آل پارٹیزکانفرنس کے بعد

29 جون کی آل پارٹیز کانفرنس کے آغاز پر جب شرکاء کانفرنس کو17 جون کے سانحہ کی وڈیو فلم دکھائی گئی

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

29 جون کی آل پارٹیز کانفرنس کے آغاز پر جب شرکاء کانفرنس کو17 جون کے سانحہ کی وڈیو فلم دکھائی گئی تواس کے مناظر دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار ہو گئی ۔ قبل ازیں ، ڈاکٹر طاہرالقادری نے17 جون کے سانحہ کی تفصیلات بیان کیںکہ کس بیدردی سے ان کے کارکنوں کو شہید کیا گیا ، یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس کارروائی کا مقصد ان کو دہشت زدہ کرنا اور وطن واپسی سے روکنا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے بعد چوہدری شجاعت حسین نے خطاب کیا اور بغیر کسی لگی لپٹی کے کہا کہ ایک رکنی کمیشن ہو ، یا 100 رکنی ، جب تک وزیراعلیٰ پنجاب مستعفی نہیں ہوں گے، سانحہ ماڈل ٹاون کی منصفانہ انکوائری ممکن نہیں ہوگی۔

چوہدری شجاعت حسین کے بعد یکے بعد دیگرے تمام شرکا ء کانفرنس نے جہاں سانحہ ماڈل ٹاون کی مذمت کی ، وہاں ان کے اس ایک نکاتی مطالبہ کی تائید کی کہ سانحہ ماڈل ٹاون کی منصفانہ انکوائری کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب کا مستعفی ہونا ضروری ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر چوہدری شجاعت حسین کا یہ مطالبہ ، متفقہ اعلامیہ کی صورت میں سامنے آیا ۔ حقیقتاً آل پارٹیز کانفرنس کا سب سے زیادہ کریڈٹ اگر کسی کو جاتا ہے تو وہ چوہدری شجاعت حسین ہیں ، جنھوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے لیے ملک گیر رابطے کیے اور پنجاب سمیت باقی تین صوبوں سندھ ، خیبر پختون خوا ، بلوچستان ، اور فاٹا کی نمایندگی کو بھی یقینی بنایا۔

اس کالم نگار کی اطلاع کے مطابق چوہدری برادران نے اس مرحلہ پر سابق صدر آصف علی زرداری سے براہ راست رابطہ قائم نہیں کیا ، لہٰذا آل پارٹیز کانفرنس میں پیپلزپارٹی کی عدم شرکت کا معاملہ اہم نہیں۔ چوہدری برادران کو پورا یقین ہے کہ جیسے ہی حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو گی، پیپلزپارٹی بھی متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ہوگی۔ سردست چودھر ی برادران کے لیے چیلنج یہ تھا کہ کس طرح پاکستان تحریک ِانصاف، پاکستان عوامی تحریک ، جماعت اسلامی ، ایم کیوایم اور شیخ رشید کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے کامیاب انعقاد کے ذریعہ چوہدری برادران اس چیلنج سے نمٹ چکے ہیں ۔

ایک ایسے وقت میں ، جب کہ عمران خان ، حکومت کے خلاف لانگ مارچ کے لیے14 اگست کی تاریخ دے چکے ہیں ، اور طاہرالقادری ، چوہدری برادران بھی رمضان المبارک کے بعد حکومت کے خلاف فیصلہ کن راونڈ شروع کرنے کی تیاری کر چکے ہیں ،آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعہ اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان رابطوں کا یہ نیا سلسلہ ، نوازشریف حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس پر مستزاد ، آل پارٹیز کانفرنس میں شریک پارٹیاں حکومت کے خلاف اپنی اپنی اسٹریٹ پاور شو کر چکی ہیں۔

23 جون کو عوامی تحریک اورمسلم لیگ قائداعظم کے کارکنوں نے ثابت کر دیا کہ پنجاب میں وہ تحریک انصاف کے بغیر بھی حکومت کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔ حقیقتاً ، ''طاہرالقادری ، چوہدری برادران لندن ملاقات '' کے بعد ہی پنجاب میں حالات نے اس طرح کروٹ بدلی کہ عمران خان جو عملاً پیپلزپارٹی کی تقلید میں ' فرینڈلی اپوزیشن' بن چکے تھے ، یکدم اپنی پوزیشن تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ اس طرح کراچی میں ایم کیوایم کی اسٹریٹ پاور ایک ایسی حقیقت ہے ، جس پر دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ۔ پاک فوج سے اظہار یک جہتی کے لیے ایم کیوایم کاحالیہ جلسہ آل پارٹیزکانفرنس کے بعد اپوزیشن کی طرف سے طاقت کا ایک اور مظاہرہ ثابت ہوا۔


