اقوام متحدہ کا 79 واں اجلاس اور اس کی اہمیت
اقوام متحدہ کی اسمبلی کا 79 واں اجلاس ماہ ستمبر کی 10 تاریخ سے شروع ہونے جا رہا ہے۔ 193 رکنی اسمبلی کے اس اجلاس میں اعلیٰ سطح پر بحث 24 سے 30 ستمبر تک جاری رہے گی۔
بین الاقوامی امن و سلامتی اور دیگر عالمی امور کے حوالے سے اقوام متحدہ کا ادارہ اپنی خاص اہمیت رکھتا ہے، اسی لحاظ سے اس اجلاس کی بھی خاص اہمیت ہے کہ دنیا اس وقت کئی عالمی تنازعات کا شکار ہے اور خاص طور پر غزہ میں جاری شورش عالمی توجہ کی متقاضی ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے منگل کو جاری کردہ مقررین کی عارضی فہرست کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف 26 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سالانہ ڈیبیٹ سے خطاب کریں گے۔ یہ ایک اہم موقع ہوگا کہ پاکستان کشمیر اور فلسطین کے معاملات پر اقوام متحدہ کے اہم پالیسی ساز ادارے جنرل اسمبلی میں اپنا موقف پرزور طریقے سے پیش کرسکتا ہے۔
10 ستمبر سے شروع ہونے والا اسمبلی کا 79 واں اجلاس فلسطین، یوکرین اور سوڈان سمیت جاری تنازعات کے ساتھ دنیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان ہوگا۔ لیکن اسمبلی کے بھاری ایجنڈے کا مقصد ایک نئے عالمی ترقیاتی فریم ورک کی تعمیر کےلیے اسٹیج تیار کرنا بھی ہے جو کرۂ ارض کی حفاظت کرے اور تمام لوگوں کےلیے مساوات، انصاف اور خوشحالی کو فروغ دے۔
اجلاس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیریس گزشتہ سال کے واقعات کا احاطہ کرتے ہوئے تنظیم کے کام پر اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔ گوٹیریس اس اعلیٰ سطح ہفتے کے دوران اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں مستقبل کا پرعزم سربراہ اجلاس بھی منعقد کررہے ہیں۔ یہ سربراہی اجلاس 22 اور 23 ستمبر کو منعقد ہوگا۔ توقع ہے کہ اس میں مستقبل کے معاہدے کو منظور کیا جائے گا جس میں ایک عالمی ڈیجیٹل کمپیکٹ اور مستقبل کی نسلوں سے متعلق اعلامیہ شامل ہوگا۔ اقوام متحدہ نے اس سربراہی اجلاس کو ایک اعلیٰ سطح کی تقریب قرار دیا ہے جس کا مقصد حال کو بہتر کرنا اور مستقبل کے تحفظ کےلیے ایک نیا بین الاقوامی اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق موثر عالمی تعاون ہماری بقا کےلیے انتہائی اہم ہے لیکن عدم اعتماد کی فضا میں اور فرسودہ اسٹرکچر کے استعمال کے باعث سبب جو آج کے سیاسی اور اقتصادی حالات کی عکاسی نہیں کرتیں، اسے حاصل کرنا مشکل ہے۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس کی اہمیت
اقوامِ متحدہ کے قیام ہی سے اس عالمی تنظیم کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ناقدین اسے ڈیبیٹنگ کلب قرار دیتے ہیں لیکن جنرل اسمبلی کے اجلاس کی اہمیت کا انکار اس لیے بھی ممکن نہیں کیوں کہ اس میں اقوامِ عالم کے نمائندوں کو ایک چھت تلے جمع ہونے اور مختلف موضوعات پر اپنا مؤقف دنیا کے سامنے رکھنے کا موقع ملتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں امن کی اہمیت اجاگر ہوئی اور اس سلسلے میں جنرل اسمبلی میں دنیا کے ہر خطے کی نمائندگی کی اس روایت کا آغاز بھی اسی دور سے ہوا۔
پاکستان کی رکنیت
پاکستان سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے۔ اس سال 6 جون کو غیر مستقل ارکان کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں پاکستان 182 ووٹ لے کر 2025-26 کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہوا تھا۔ پاکستان سات بار سلامتی کونسل میں اپنی خدمات انجام دے چکا ہے۔
اس سال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہونے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'اس نازک وقت میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی بھرپور حمایت کے ساتھ سلامتی کونسل میں ہمارا انتخاب عالمی برادری کے پاکستان کی سفارتی حیثیت اور عالمی امن و سلامتی کے لیے ہمارے عزم پر اعتماد کا ثبوت ہے۔ ہم عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کےلیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔ ہم اقوام کے درمیان امن، استحکام اور تعاون کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔'
بلاشبہ پاکستان جنگ کی روک تھام اور امن کے فروغ کےلیے اقوام متحدہ کے چارٹر کے وژن پر اپنے عزم عالمی خوشحالی کو فروغ دینا اور انسانی حقوق کے عالمی احترام کو فروغ دینا کی پاسداری کا خواہاں ہے۔
پاکستان کے لیے یہ اہم موقع ہے کہ عالمی پلیٹ فارم پر کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے ساتھ فلطسین کے معاملے کو بھی اجاگر کرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