٹمنٹ کے احمد قریشی،ری سیٹلمنٹ کے عدیل خان بھی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں محمد خضر،کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ کی ادینہ جاوید،کورنگی ڈویژن شعبہ انجینئرنگ کے محمد عامر،فنانس اینڈ اکاؤنٹس کے امیر حمزہ،نامعلوم ڈیپارٹمنٹ کے محمد عاطف،لائنز ایریا پروجیکٹ کے عبدالرحمن، نامعلوم محکموں کے فہدناصر،محمد عمیر،حمزہ علی اور سعدالرحمن، ویلفیئر سیکرٹریٹ کی شگفتہ، سیکرٹریٹ کے آصف سومرو،محکمہ لینڈ کے سید حسن رضا، سیکرٹریٹ کے عمران سلیم شامل ہیں۔
اسی طرح انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے اویس احمد، سیکرٹریٹ کی شازیہ فاطمہ، شبانہ فاطمہ، سونیا احمد،ندا جاوید،اسماءکنول،سید وسیم الحسن،اسد حسین،ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے شارق اسحاق زئی،سید عامر رضا،انجینئر ڈیپارٹمنٹ کے حسام الدین، سیکرٹریٹ کی ارم فرزانہ،ویلفیئر سیکرٹریٹ کی ملکہ،پی اینڈ یو ڈی عمران علی خان،لینڈ کے وسیم احمد اور ویلفیئر سیکرٹریٹ کے محمد وقاص عباسی کے نام شامل ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے سید شجاعت حسین نے وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کی ہدایت پر غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ہے جس کا چیئرمین ڈپٹی سیکرٹری ایڈمن سید معین الدین اطہر کو بنایا گیا ہے جب کہ ممبران میں ڈپٹی ڈائریکٹر آئی ٹی سید اظہار الحق ہاشمی اور اکاؤنٹ آفیسر فنانس اینڈ اکاؤنٹ سہیل باسط شامل ہیں۔
دریں اثنا ذرائع نے مزید انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ 2 سالوں کے ریکارڈ کی چھان بین شروع کردی گئی جس کے بعد اس اس سے قبل کے ریکارڈ کی بھی اسکروٹنی کی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کے ڈی اے میں سیکڑوں کی تعداد میں غیر قانونی بھرتیوں کا مزید بھانڈا پھوٹنے والا ہے۔