اطلاعات یہ ہیں کہ الطاف حسین، ڈاکٹر طاہر القادری کو کہہ چکے ہیں کہ اب کی بار جب وہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کریں گے ، تو ایم کیوایم ان کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوگی۔ اس طرح ، خیبر پختون خوا میں عمران خان حکومت میں ہوں یا نہ ہوں، ان کی سڑیٹ پاور امرمسلمہ ہے ۔ راولپنڈی میں ، جہاں جی ایچ کیو واقع ہے ، شیخ رشید بھرپور احتجاج کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ گویا ، اپوزیشن کے پاس حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کامعقول بندوبست موجود ہے؛ یوں بھی حکومت بنانے کے لیے بھلے ووٹ درکار ہوں ، حکومت گرانے کے لیے صرف سڑکوں پر احتجاج کی ضرورت ہوتی ہے ۔

آل پارٹیز کانفرنس ، اگرچہ صرف ایک نکاتی ایجنڈا ،سانحہ ماڈل ٹاون پر طلب کی گئی تھی ، لیکن اس کے مضمرات بڑے گہرے اور بڑے دورس ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس ، حکومت کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے متحدہ جدوجہد کرنے کا واضح پیغام ہے ،بلکہ اس نے حکومت اوراپوزیشن کے درمیان ایک خط امتیاز کھینچ دیا ہے ؛ اب ایک طرف حکومت اور دوسری طرف عوامی تحریک ، تحریک انصاف ، مسلم لیگ قائداعظم، ایم کیوایم ہیں ۔ پیپلزپارٹی ابھی'' دیکھو اور انتظار کرو'' کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

جماعت اسلامی کا معاملہ 'نیمے دروں نیمے بروں ' والا ہے ۔ البتہ بہت طویل مدت کے بعد جماعت اسلامی کا اعلیٰ سطح کا وفد ( حافظ سلمان بٹ ، میاں مقصود احمد ، نذیر احمد جنجوعہ ) نہ صرف یہ کہ ادارہ منہاج القران میں آل پارٹیزکانفرنس میں شرکت کے لیے آیا ، بلکہ آیندہ حکمت عملی طے کرنے کے لیے ڈاکٹر طاہرالقادری سے ایک اور ملاقات کا عندیہ بھی دیدیا ۔ مطلب واضح ہے کہ جماعت اسلامی پنجاب میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں اپنا کردار تلاش کر رہی ہے ۔آل پارٹیز کانفرنس میں مسلم لیگ قائداعظم کے بعد جو دوسری پارٹی سب سے زیادہ ڈاکٹر طاہر القادری کے قریب نظر آ رہی تھی ، وہ ایم کیوایم تھی لیکن اب تک کی اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے درمیان سب اچھا نہیں۔

ذرایع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی وطن واپسی کے بعد اپوزیشن کے درمیان ' انڈرسٹینڈنگ' یہ تھی کہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی فائنل کال باہمی مشاورت سے دی جائے گی ۔ 26 اور 27 کی درمیانی رات عمران خان کی طرف سے ایک بار پھر ڈاکٹر طاہرالقادری کو پیغام بھیجا گیا کہ27جون کو بہاولپور جلسہ میں لانگ مارچ کی کال نہیں دیں گے ، بلکہ صرف یہ اعلان کریں گے کہ چار نشستوں کی تحقیقات کا مطالبہ ختم ، اب حکومت کے خلاف راست اقدام ہو گا ،؛ لیکن اس کے برعکس جلسہ میں عمران خان نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔ظاہراً ً ، ان کے اس اقدام کا مقصد حکومت کے خلاف تحریک میں طاہر القادری اور چوہدری برادران سے آگے بڑھ کر خود فرنٹ سیٹ پر بیٹھنا تھا۔

عمران خان کو خطرہ ہے کہ اس مرحلہ پر جب کہ حکومت بیک فٹ پر جا چکی ہے، اگر وہ حکومت کے خلاف فرنٹ فٹ پر نہیں کھیلیں گے تو حکومت گرنے پر طاہرالقادری اور چوہدری برادران متبادل قوت تسلیم کیے جائیں گے اور وہ مارچ 2009 ء کی طرح ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔ عمران خان کی اس جلدبازی کا نتیجہ یہ برآمد ہواکہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے درمیان عدم اعتماد کی دراڑ پیدا ہو گئی۔ چوہدری برادران اور شیخ رشید اس دراڑ کو ختم کرنے کے لیے بہت کوششیں کر رہے ہیں ، لیکن جب تک خود عمران خان اس دراڑ کو ختم کرنے کی سعی نہیں کریں گے ، یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو ں گی ۔

وجوہات جو بھی ہوں ،حقیقتاً ، پنجاب کے دارالحکومت میں آل پارٹیز کانفرنس کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان رابطوں میں بہت تیزی آگئی ہے۔ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان طبل جنگ بج چکا اور اس مرحلہ پر اگر چوہدری برادران کی کوششوں کے نتیجہ میں عمران خان اورڈاکٹر طاہر القادری حکومت کے خلاف ''متحدہ لانگ مارچ '' پر رضامند ہو جاتے ہیں، تو اگست کا مہینہ نوازشریف حکومت کے لیے آسان نہیں ہو گا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس صورت حال سے کس طرح عہدہ برآ ہوتی ہے۔
Load Next Story